دفترِ خارجہ
2 نومبر 1917ء
محترم روتھشیلڈ!مجھے شاہ برطانیہ کی طرف سے آپ کو بتاتے ہوئے ازحد خوشی ہو رہی ہے کہ درج ذیل اعلان صہیونی یہودیوں کی امیدوں کے ساتھ ہماری ہمدردی کا اظہار ہے اور اس کی توثیق ہماری کابینہ بھی کر چکی ہے۔ ''شاہ برطانیہ کی حکومت فلسطین میں ایک یہودی ریاست کے قیام کی حامی ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اپنی ہر ممکن صلاحیت بروئے کار لائے گی مگر اس بات کو مدِنظر رکھا جائے کہ فلسطین کی موجودہ غیر یہودی آبادی (مسلمان اور مسیحی) کے شہری و مذہبی حقوق یا دوسرے ممالک میں یہودیوں کی سیاسی حیثیت کو نقصان نہ پہنچے‘‘۔میں بہت ممنون ہوں گا اگر اس اعلان کو صہیونی فیڈریشن کے علم میں بھی لایا جائے۔
آپ کا مخلص: آرتھر جیمز بالفور
تاج برطانیہ کے وزیر خارجہ کی طرف سے ایک متمول یہودی کو لکھا گیا یہ خط اعلان بالفور بھی کہلاتا ہے۔ اس اعلان کو سو سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا لیکن اس خط، جسے ایک معاہدہ بھی کہا جا سکتا ہے، کے نتیجے میں فلسطینی عوام پر سو سال سے ہر روز ایک نئی قیامت گزرتی ہے۔
اس خط کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ تقریباً سو سال پہلے فلسطین خلافت عثمانیہ کا ایک صوبہ تھا۔ جنگ عظیم میں جرمنی کے علاوہ خلافت عثمانیہ بھی شکست سے دوچار ہو گئی تھی جس کے نتیجے میں جرمنی کے ساتھ ساتھ خلافت عثمانیہ کے بہت سے علاقوں کو بھی فاتح اتحادی فوجوں نے قبضے میں لے لیا تھا۔ اس بندر بانٹ میں فلسطین برطانیہ کے حصے میں آیا تھا۔ اس وقت فلسطین میں یہودیوں کی آبادی صرف دو ہزار کے لگ بھگ تھی لیکن یہودیوں نے عالمی سطح پر فیصلہ کر رکھا تھا کہ وہ دنیا بھر سے فلسطین میں آ کر آباد ہوں گے اور اپنی ریاست قائم کرکے بیت المقدس کواس کادارالحکومت بنائیں گے۔ صہیونی تحریک کے بڑوں کے ساتھ برطانیہ نے وعدہ کیا ہوا تھا کہ وہ فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن تسلیم کرتا ہے اور جب بھی ممکن ہوا برطانیہ انہیں فلسطین میں آباد ہونے کا موقع فراہم کرے گا۔ یہ وعدہ برطانوی وزیر خارجہ مسٹر بالفور کے ساتھ ایک معاہدے کی صورت میں ہوا تھا جسے ''اعلان بالفور‘‘ کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔ برطانیہ نے فلسطین کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد دنیا بھر سے یہودیوں کو فلسطین میں بلا کر بسانے کا سلسلہ شروع کیا جو کم و بیش ربع صدی جاری رہا اور جب یہودیوں کی آبادی اتنی ہو گئی کہ ان کی ریاست بنوائی جا سکے تو برطانوی حکومت نے اقوام متحدہ کے سامنے یہ معاملہ پیش کرکے 1945ء میں اسرائیلی ریاست کے قیام کا فیصلہ کروا لیا اور فلسطین کے ایک حصے پر اسرائیل کے نام سے یہودی ریاست دنیا کے نقشے پر نمودار ہو گئی۔
اس موقع پر اقوام متحدہ نے فلسطین کے ایک حصے پر اسرائیل کا حق تسلیم کرتے ہوئے دوسرے حصہ میں فلسطین کی ریاست قائم کرنے کا وعدہ کیا جو آج تک ایک باقاعدہ اور خود مختار ریاست کے طور پر تشکیل نہیں پا سکی، جبکہ بیت المقدس کو متنازعہ قرار دے کر عارضی طور پر اردن کی تحویل میں دے دیا اور کہا گیا کہ اس کا فیصلہ بعد میں کیا جائے گا۔ اس طرح فلسطین کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ مگر اسرائیل نے 1967ء میں مصر، شام اور اردن کے ساتھ جنگ میں بیت المقدس پر قبضہ کیا اور اس کے ساتھ مصر اور شام کے بعض علاقوں پر بھی قبضہ کر لیا۔
منگل کی رات واشنگٹن میں صدر ٹرمپ نے اس ناجائز صہیونی ریاست کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں کھڑے ہو کر ایک پریس کانفرنس کی اور مشرق وسطیٰ میں مستقل جنگ اور بدامنی کے بنیادی تنازع کا ایک حل پیش کیا۔ اس منصوبے کوصدر ٹرمپ ''ڈیل آف سینچری‘‘ بھی کہتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے فلسطین کی اصل سرزمین کے صرف پندرہ فیصد پر فلسطینیوں کا حق مانتے ہوئے عالمی قوانین کے تحت اسرائیل کی ناجائز اور غیرقانونی قرار دی گئی یہودی بستیوں کو بھی جائز تسلیم کر لیا۔ مقبوضہ بیت المقدس پر بھی اسرائیل کا حق بلا شرکت غیرے تسلیم کرتے ہوئے فلسطینی ریاست کے امکانات کو بالکل مٹا دیا گیا ہے۔ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اس پلان کے تحت فلسطینیوں کے پاس ایک موقع ہے کہ وہ مستقبل میں اپنی ایک آزاد ریاست قائم کر لیں؛ تاہم اس حوالے سے انہوں نے زیادہ تفصیلات نہیں دیں۔ اعلان بالفور پر عمل درآمد کے وقت سلطنت عثمانیہ بکھر چکی تھی، عرب دنیا پر حکمرانی کے لیے مفاد پرست گروہوں میں چھینا جھپٹی جاری تھی، اسی لیے ناجائز ریاست اسرائیل کی تشکیل میں مسلمان مزاحم نہ ہوسکے۔ اب امریکی یا یوں کہیں کہ ٹرمپ کے منصوبے کے وقت بھی مسلم امہ کی کیفیت مختلف نہیں۔ اس کا اندازہ ٹرمپ کے منصوبے پر مسلم دنیا کے رہنماؤں کے ردعمل سے لگایا جا سکتا ہے۔
مصرکی وزارت خارجہ نے ٹرمپ کے منصوبے پر ردعمل میں کہا کہ اسرائیلی اور فلسطینی اس منصوبے کا توجہ کے ساتھ مطالعہ کریں، یہ منصوبہ ایسا حل پیش کرتا ہے جو فلسطینیوں کے قانونی حقوق کو بحال کرتا اور فلسطینی علاقوں پر خودمختار ریاست کی راہ ہموار کرتا ہے۔ قطر کی وزارت خارجہ نے کہا کہ وہ عرب اسرائیل تنازع کے حل کے لیے امریکی کوششوں، جو بین الاقوامی قوانین کی حدود میں ہوں، کو سراہتے ہیں۔ سعودی وزارت خارجہ نے بھی امریکی صدر کی طرف سے فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جامع امن منصوبے کی کوششوں کو سراہا ہے۔ سعودی عرب فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امریکا کی نگرانی میں براہ راست مذاکرات کی بھی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ واشنگٹن میں عرب امارات کے سفیر یوسف العتیبہ نے کہا کہ ٹرمپ کا منصوبہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امریکی قیادت میں مذاکرات کا نقطہ آغاز بن سکتا ہے۔
ایران، ترکی اور اردن نے نسبتاً سخت ردعمل اپنایا۔ موجودہ سیاسی اور جغرافیائی صورتحال میں ان ملکوں کی طرف سے سخت ردعمل متوقع تھا لیکن ایران اور ترکی عرب دنیا کا حصہ نہیں اور اردن کا سخت موقف غرب اردن پر اسرائیلی حق تسلیم کئے جانے پر ہے۔ بنیادی طور پر ٹرمپ کے اس اعلان، جسے ایک اور اعلان بالفور کہا جا سکتا ہے، پر مسلم اور عرب دنیا سے شدید ردعمل نہیں آیا اور بظاہر فلسطینیوں کو ایک بار پھر عالمی طاقتوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
امریکا نے یہ منصوبہ پیش کرکے مشرق وسطیٰ میں بدامنی کا نیا بیج بو دیا ہے جس کی فصل کاٹتے مزید سو سال گزر جائیں گے‘ لیکن اس منصوبے کے تحت حل نکلنے کی امید نہیں۔ ٹرمپ کا منصوبہ کس قدر خطرناک ہے اس کا اندازہ اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے بیان سے لگایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے امریکی منصوبے پر فوری عمل کا اعلان کرتے ہوئے وادیٔ اردن کو اسرائیل میں ضم کرنے اور اس کے مغربی کنارے پر بنائی گئی یہودی بستیوں کو اسرائیل کا حصہ قرار دینے کا منصوبہ اگلے ہفتے کابینہ میں پیش کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ صدر ٹرمپ کے منصوبے سے ایسے تاریخی مقاصد حاصل ہوئے ہیں جن کا حصول ناممکن تصور کیا جاتا تھا۔ امریکا نے وادیٔ اردن اور بحیرہ مردار کے شمالی حصے پر اسرائیل کا حق تسلیم کر لیا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم اس وقت نگران حکومت کے سربراہ کا کردار ادا کر رہے ہیں اور نگران کابینہ میں ملک کی سرحدوں کی لکیریں آگے پیچھے کرنا ان کا اختیار نہیں لیکن بینجمن نیتن یاہو کامیابی کے نشے میں سرشار اسرائیلی آئینی حدود کو پامال کرتے ہوئے اپنی حکومت بنانے کے لیے امریکی منصوبے کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔اسرائیلی وزیراعظم نے نئی یہودی بستیوں کی تعمیر بھی آگے بڑھانے کا اعلان کیا۔ مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی تعمیر تیز کرنے کا مطلب ہے کہ مزید فلسطینیوں کو بے گھر کیا جائے گا۔ اسرائیلی بلڈوزر سب کچھ تہس نہس کرنے کی کوشش کریں گے اور نہتے فلسطینی مزاحمت کرتے ہوئے شہید ہوتے رہیں گے۔
فلسطینیوں پر ظلم کا نیا دور شروع ہونے کو ہے اور مسلم دنیا کی قیادت کے ردعمل سے لگتا ہے کہ صدمے سے ان کی زبانیں گنگ ہو گئی ہیں۔ اس ظلم پر فلسطینی نوجوانوں کا ردعمل یقینی طور پر امریکا اور اس کے یورپی اتحادیوں کے نزدیک دہشتگردی ہو گا اور شاید کچھ مسلم حکمران ان کا بھرپور ساتھ دیں گے اور شاید کسی کو صدمہ بھی نہیں ہو گا۔