ہم ٹرینڈز کے دور میں جی رہے ہیں۔ بولنے کا ذرا سا موقع ملنے پر ہر شخص خود کو ''ٹرینڈ سیٹر‘‘ یعنی رجحان ساز ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگتا ہے۔ لوگ اچھوتا پن پیدا کرنے کی کوشش میں اوٹ پٹانگ حرکتیں کر رہے ہیں اور بضد ہیں کہ ہر الٹی سیدھی حرکت کو ایک نئے رجحان کی حیثیت سے محض قبول نہ کیا جائے‘ بلکہ اپنایا بھی جائے۔ زندگی میں کچھ انوکھا کرنے کے نام پر لوگ وہ سب کچھ کر رہے ہیں ‘جو اُن کے حوالے سے رائے تبدیل کرنے پر اُکسائے۔
فی زمانہ ایک بڑا رجحان بے ذہنی کا ہے۔ خیال رہے کہ بے دھیانی و بے خیالی اور بے ذہنی میں واضح فرق ہے۔ جب کبھی انسان کسی معاملے پر پوری یا خاطر خواہ توجہ نہ دے رہا ہو‘ تب اگر کچھ ایسا ویسا کر جائے تو ہم کہتے ہیں کہ ایسا تو بے دھیانی و بے خیالی میں ہوگیا۔ بے ذہنی کا کیس بہت مختلف ہے۔ جب انسان طے کرلے کہ بیشتر معاملات میں ذہن کو بروئے کار لانا ہی نہیں تب جو حالت پائی جاتی ہے‘ اُسے بے ذہنی کہا جاتا ہے۔ ایمان کی تو یہ ہے کہ آج کا انسان ذہن سے تھوڑا بہت نہیں ‘بلکہ اچھا خاصا الرجک ہے اور چاہتا ہے کہ بیشتر معاملات کو ذہن کی مداخلت کے بغیر ہی طے کرے۔ ذہن کو زحمت ِ کار دینے سے گریز کا رجحان اتنا قوی ہے کہ کبھی کبھی تو حیرت بھی ہوتی ہے کہ دنیا آخر چل کیسے رہی ہے۔
معاملہ گھر کا ہو یا خاندان کا‘ دفتر کا یا ہو یا حلقۂ احباب کا ... ہر طرف بے ذہنی کا دور دورہ ہے۔ بے ذہنی کے دم سے پیدا ہونے والی رونق ہے کہ ماند پڑنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ ماند پڑے بھی کیسے؟ لوگ بے ذہنی ترک کرنے کے لیے تیار ہوں تو کچھ بات بنے...!
زندگی قدم قدم پر ذہن کو بروئے کار لانے کا تقاضا کرتی ہے۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ بے ذہنی کی مدد سے جینے ہی کو کافی سے زیادہ سمجھ لیا گیا ہے۔ ذہن کا بھی عجیب ہی معاملہ ہے۔ سب جانتے ہیں کہ دنیا میں جتنی بھی ترقی‘ پیش رفت اور خوش حالی ممکن ہوئی ہے اُس کی پشت پر ذہن ہی کارفرما رہا ہے۔ ذہن کو وسعت دے کر اُس کی کارکردگی کا گراف بلند کرنے ہی سے دنیا کے چہرے کی تابانی میں اضافہ ممکن بنایا جاسکا ہے۔ اس کی واضح ترین مثال مغرب کی ہے ‘جس نے کم و بیش چار صدیوں کے دوران ذہن کو غیر معمولی وسعت اور تیزی سے بروئے کار لاکر اپنے تمام معاشروں کی ہیئت بدل ڈالی۔ مغربی دنیا آج ترقی کی نمایاں ترین مثال کی حیثیت سے ہمارے سامنے ہے۔
مغرب نے ایک اور مثال بھی ہمارے سامنے پیش کی ہے‘ وہ یہ کہ کسی بھی معاشرے میں ذہن کو بروئے کار لانا ‘اُسی وقت کارآمد ثابت ہوسکتا ہے ‘جب واضح اکثریت ذہن سے کام لینے پر آمادہ ہو۔ مغربی معاشروں نے ذہنی صلاحیتوں کا دائرہ وسیع کرنے کے ساتھ ساتھ ذہنی کارکردگی کا دائرہ بھی وسیع کرنے پر خاطر خواہ توجہ دی۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ آج ہر شعبے میں مغربی ذہن بہت نمایاں دکھائی دیتا ہے۔
پھر کیا سبب ہے کہ پاکستان جیسے معاشروں میں ذہن کو بروئے کار لانے کا رجحان تاحال تقویت نہیں پاسکا؟ دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ مغرب نے ذہن کو بروئے کار لاکر وہ سب کچھ پالیا ہے‘ جس کا کبھی صرف خواب دیکھا جاتا تھا‘ پھر کیا سبب ہے کہ پس ماندہ اور ترقی پذیر معاشروں میں ذہن سے کام لینے کا رجحان تاحال کمزور ہے؟
بات کچھ یوں ہے کہ مغرب اور مشرق کے ترقی یافتہ معاشروں نے صلاحیتوں اور سکت کو غیر معمولی حد تک پروان چڑھاکر بہت کچھ پایا ہے۔ ہر شعبے میں تحقیق اور ترقی کے شعبے کی عمدہ کارکردگی نے دنیا کو بہت کچھ دیا ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں کی قابلِ رشک کارکردگی ہی نے آج دنیا بھر میں بہت سی ضروری اشیاء اور آسائشات کو عام آدمی کی دسترس تک لانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ترقی یافتہ دنیا کے بڑے کاروباری ادارے اب اس قدر مضبوط ہوچکے ہیں کہ بعض کی نمو تو کئی ممالک کی اجتماعی خام قومی پیداوار سے زائد ہے! ایسے میں کوئی بھی انتہائی پسماندہ ملک اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے بارے میں کیا منصوبہ سازی کرسکتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ آج کی دنیا میں انتہائی پسماندہ ممالک کے لیے اب اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی گنجائش برائے نام رہ گئی ہے۔ یہ ممالک اپنے صنعتی ڈھانچے کو نئے سِرے سے ترتیب دے ہی نہیں سکتے۔ اچھا خاصا دردِ سر مول لینے کے بعد یہ جو منصوبہ سازی کریں گے ‘وہ ترقی یافتہ تو کیا‘ کسی ترقی پذیر ملک سے مسابقت کے قابل بھی نہیں بناسکتی۔
ذہن کے معاملے میں ممالک کے حوالے سے بھی وہی اصول کام کر رہا ہے‘ جو انفرادی معاملات میں کام کرتا ہے۔ ہم اپنے ماحول کا جائزہ لیں تو ایسے لوگ بہت بڑی تعداد میں ملیں گے ‘جو دوسروں کو بہت آگے نکلا ہوا دیکھنے پر حوصلہ ہار بیٹھتے ہیں۔ ذہن کو بروئے کار لانا ‘اُس وقت زیادہ کارگر ثابت ہوتا ہے ‘جب کسی پیش رفت کا یقین ہو۔ پسماندہ ماحول میں لوگ جب محسوس کرلیتے ہیں کہ ذہن سے کام لینے سے کام نہیں بنے گا‘ تب وہ اپنے آپ کو الجھن میں ڈالنے سے گریز کرتے ہیں!
آج کا پاکستان کم و بیش 90 فیصد معاملات میں بے ذہنی سے عبارت ہے۔ بے ذہنی نے قدم قدم پر رونق لگا رکھی ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ سمجھے اور سوچے بغیر جئیں‘ بلکہ جیے جائیں۔ بات کچھ یوں ہے کہ جب بہت کچھ بہت آسانی سے مل رہا ہو‘ تو اُس حوالے سے کچھ خاص محنت کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ ترقی یافتہ معاشروں نے آج ساری دنیا کو اپنی پیداواری صلاحیت و سکت سے مسحور کر رکھا ہے۔ بیشتر یا کم و بیش تمام ہی پس ماندہ معاشروں کو لگتا ہے کہ اُن کے لیے اب کرنے کو کچھ رہا ہی نہیں۔ جب کیفیت یہ ہو تو پیش رفت یقینی بنانے کے لیے کوئی ذہنی صلاحیت و سکت کو بروئے کار لانے پر کیوں مائل ہو؟
ہر پسماندہ معاشرے کی طرح پاکستانی معاشرے کو بھی یہ مایا جال توڑنا ہے۔ دوسروں کی بے مثال ترقی‘ پیش رفت اور خوش حالی دیکھنے کے بعد حوصلہ ہار کر ایک طرف بیٹھ رہنے کی بجائے اپنے اندر نیا‘ اضافی حوصلہ محسوس کرنا ہے۔ ذہن سے کام نہ لینا کسی بھی اعتبار سے کوئی آپشن ہے ہی نہیں۔ جن معاشروں نے بے ذہنی کو آپشن کے طور پر اپنایا ہے ‘وہ اپنا انجام اچھی طرح دیکھ چکے ہیں‘ مگر پھر بھی کچھ سیکھنے پر آمادہ نہیں۔ اس حوالے سے شعوری کوشش ضروری نہیں‘ بلکہ ناگزیر ہے۔
ہمارے چاروں طرف بے چینی کا چڑھتا دریا ہے اور اس دریا کی موجوں پر سوار ہوکر لوگ ٹھنڈی ٹھار زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ یہ شدید نوعیت کی خود فریبی کا عالم ہے‘ جس سے گلو خلاصی لازم ہے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ ہم ذہن کو بروئے کار لانے سے گریز کی روش ترک کریں اور اس طور جئیں کہ قدم قدم پر ذہن سے سے کام لیتے ہوئے معاملات درست کیے جائیں۔ زندگی تو خیر کسی بھی طور گزر ہی جاتی ہے۔ اگر کوئی ذہن کے وجود کو تسلیم کرنے سے یکسر انکار کرتے ہوئے جیے تب بھی مر نہیں جاتا‘ مگر اس طور گزاری جانے والی زندگی کسی بھی درجے میں زندگی ہوتی ہی کب ہے...!