وزیر اعظم عمران خان نے ا قتدار میں آنے کے بعد غربت کے خاتمے کے لیے مرغ بانی سکیم شروع کرنے کا اعلان کیا تھا‘ جس کے تحت محکمہ لائیوسٹاک اینڈڈیری ڈویلپمنٹ کے ذریعے غریب افراد کو ایک مرغے اور 5 مرغیوں پر مشتمل سیٹ قریباًایک ہزار روپے کے عوض دینا شروع کیا گیا تھا۔وزیر اعظم عمران خان کی یہ سکیم ‘جہاں اپوزیشن کی بہت زیادہ تنقید کی زد میں رہی‘ وہیں ضرورت مند افراد نے اسے حوصلہ افزا بھی قرار دیا تھا۔
ان دنوں وزیراعظم عمران خان نے مرغ بانی کے ذریعے معیشت کی بہتری کی اپنی تجویز پر تنقید کے جواب میں بل گیٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھاکہ اگر ہم مشرقی لوگ مرغی کے ذریعے غربت کے خاتمے کی بات کریں تو غلامانہ ذہنیت والے مذاق اڑاتے ہیں‘ لیکن جب ولایتی لوگ یہی بات کریں تو وہ شاندار منصوبہ کہلاتا ہے۔واضح رہے کہ 2016ء میں مائیکروسافٹ کے بانی اور دنیا کے امیر ترین شخص بل گیٹس نے غربت سے نمٹنے کے لیے '' مرغیاں پالو اور غربت مٹاؤ‘‘ نامی ایک منصوبے کا اعلان کیا تھا‘ جس کے تحت برکینا فاسو اور نائیجیریا سمیت مغربی افریقی ممالک کو ایک لاکھ مرغیاں عطیہ کی جانی تھیں؛ اگرچہ عمران خان اور بل گیٹس کا یہ تخفیف ِ غربت ماڈل ایک جیسا ہی ہے‘ لیکن وزیر اعظم عمران خان کے اس بیان کو سوشل میڈیا پر بہت تنقید اور مذاق کا نشانہ بنایا گیا۔
ابھی چند روز قبل اسی بیجا تنقید کے سلسلے کو بڑھاتے ہوئے ایک نجی ٹی وی چینل پر وزیر اعظم عمران خان کی مرغ بانی سکیم اور ایک بچھڑے (کٹے )کی سکیم کا حوالہ دیتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے سرگودھا سے رکن قومی اسمبلی اور پی پی پی ( سندھ) سے ایک خاتون رہنما کہہ رہی تھیں کہ کہاں ہے‘ وہ چار مرغیوں‘ ایک مرغے اور کٹے( بچھڑے) کا فلسفۂ معیشت ‘جس سے غریب عوام کی زندگیاں سنوارنی تھیں؟پی پی پی کی رہنما نے یہ بھی کہا کہ اب ان حکمرانوں کو کون سمجھائے کہ کبھی مرغیاں اور بچھڑے پالنے سے بھی کسی کی غربت ختم ہوئی ہے؟
جس دن وزیر اعظم عمران خان کی مرغ بانی سکیم پر مذکورہ بالا پروگرام دیکھا‘ اسی دن مارکیٹ سے خریدے گئے شیشے کے گلاس‘ جنہیں کسی پرانے اخبار میں لپیٹا ہوا تھا‘ گھر لا کر انہیں کھول رہا تھا‘ تو خادم اعلیٰ میاں شہباز شریف کے خطاب کے ساتھ متعارف کروائے گئے ''اجالا پروگرام‘‘ کا ایک بہت بڑا ا شتہار دکھائی دیا‘ جس میں غربت کے خاتمے کیلئے سکولوں‘ کالجوں اور طلبا کے گھروں میں سولر سسٹم تقسیم کرنے کی خوش خبری دی گئی تھی۔ جہازی سائز کے اس اشتہار میں جلی حروف سے میاں شہباز شریف کی تصویر کے نیچے تحریر تھا '' ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے‘‘۔
اپوزیشن کو مرغیاں اور (کٹے) بچھڑے شاید پریشان کرتے ہیں یا ان کا گوشت ان کی صحت کیلئے فائدہ مند نہیں معلوم ہوتا‘ اس لئے مرغ بانی سکیم‘ ابھی تک نشانے پر ہے ‘لیکن یہ لوگ نہ جانے کیوں بھول جاتے ہیں کہ ان کے معزول وزیر اعظم نواز شریف کے نام سے مستحق طلباو طالبات کو تین کروڑ انرجی سیور بلب یہ کہتے ہوئے تقسیم کئے گئے کہ اس سے غربت کا خاتمہ ہو گا ۔اب‘ اگر ایک بلب کی قیمت انتہائی کم کرتے ہوئے پچاس روپے ہی تصور کر لی جائے‘ تو تین کروڑ کو پچاس سے ضرب دے کر دیکھ لیجئے‘ سب کے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے تیس کروڑ انرجی سیورز بلب اور چھوٹے بھائی شہباز شریف کی جانب سے ڈھائی ارب روپے کی لاگت سے سولر پینل کن کو دیئے گئے ‘کہاں دیئے گئے ؟آج کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہے۔ انہیں زمین کھا گئی یا آسمان ؟ اجالا سکیم کے نام سے دیئے گئے اشتہار میں بتایا گیا تھا کہ ڈھائی ارب روپے کی مالیت سے خریدے گئے یہ سولر پینل پنجاب کے سکولوں اور کالجوں میں مفت بجلی کی فراہمی کیلئے دیئے جائیں گے ‘تاکہ وہاں سورج کی روشنی سے حاصل ہونے والی بجلی فراہم کی جا سکے اور اس کیلئے ہر کالج اور میٹرک تک سکولوں میں یہ سولرز پلانٹ لگائے جائیں گے ‘تاکہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے انہیں نجات مل سکے۔ پچاس روپے فی بلب کے حساب سے تین کروڑ انرجی سیورز اور ڈھائی ارب کے قومی خرچے سے نوجوان طالب علموں اور ووٹرز کو اپنی جانب راغب کرنے کے علا وہ لیپ ٹاپ تقسیم کرنے والے نہ جانے کس طرح مرغی انڈے کی معمولی سی سہولت کے منصوبے کو نشانہ بنائے چلے آ رہے ہیں۔
تھوڑا سا اور آگے چلیں تو میاں نواز شریف نے بھی اپنی تیسری وزارت ِعظمیٰ کے دور میں غریب اور مستحق لوگوں میں پیلی ٹیکسی سکیم کے ذریعے ملکی بینکوں کو تباہ کرنے کے بعد انرجی سیورز کے نام سے ملکی خزانے کو جھٹکا دیا‘ اس کی کوئی بات ہی نہیں کرتا؟ تین کروڑانرجی سیورز اور بیس ہزار مکمل سولر پینلز کا وزیر اعظم عمران خان کی مرغ بانی سکیم سے موازنہ کیا جائے تو سب سے اہم نکتہ سامنے آتا ہے کہ شریف برادران نے پانچ ارب روپے سے زیا دہ مالیت کی یہ اشیا مفت میں تقسیم کیں ‘جبکہ عمران خان کی سکیم صرف خواتین کیلئے مخصوص تھی اور اس سکیم سے فائدہ اٹھانے والوں کو یہ مراعات قیمتاً دی جاتی رہیں‘ جو پنجاب کے36 اضلاع میں تقسیم کی گئیں اور اس کیلئے محکمہ لائیو سٹاک پنجاب کی جانب سے اخبارات میں دیئے جانے والے اشتہارات میں جلی حروف میں '' چار مرغیوں اور ایک مرغے پر مشتمل یونٹ کی رعائتی قیمت 1050 روپے رکھی گئی ‘‘۔
جب وزیر اعظم عمران خان نے مرغ بانی سکیم کا آغاز کیا ‘تو ہر طرف سے ان پر تنقید کی گئی اور سوشل میڈیا پر اسے '' مرغی معیشت‘‘ اور '' انڈا اکانومی‘‘ کہہ کر مذاق اڑایا گیا۔ بہت سے معاصر انگریزی اخباروں نے اپنے فرنٹ پیجز پر جلی حروف پر مشتمل سر خیاں لگاتے ہوئے لکھا کہ ''جب بے نظیر بھٹو انکم سپورٹ پروگرام( بی آئی ایس پی ) سے لاکھوں گھرانے مستفید ہو رہے ہیں ‘تو ان مرغیوں پر ملکی خزانہ کیوں برباد کیا جا رہا ہے؟ اب بی آئی ایس پی کی چیئر پرسن ثانیہ نشتر نے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اپنی تقرری کے ایک سال بعد اس پروگرام کے حوالے سے جو جاں گسل تحقیقات کے بعد حیران کن حقائق بتائے ہیں ‘ انہیں سن کر سب کو سانپ کیوں سونگھ گیا ہے؟ محترمہ ثانیہ نشتر نے بی آئی ایس پی سے ایک لاکھ سے زائد مبینہ غریبوں کا بھی ذکر کیا ہے‘ جن میں سے کئی ہوائی سفر کر کے علاوہ حج جیسا فریضہ بھی انجام دے چکے ہیں‘ جو کہ صاحب ِ ثروت مسلمانوں پر فرض ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کی مرغ بانی سکیم میں پنجاب اور مرکزی حکومت نے کل اخراجات کا تیس فیصد ادا کرنا تھا‘ جبکہ اس سکیم سے فائدہ اٹھانے والوں کو بقیہ70 فیصد رقم خود ادا کی ہے۔چار مرغیوں اور ایک مرغے کی کل قیمت پندرہ سو روپے تھی‘ جبکہ یہ ایک ہزار پچاس روپے کی رعائتی قیمت پر دی گئیں ‘لیکن اس کے مقابلے میں 100 واٹ کے تین کروڑ انرجی سیورز مفت میں تقسیم کئے گئے تو بیس ہزار سے زائد سولر پینلز بطور تحفہ نوجوانوں کی نذر کئے‘ تاکہ ان کی ہمدردیوں کو ان سولرز کی چمک سے خریدا جا سکے۔
قارئین کرام!اب ‘ آپ خود ہی مرغ بانی اور اجالا سکیم کا موازنہ کر سکتے ہیں کہ کون سی سکیم واقعی تخفیف ِ غربت میں معاون ہو سکتی ہے۔