تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     30-01-2020

سرخیاں‘متن‘ درستی اور ’’جھیل میں اترا چاند‘‘

شر پسندوں کے خلاف قانون راستہ خود بنائے گا: فردوس عاشق اعوان
وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ ''شر پسندوں کے خلاف قانون راستہ خود بنائے گا‘‘ کیونکہ جب سے ہم آئے ہیں‘ یہاں سب کچھ خود ہی‘ یعنی اپنے آپ ہی ہو رہا ہے اور ہمیں کچھ نہیں کرنا پڑتا اور حکومت میں آ کر پتا چلا ہے کہ یہ کس قدر آسان کام ہے اور سارا کچھ آٹو میٹک طریقے سے ہو رہا ہے‘ جبکہ ہم سب ٹائم پاس کرنے کے لیے بیان ہی دیتے رہتے ہیں‘ بلکہ ہماری خواہش تو تھی کہ یہ بیان بازی بھی اپنے آپ ہی ہو جایا کرے اور ہم اللہ اللہ ہی کرتے رہیں‘ کیونکہ دنیا چند روزہ ہے اور ہمیں اپنی عاقبت کی فکر بھی ہر دم ستائے رہتی ہے‘ جبکہ سنا ہے کہ قیامت بھی جلدی ہی آنے والی ہے کہ مختلف مافیاز کی عمل داری قربِ قیامت ہی کی عمل داری ہے اور فی الحال تو ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ یہ مختلف مافیاز بھی اپنے آپ ہی ختم ہو جائیں‘ لیکن پھر ہمیں باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ یہاں ہر چیز آٹومیٹک نہیں۔ آپ اگلے روز کابینہ اجلاس میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہی تھیں۔
محسن داوڑ اور دیگر کارکنوں کی گرفتاری 
آمرانہ پالیسی ہے: اسفند یار ولی
عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی نے کہا ہے کہ ''محسن داوڑ اور دیگر کارکنوں کی گرفتاری آمرانہ پالیسی ہے‘‘ کیونکہ وہ بیچارے ملک اور ملکی اداروں کے خلاف نعرے ہی تو لگا رہے تھے‘ جبکہ اتنا بڑا ملک ہے اور اتنے ہی بڑے ادارے ہیں‘ ایسے نعروں سے ان کی صحت پر کیا اثر پڑتا ہے۔ یہ ملک اسی طرح قائم و دائم ہے اور اس کا بال تک بیکا نہیں ہوا ، نہ ہی ہوگا۔ اس لیے وقت کا تقاضا ہے کہ ملک اور اس کے اداروں کو چھوئی موئی نہ سمجھا جائے کیونکہ وقت نے ثابت کر دیا ہے کہ ماشاء اللہ مضبوط، مستحکم اور ناقابلِ تسخیر ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس کے خلاف نعرے وغیرہ لگا کر یہ قیمتی وقت ضائع نہ کیا جائے۔ آپ اگلے روز پشاور میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔
حکومت سابق حکمرانوں سے پیسے کیسے وصول کرے گی: رانا تنویر
مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا تنویر حسین نے کہا ہے کہ ''حکومت سابق حکمرانوں سے پیسے کیسے وصول کرے گی‘‘ کیونکہ لوٹے ہوئے مال کا تو حکومت ایک دھیلہ بھی وصول نہیں کر سکی‘ اب یہ پیسے وصول کرنے کے لیے اس کے ہاتھ کون سی گیدڑ سنگھی آ گئی ہے اور جس کا مطلب ہے کہ ہر گیدڑ کے پاس کم از کم ایک گیدڑ سنگھی ضرور ہوتی ہے‘ جبکہ اس کی عمر بھی سو سال بتائی گئی ہے‘ جیسا کہ گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی افضل قرار دی گئی ہے اور یہ کس قدر افسوسناک بات ہے کہ اتنے طاقتور جانور کی زندگی صرف ایک ہی دن ہوتی ہے اور اس کے مقابلے میں گیدڑ پوری ایک صدی تک موجیں مانتا رہتا ہے ‘بلکہ میرے خیال میں تو یہ محاورے کی غلطی ہے‘ کیونکہ شیر آخر ایک دن زندہ رہ کر کیا کرتا ہوگا ‘جسے جنگل کا بادشاہ کہا جاتا ہے‘ گویا یہ بھی ایک دن کا سلطان ہی ہوتا ہے۔ آپ اگلے روز ٹی وی کے ایک نائٹ ایڈیشن میں گفتگو فرما رہے تھے۔
درستی
میرے عزیز م و محترم بھائی صاحب نے کل پھراپنے کالم میں ایک شعر اس طرح درج کیا ہے: ؎
کامل اس فرقۂ زہاد سے اٹھا نہ کوئی
کچھ ہوئے بھی تو یہی رندانِ قدح خوار ہوئے
اس کا دوسرا مصرعہ خارج از وزن ہو گیا ہے۔ اصل مصرع تو مجھے یاد نہیں کہ کیا تھا‘ تاہم اس کا وزن اس طرح درست ہو سکتا ہے ع
کچھ ہوئے تو یہی رندانِ قدح خوار ہوئے
یا اس کی ایک اور صورت بھی ہو سکتی ہے ‘ یعنی: ع
کچھ ہوئے بھی تو یہ رندانِ قدح خوار ہوئے
جھیل میں اُترا چاند
یہ شاہدہ عروج خان کا مجموعۂ کلام ہے‘ جسے سامیہ پبلی کیشنز نے چھاپا ہے۔ انتساب اپنے پاپا محمد سلیم خان‘ اپنے شہزادے محمد رافع صدیقی اور ان سب کے نام جن سے یہ شاعری مہکتی ہے۔ جو میری ہر خوشی کا حاصل ہیں‘ زندگی میں شامل ہیں۔ مضامین کی صورت میں دیباچے اقبال سہوانی‘ گُلنار آفرین‘ تسلیم الٰہی زلفی‘ رضیہ سبحان‘ عابد علی بیگ اور رضوان صدیقی نے قلمبند کیے ہیں۔ آغاز میں شاعرہ نے اپنا یہ شعر درج کیا ہے:؎
عزت مرے خدا نے عطا کی ہے وہ مجھے
کتنا بھی کروں شکر ادا ہو نہیں سکتا
شعر اچھا ہے‘ اس کا دوسرا مصرعہ ایک اور بحر میں نکل گیا ہے ۔ مصرعے آوارہ گرد نہیں ہونے چاہیے‘ یہ شاعری وہ ہے‘ جو اگر کسی کا کچھ سنوار نہیں سکتی تو بگاڑ بھی نہیں سکتی‘ لہٰذا ایسی مرنجاں مرنج شاعری کو ہمیشہ خوش آمدید کہا جاتا ہے‘ پس سرورق شاعرہ کی تصویر ہے اور دو شعر ۔ کتاب اور شاعرہ دونوں کا گیٹ اپ اگر درست ہو تو یہ ایک اضافی خوبی ہوتی ہے۔ اس مہکتی ہوئی شاعری کے کچھ نمونے:؎
محبت یہ کیسی جتانے لگی ہے
ہوا مرا آنچل اڑانے لگی ہے
میں اس کے خیالوں میں کھوئی ہوئی ہوں
کہ جس کی بہت یاد آنے لگی ہے
چمن میں کلی کی شرارت تو دیکھو
مجھے دیکھ کر مسکرانے لگی ہے
آج کا مقطع
سامنا کرتے ہی اس تازہ حقیقت کا‘ ظفرؔ
ایسے لگتا ہے کہ ہو جاؤں گا باطل میں بھی

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved