تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     28-01-2020

ضدی بچے

جن لوگوں کے بچّے بہت ضدی ہوتے ہیں ‘ وہ اُن سے تنگ آجاتے ہیں ۔ یہ ضدی بچّے ماں باپ کی کوئی بات نہیں مانتے اور اپنی ہر بات منوا کر چھوڑتے ہیں ۔ظاہر ہے کہ دنیا میں انسان کی ہر خواہش پوری نہیں ہو سکتی ۔ دل لبھانے والی ہر چیز بچّے کو دلائی تو نہیں جا سکتی۔ نہ ہی ہر وقت اسے جھولے دلائے جا سکتے ہیں ۔امیر سے امیر شخص کے وسائل کی بھی ایک حد ہوتی ہے ۔خواہشات تو کبھی بھی پوری نہیں ہو سکتیں ۔ کسی بہت بڑے دانا کا قول ہے کہ زندگی کو ضرورت میں بسر کرو‘ خواہش میں نہیں۔ ضرورت فقیر کی بھی پوری ہوجاتی ہے اور خواہش بادشاہوں کی بھی ادھوری ہی رہ جاتی ہے ۔ 
جب ایک ضدی بچّے کی خواہش پوری نہیں ہوتی تو وہ شور مچاتا ہے‘ روتا ہے اور آسمان سر پہ اٹھا لیتا ہے ۔کبھی کبھار ایسا ہو تو پھر بھی کوئی بات ہے ‘لیکن اگر روزانہ یہی عمل‘ یعنی ضد کو آٹھ دس دفعہ دہرایا جائے‘ توبندہ زچ ہو جاتا ہے ۔ ضدی بچوں کے والدین ان سے عاجز ہوتے ہیں ۔ایک دوسرے سے وہ کہتے ہیں کہ فلاں کا بچّہ کتنا شریف ہے ۔ چپ چاپ ہر بات مان لیتا ہے ۔ بچّہ جب تھوڑا سا بڑا ہوتاہے اور جب وہ بات سمجھنے کے قابل ہو جاتا ہے ‘تو اس سے کہا جاتا ہے کہ تمہارے کزنز کتنے اچھے ہیں ۔ اس کے سامنے دوسرے بچوں کی مثالیں دی جاتی ہیں ۔وہ وقتی طور پر شرمندہ اور خاموش ہو جاتا ہے‘ لیکن پھر ظاہرہے کہ چلنا تو اس نے اپنی فطرت کے مطابق ہی ہوتاہے ۔ ضدی بچوں کے والدین کبھی دوسروں کے شریف بچوں کو دیکھتے ہیں ‘ پھر مڑ کر اپنے بچّے کو دیکھتے ہیں اور صبر کے گھونٹ پی کر رہ جاتے ہیں ۔ 
یہاں میں ایک اور scenarioآپ کے سامنے رکھتا ہوں ۔دنیا میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں ‘ جن کے بچّے ایب نارمل ہیں ۔ وہ خود اٹھ کر پانی نہیں پی سکتے اور رفع ٔ حاجت نہیں کر سکتے۔آپ کو تین چار سال تک اپنے بچے کو سنبھالنا پڑتا ہے ۔ اس کے بعد کم از کم وہ رفع ٔ حاجت کے قابل تو ہوجاتا ہے ۔بے شمار ایسے والدین دنیا میں موجود ہیں ‘ جن کے بچّے ساری زندگی اپنے کپڑے گندے کرتے رہتے ہیں۔ دن میں کئی بار ان کے کپڑے تبدیل کرانا پڑتے ہیں ‘ نیز اس بات کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ یہ چیزیں سیکھ لے گا۔ آپ کو ساری زندگی اس بچّے کو سنبھالنا ہے ۔ آپ 90برس کی عمر کو پہنچ کر بہت بوڑھے ہو جاتے ہیں تو اس وقت بھی آپ کا 60سال کا بیٹا آپ ہی کی ذمہ داری ہوتا ہے ۔ وہ شادی کے قابل نہیں ہوتا۔ آپ کو اس چیز کا بندوبست کرنا پڑتا ہے کہ آپ کی موت کی صورت میں کوئی اس ایب نارمل بچّے کا خیال رکھنے والا موجود ہو۔ اس کے لیے وسائل کا بندوبست کرنا پڑتا ہے ۔ 
اب آپ بتائیں کہ آپ کو ضدی بچّہ قبول ہے یا ایب نارمل ؟ آپ کا ضدی بچّہ خود کھانا کھا لیتا ہے ۔ ایب نارمل بچّے کو ایک ایک لقمہ خود کھلانا پڑتا ہے ۔ یہ الگ بات کہ ایب نارمل بچّوں کے والدین کے دلوں میں اللہ ان کی محبت کا جو دریا بہا دیتاہے ‘ اس کے سامنے یہ ساری زحمت کچھ بھی نہیں ہوتی ۔ آپ کا ضدی بچّہ اپنے جوتے کے تسمے باندھ سکتا ہے ۔ اسے اپنی گلی‘ اپنا گھر اور اپنا سکول یاد رہتا ہے ۔ کبھی کبھی وہ آپ سے ایک ایسا سوال کرتا ہے کہ آپ کے پاس اس کا جواب نہیں ہوتا اور آپ اس دانشمندانہ سوال پہ حیرت زدہ رہ جاتے ہیں ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنا دماغ بھر پور طریقے سے استعما ل کر رہا ہے ۔
یہ بات ٹھیک ہے کہ ضدی بچّے خدا کی طرف سے ماں باپ کی آزمائش ہوتے ہیں ۔ یہ دنیا آزمائش کے لیے ہی بنی ہے ۔ دوسری طرف یہ بات بھی درست ہے کہ یہ ضدی لوگ نہ ہوتے تو دنیا کا نظام اس طرح نہ چل رہا ہوتا ۔ دنیا میں جتنے بھی ایجادات کرنے والے سائنسدان ‘ جنگیں جیتنے والے جنرل ‘ انتخابات جیتنے والے اور اصلاحات کر کے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے والے سیاستدان ہوتے ہیں ‘ یہ سب ضدی ہی تو ہوتے ہیں ۔ فقید المثال کارنامے سر انجام دینے والا ہر شخص ضدی ہوتا ہے ۔اکثریت تو اسے یہی سمجھاتی ہے کہ بھائی یہ کام آج تک تو کسی نے کیا نہیں۔ یہ تو ممکن ہی نہیں ؛لہٰذا اپنا وقت ضائع نہ کرو۔یہ ضدی لوگ ان سب سمجھانے والوں کی بات ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتے اور اپنی دھن میں مگن رہتے ہیں؛حتیٰ کہ کامیابی ان کے قدم چوم لیتی ہے ۔گراہم بیل جب ٹیلی فون ایجاد کرنے کی کوشش کر رہا تھا تو لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد کے نزدیک تو وہ پاگل ہی تھا۔ وہ کہتے تھے کہ ایک شخص کی آواز دوسرے شہر میں سنی جائے‘ یہ کیسے ممکن ہے ؟ یہ شخص تو جھوٹا ہے‘ فراڈیا ہے ۔ 
خدا نے اپنی یہ دنیا اس طرح سے بنائی ہے کہ ضدی لوگوں کا اس میں ایک بہت بڑا قائدانہ کردار ہے ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 2007ء میں افتخار چوہدری اور جنرل پرویزمشرف کے درمیان کیا ہوا تھا؟ پورا ملک پرویز مشرف کی مٹھی میں تھا اور کوئی اس کے سامنے چوں بھی نہیں کر سکتا تھا۔ یہ افتخار چوہدری کی ضد ہی تھی‘ جس نے حالات بدل دئیے۔اُس نے کہا کہ جو ہو سکتاہے کر لو ‘ میں نہیں دیتا استعفیٰ۔ افتخار چوہدری صاحب انتہائی ضدی نہ ہوتے تو کبھی یہ سب کچھ نہ ہوتا۔ افغانستان میں غیر مشروط امریکی حمایت کی وجہ سے پرویز مشرف کے خلاف عوامی جذبات بھڑکے ہوئے تھے۔ نون لیگ اور پیپلزپارٹی سمیت سیاسی جماعتیں بھرپور زور لگانے کے باوجود پرویز مشرف کو رخصت کرنے میں ناکام ہو چکی تھیں ۔ ایک ہیرو کی ضرورت تھی ‘ جو کہ پرویز مشرف کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑا ہو جائے۔ یہ الگ بات کہ آج مڑ کر دیکھیں تو پرویزمشرف کا عہد پچھلی کئی دہائیوں میں سب سے تیز رفتار ترقی کا دور تھا۔ اپنے عروج پر یہ 8فیصد کے قریب پہنچ چکا تھا۔ یہ الگ بات کہ افتخار چوہدری نے بعد میں اپنا قد بہت تیزی سے گھٹایا ‘ لیکن خدا کی طرف سے ان کا جو کردار تھا ‘ وہ انہوں نے بھرپورادا کیا ۔
میری نظر میںاسی طرح کے ضدی عمران خان صاحب ہیں ۔ بے پناہ ضد ہی کی وجہ سے وہ کرکٹ میں اتنی عظیم کامیابی حاصل کر پائے‘ اسی وجہ سے انہوں نے شوکت خانم کینسر ہسپتال اور دنیا کی بہترین یونیورسٹی بنائی‘ اسی کی وجہ سے بالآخر وہ وزیر اعظم بنے ‘لیکن مجھے تو اس میں اب رتّی برابر شک بھی نہیں کہ وزیر اعظم عمران خان کی کامیابی کے پیچھے اُن کا ضدی پن ہے۔
بات سیاست کی طرف نکل گئی ۔میرے کالم کا موضوع ضدی افراد ہیں‘ جن کا بعض اوقات اس دنیا میں بہت اہم کردار ہوتا ہے ‘ کیونکہ لوگوں کی ایک بہت بڑی اکثریت تو بھیڑ چال چلنے والوں کی ہوتی ہے ۔ اگر ضدی لوگ ان کے لیے راستہ متعین نہ کریں ‘تو دنیا کا نظام الٹ پلٹ ہو جائے‘اگر آپ کا بچّہ ضدی ہے تو دل چھوٹا نہ کریں ۔ ہو سکتاہے کہ زندگی میں اس نے کوئی ایسی کامیابی حاصل کرنی ہو‘ جس کے لیے ضد لازم و ملزوم ہو... !

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved