دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخاب کی کوریج کے لیے میں پاکستان کے شہر شہر گھومتا پھرتا خیبر پختونخوا کے شہر چارسدہ جا پہنچا۔ اس وقت میں جس سے بھی ملتا صرف ایک سوال کرتا تھا کہ کیا وہ وفاقی اور صوبائی حکومت کی کارکردگی سے مطمئن ہے یا نہیں۔ چارسدہ کے مرکزی بازار میں بھی یہی سوال لے کر مائیک اور کیمرے کے ساتھ میں لوگوں سے مل رہا تھا کہ مجھے کسی نے پنڈلی سے پکڑ کر ہولے سے اپنی طرف کھینچا۔ غیر اختیاری طور پر میں نے نیچے کی طرف دیکھا تو میرے بالکل ساتھ ہی ایک بزرگ موچی زمین پر بیٹھا جوتے مرمت کر رہا تھا۔ ہم دونوں کی نظریں ملیں تو اس نے اشارے سے پیغام دیا کہ وہ بھی کچھ کہنا چاہتا ہے۔ میں اس کے ساتھ ہی بیٹھ گیا اور مائیک اس کے سامنے کر کے اپنا سوال دہرا دیا۔ موچی کے ہاتھ میں ایک جوتا تھا جس میں وہ ٹانکے لگا رہا تھا۔ میرا سوال سن کر بولا، ''اس کو چھوڑو، میں بس ووٹ عمران خان کو دوں گا‘‘۔ میں نے پوچھا، 'کیوں‘؟۔ ''اس نے مجھے عزت دی ہے‘‘، اس نے مختصر سا جواب دے کر مجھے الجھا دیا۔ میں نے تفصیل چاہی تو اس نے ٹوٹی پھوٹی اردو اور رواں پشتو کو ملا جلا کر کہا، ''پہلے میں ہسپتال جاتا تو کوئی میری بات نہیں سنتا تھا، پولیس والے سب کے سامنے بے عزت کر دیا کرتے تھے، ابھی تم میرے ساتھ چلو ہسپتال میں ڈاکٹر ملے گا، پولیس والا بھی عزت سے پیش آئے گا‘ اور تو اور یہاں کا کونسلر بھی حال چال پوچھتا رہتا ہے۔ ابھی میں مروں یا جیوں میرا ووٹ عمران خان کا ہے‘‘۔ اس بوڑھے موچی کی یہ بات میرے ذہن میں پیوست ہو گئی۔ اس کے بعد پشاور سے لے کر ڈیرہ اسمٰعیل خان تک اور ہری پور سے لے کر شانگلہ تک جس سے ملا اس نے چارسدہ کے کفش دوز کی تصدیق ہی کی۔ عمران خان نے خیبر پختونخوا والوں کو اپنی صوبائی حکومت کے ذریعے جو عزت دی تھی‘ وہ انہوں نے کئی گنا بڑھا کر انہیں واپس کر دی۔ صوبے کی تاریخ میں پہلی بار کسی سیاسی جماعت کو مسلسل دوسری بار الیکشن جیتنا نصیب ہوا۔ یہاں کام کا اثر یہ ہوا کہ جب ووٹ ڈالنے کا وقت آیا تو پنجاب اور سندھ میں دسیوں لاکھ لوگوں نے اپنے ووٹ عمران خان کی جھولی میں ڈال کر انہیں اس قابل کر دیا کہ وہ صرف خیبر پختونخوا میں نہیں وفاق اور پنجاب میں بھی اپنا رنگ جمائیں۔ پنجاب کے لوگوں نے تو بالخصوص شہباز شریف کے کیے ہوئے بے شمار ترقیاتی کاموں اور توانا گورننس کو چھوڑ کر تحریک انصاف کو حکومت دی کہ یہاں بنی ہوئی بڑی بڑی عمارتیں اداروں میں ڈھل جائیں گی کیونکہ تحریک انصاف کی خیبر پختونخوا میں پہلی حکومت نے کچھ نیا نہیں بنایا تھا بلکہ پہلے سے موجود چیزوں کو صرف ٹھیک طریقے سے چلانے کی کوشش کی تھی۔ خالی عمارتوں کو ادارے بنانا، انفرادی توانائی کو ملکی ترقی کے لیے استعمال کرنا اور عام آدمی کو سیاسی طور پر طاقتور کرنا، ہی وہ خواب تھے جو عمران خان نے سارے پاکستان اور بالخصوص پنجاب کو دکھائے تھے۔
دو ہزار اٹھارہ میں جب ان خوابوں کی تعبیر کا وقت آیا تو چند ہی دن میں ایسا لگنے لگا کہ تحریک انصاف وہ سارے وعدے بھول چکی ہے جو اس نے الیکشن مہم کے دوران کیے تھے۔ پنجاب میں تو یہ تاثر اتنا گہرا ہوتا چلا گیا کہ اب شاید و باید ہی کوئی ایسا ملے گا جسے عمران خان کے لائے ہوئے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار سے کسی بڑے کام کی امید باقی رہ گئی ہو۔ خود تحریک انصاف میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو برسرِ عام وزیر اعلیٰ پر تنقید سے نہیں چوکتے۔ حکومتی جماعت سے تعلق رکھنے والا ہر رکنِ پنجاب اسمبلی اپنے وزیر اعلیٰ کی کارکردگی سے مایوس ہو چکا ہے اور یہ مایوسی ہی کبھی پارٹی میں نئی گروہ بندی کا سبب بنتی ہے تو کبھی بغاوت کی حدوں کو چھونے لگتی ہے۔ فواد چودھری جیسے وفاقی وزیر تو اس حد تک کہہ اٹھے ہیں کہ پنجاب میں کارکردگی دکھائے بغیر وفاقی حکومت کسی صورت کامیاب نہیں ہو سکتی۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں کارکردگی کا بحران اتنی شدت اختیار کر چکا ہے کہ وزیر اعظم کے بعض دوستوں کی طرف سے کئی بار انہیں بتایا گیا ہے کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ وفاقی حکومت کو بھی متاثر کر ڈالیں گے اور عملی طور پر عثمان بزدار اتنا بھاری بوجھ بن چکے ہیں کہ اب اس کو اٹھانا وزیر اعظم کے لیے آسان نہیں رہا۔ حالات اتنے نازک ہو چکے ہیں کہ ذرا سی تیز ہوا بھی چلی تو شاید نہ چاہتے ہوئے بھی عثمان بزدار کی قربانی دے کر بڑے نقصان سے بچنے کی کوشش کی جائے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بزدار صاحب کو بدل کر پنجاب کے حالات میں کوئی با معنی تبدیلی لائی جا سکتی ہے؟ میری رائے میں اگر ایسی کوئی تبدیلی ہوئی تو وہ محض چہرے کی تبدیلی ہو گی‘ جو چند دن بعد پرانی ہو کر زیادہ بُری معلوم ہو گی۔ یہ معاملہ کچھ اور ہے۔
رے خیال میں اصل معاملہ یہ ہے کہ تحریک انصاف پنجاب میں شہباز شریف کے انداز میں حکومت چلانا چاہتی ہے۔ مجھے تحریک انصاف کے کئی اراکین اسمبلی نے ذاتی طور پر بتایا کہ جب تک شہباز شریف کے انداز میں ڈنڈا نہیں چلایا جائے گا، عوام مطمئن ہوں گے نہ بیوروکریسی کام کرے گی۔ یہ سوچ اتنی گہری ہے کہ غالباً وفاقی وزرا سے خود وزیر اعظم تک بھی یہی سمجھتے ہیں کہ شہباز شریف کا طرزِ حکومت ہی دراصل پنجاب کے لوگوں کا تقاضا ہے۔ اسی سوچ کے تابع شہباز شریف کی کارکردگی کے پیمانے پر جب عثمان بزدار صاحب کو جانچا جاتا ہے تو سوائے مایوسی کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ یہ بات قطعی طور پر بھلا دی جاتی ہے کہ شہباز شریف نے پنجاب کی حکومت میں ڈنڈے کے ساتھ ساتھ میٹرو بس اور اورنج ٹرین جیسے منصوبوں پر بے پناہ وسائل بھی استعمال کیے تھے‘ جبکہ ان کے مقابلے میں عثمان بزدار صاحب کا عالم یہ ہے کہ ان کے پاس کوئی بڑا منصوبہ تو دور کی بات چھوٹے چھوٹے ترقیاتی کام کرنے کے لیے بھی سرمایہ نہیں۔ ان کے پاس جو کچھ میسر ہے وہ ڈیرہ غازی خان اور میانوالی کے لیے کافی ہو جائے تو بہت بڑی کامیابی ہو گی۔ لہٰذا پیسے خرچ کرنے کے مقابلے میں عثمان بزدار چاہیں بھی تو شہباز شریف سے نہیں جیت پائیں گے۔ دوسرا پہلو ہے ڈنڈے کا استعمال یعنی ہر وقت واقعات کا نوٹس لینا اور افسروں کو معطل کرتے چلے جانا۔ اس میدان میں شہباز شریف کا انداز قطعاً پیروی کے قابل نہیں۔ یہ بات ویسے مکمل طور پر درست بھی نہیں کہ شہباز شریف صرف ڈنڈے کے زور پر حکومت چلاتے تھے، انہوں نے ایک نظم و ضبط ضرور قائم کر رکھا تھا‘ لیکن حکومت چلانے کے لیے ان کا بھروسا کام کرنے والے افسروں پر تھا نہ کہ سزائیں دینے پر۔ یوں بھی خود تحریک انصاف نے خیبر پختونخوا میں کون سا ڈنڈا چلایا تھا کہ حکومت عوام کو وہ کچھ دینے میں کامیاب ہو گئی جو ان کا تقاضا تھا۔
تحریک انصاف نے حکومت میں آنے سے پہلے جو وعدے کیے تھے ان میں تعلیم، صحت، پولیس اصلاحات اور بلدیات شامل تھے۔ تعلیم میں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ یکساں نصاب دینا تھا جس پر صوبے میں کوئی کام نہیں ہوا۔ یہ ظلم نہیں تو کیا ہے کہ زرعی صوبہ ہونے کے باوجود میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کی سطح پر پری میڈیکل، پری انجینئرنگ اور کمپیوٹر کے کورسز تو موجود ہیں لیکن زراعت کا کوئی ایک کورس بھی موجود نہیں۔ یہ وعدہ خلافی نہیں تو کیا ہے کہ صحت انصاف کارڈ بانٹے جا رہے ہیں لیکن دیہات میں بنیادی مراکز صحت پر کوئی توجہ نہیں۔ اسے نالائقی نہ کہیں تو کیا کہیں کہ پولیس اصلاحات کی طرف ایک قدم بھی نہیں بڑھایا گیا۔ یہ نا اہلی نہیں تو کیا ہے کہ بلدیاتی اداروں کو طاقتور کرنے کے نعرے پر وجود میں آنے والی حکومت سوا سال گزر جانے کے بعد انتخابات نہیں کرا پا رہی۔ یہ ہیں وہ اصل مسائل جن پر عثمان بزدار صاحب کو کام کرنا تھا۔ تحریک انصاف کو پنجاب میں شہباز شریف کی نقل تیار کرنے کے لیے ووٹ نہیں ملے تھے بلکہ اداروں کو ٹھیک کرنے کے لیے ووٹ ملے تھے۔ اس صوبے میں حکومت کی سب سے بڑی نالائقی یہی تو ہے کہ سوا سال سے شہباز شریف کی نقل کرنے میں پاگل ہوئی جاتی ہے، اپنے منشور پرتوجہ مبذول نہیں کرتی۔