تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     30-01-2020

بیزاری سے ہوشیار !

یہ دنیا کب ایسی تھی کہ کوئی کچھ نہ کرے اور بیزاری بھی محسوس نہ کرے؟ روئے ارض پر کبھی ایسا دور نہیں گزرا‘ جس نے انسان کو کچھ نہ کرنے کی صورت میں متوازن اور پُرمسرّت زندگی سے ہم کنار کیا ہو۔ ہر دور کا انسان بھرپور زندگی اُسی وقت گزار پایا جب اُس نے اپنے وجود کو افکار و اعمال میں بھرپور ہم آہنگی کے ذریعے مفہوم عطا کیا۔ عمل ہی وہ وصف ہے ‘جو اس دنیا کی تمام رونقوں کے لیے ضامن کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ 
یہ کوئی آج کی پریشانی نہیں ‘بلکہ ہر دور کا انسان عمل سے گریز کی راہ پر گامزن رہا ہے۔ زمین نے اپنے سینے پر ایسے بہت سے لوگوں کو مونگ دلتے ہوئے دیکھا ہے ‘جو فکر و عمل میں توازن اور ہم آہنگی پیدا کرنے کے حوالے سے غیر سنجیدہ رویہ اختیار کیے رہے اور اسی حالت میں ملکِ عدم کو گئے۔ 
اہلِ دانش اس نکتے پر زور دیتے آئے ہیں کہ بے سوچے سمجھے کچھ کرنے کا بھی وہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے ‘جو معاملات کو اچھی طرح سوچنے اور سمجھنے کے بعد کچھ نہ کرنے کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ ہر دور میں روئے ارض پر بسنے والے انسانوں کی اکثریت کہنے اور کرنے کے فرق کو مٹانے کے حوالے سے غیر سنجیدہ رہی ہے۔ آج بھی عام آدمی اس مغالطے کا شکار ہے کہ عمل کی منزل سے دور ہی سہی‘ وہ سوچ تو رہا ہے! حقیقت یہ ہے کہ ہر دور کی طرح آج کا انسان بھی سوچنے کی منزل سے بہت دور ہے۔ کسی بھی انسان کی زندگی میں جو کچھ واقع ہوتا ہے ‘اُسے سمجھنے اور ضرورت کے مطابق‘ سوچنے کا معاملہ جس قدر محنت طلب کرتا ہے‘ اُتنی محنت انسان کرتا نہیں۔ یومیہ بنیاد پر ہماری زندگی میں جو کچھ رونما ہوتا ہے‘ اُس کا پوری دیانت اور غیر جانب داری سے تجزیہ کرکے کوئی واضح سوچ پروان چڑھانا خود بخود ہو جانے والی بات نہیں۔ اس حوالے سے ہر انسان کو ذہن کی تربیت کرنا پڑتی ہے۔ واقعات کا تجزیہ کرنے کی مہارت پیدا کرنا ہر انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ ہم کسی بھی واقعے سے متعلق اپنے ردِعمل کو سوچ کا نام دے کر خوش ہو لیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سوچنا اس سے بہت آگے کا معاملہ ہے۔ عام آدمی محض پریشان ہو رہنے کو سوچنا سمجھ کر دل بہلایا کرتا ہے۔ 
فکر و عمل میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے پہلے فکر کا پیدا کرنا لازم ہے۔ ڈھنگ سے‘ یعنی ضرورت کے مطابق ‘سوچنا خود بخود پیدا ہو جانے والی مہارت نہیں۔ یہ باضابطہ طور پر سیکھا جانے والا فن ہے اور اس فن میں خاطر خواہ مہارت پیدا کرنا بھی مستقل و طویل المیعاد مشق کا طالب ہے۔ جب ہم کسی بھی معاملے کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد کوئی رائے قائم کرنے بیٹھتے ہیں ‘تب ذہن کا امتحان شروع ہوتا ہے۔ ردِعمل کی منزل سے آگے جاکر کوئی باضابطہ خیال پروان چڑھانا توازن اور مستقل مزاجی کا طالب ہوا کرتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ کسی بھی معاملے میں متوازن اور تعمیری انداز سے سوچنے والوں کی تعداد ہمیشہ کم رہی ہے۔ 
کسی بھی انسان کو اُس وقت حقیقی بیزاری کا سامنا کرنا پڑتا ہے ‘جب وہ کسی بھی معاملے میں متوازن اور ٹھوس خیالات کو پروان چڑھانے کے بعد عمل کی منزل تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتا۔ ذہن میں ابھرنے والا ہر ٹھوس اور جامع خیال اس بات کا متقاضی ہوتا ہے کہ اُسے عمل سے ہم کنار کیا جائے۔ ایسا نہ کیا جائے تو بیزاری پیدا ہوتی ہے۔ افکار اور اعمال میں ایک دوسرے کے بغیر ادھورا پن رہتا ہے اور اس ادھورے پن کی شدت سے بیزاری جنم لیتی ہے۔ یہ عمل تادیر جاری رہے تو انسان عمل تو دور کی بات ہے‘ ڈھنگ سے سوچنے کے قابل بھی نہیں رہتا۔ 
بیزاری کی کیفیت اُس وقت طول پکڑتی ہے ‘جب صورتِ حال کے تمام تقاضوں کو نبھانے کی کوشش کرنے پر بے عملی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ افکار و اعمال میں توازن اور ہم آہنگی نہ ہو تو شدید خواہش کے باوجود مطلوب نتائج حاصل نہیں ہو پاتے۔ بیزاری کا خاتمہ اور زندہ رہنے کی حقیقی خواہش کا پروان چڑھانا ہر معاشرے کا بنیادی مسئلہ یہ ہے۔ بیزاری طُول پکڑے تو پوری زندگی داؤ پر لگ جاتی ہے۔ 
اب سوال یہ ہے کہ بیزاری ختم کیسے ہو؟ شخصی ارتقاء اور اپنی مدد آپ کی ذہنیت کو پروان چڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے دانشور اور مصنف ڈیل کارنیگی کا مشورہ یہ ہے کہ اگر آپ زندگی سے بیزار ہوچکے ہیں تو خود کو اُس کام میں جھونک دیجیے جو دل کی گہرائی میں بسی ہوئی آرزو کا درجہ رکھتا ہے‘ پھر اسی کام کے لیے جیا جائے اور اِسی کے لیے جان دی جائے۔ جب آپ ایسا کریں گے‘ تب دیکھیں گے کہ وہ خوشی بھی مل جائے گی ‘جس کے بارے میں آپ کا خیال تھا کہ اب آپ کو نہیں مل سکے گی۔ 
فقید المثال اور قابلِ رشک کامیابی کا راز یہ ہے کہ انسان کسی بھی معاملے میں کماحقہ سوچے اور جو کچھ سوچے اُس پر عمل بھی کرے۔ کسی بھی شعبے میں کامیابی کے خواہش مند افراد اپنی منزل تک اُسی وقت پہنچتے ہیں‘ جب وہ محض چاہنے اور سوچنے کی منزل میں اٹک کر نہیں رہ جاتے‘ بلکہ عمل کو بھی زندگی کا بنیادی شعار بناتے ہوئے چلتے ہیں۔ 
ہر دور کی طرح آج بھی پورے وجود پر چھا جانے والی‘ اُسے دیمک کی طرح چاٹنے والی بیزاری سے بچنے کی بہترین صورت یہی ہے کہ انسان فکر و عمل کے اعتبار سے خود کو زیادہ سے زیادہ مصروف رکھے‘ اپنے وجود کو پرکھتا رہے۔ باعمل رہنے کی صورت میں انسان کے لیے قلبی سکون کا سامان ہوتا رہتا ہے۔ کسی چیز کی خواہش کرنے اور اس حوالے سے محض سوچنے سے من چاہے نتائج حاصل نہیں کیے جاسکتے۔ جنہیں کامیابی درکار ہے اُنہیں فارغ بیٹھے رہنے سے مکمل اجتناب برتتے ہوئے‘ اپنے آپ کو عمل کی کسوٹی پر پرکھتے رہنا پڑے گا۔ 
دنیا کے ہر انسان کو کسی نہ کسی موڑ پر شدید بیزاری کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔ ایسا بالعموم اُس وقت ہوتا ہے جب کام کرنے کی لگن دم توڑنے لگتی ہے۔ کام کرنے کی لگن بالعموم اُس وقت دم توڑتی ہے جب انسان اپنے آپ کو عمل سے زیادہ سوچنے میں کھپانے لگتا ہے۔ ذہن کو غیر ضروری طور پر الجھائے رکھنے سے باعمل رہنے کی لگن کمزور پڑتی جاتی ہے۔ ذہن کا الجھنا عمل پسندی کے رجحان کو شدید نقصان پہنچاتا ہے۔ ذہن کا ہر وقت الجھے رہنا ہمیں عمل سے دور لے جاتا ہے۔ فکر اور عمل کے درمیان توازن برقرار رکھنا وہ حقیقت ہے جس سے انکار ممکن ہے نہ چشم پوشی۔ دونوں صورتوں میں ہم اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مار رہے ہوتے ہیں۔ 
آج انسان کے لیے ذہن کو متوازن رکھنا ایک بڑے دردِ سر میں تبدیل ہوچکا ہے۔ حواس پر ہر طرف سے حملے ہو رہے ہیں۔ ایسے میں ذہن پر معلومات کے بوجھ کا بڑھنا لازم ہے۔ اب ذہن کو متوازن انداز سے بروئے کار لانا ایک فن ہے‘ جو سیکھنا پڑتا ہے۔ اس حوالے مواد بھی دستیاب ہے اور ماہرین کی خدمات بھی۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کو بیزاری سے دور رکھنے اور کام کی لگن کے حوالے سے ہر دم توانا رکھنے کی مساعی باضابطہ شعبے یا پیشے کا درجہ رکھتی ہیں۔ یہ رضاکارانہ خدمت یا بہبودِ عامہ کی سرگرمی سے کہیں بڑھ کر اب کاروبار ہے اور اس کاروبار سے کروڑوں افراد کے گھروں میں چولھے جل رہے ہیں۔ کچھ کرنے کی خواہش ہے تو یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ بیزاری سے ہر حال میں بچنا ہے۔ یہ بھرپور کامیابی کی انتہائی بنیادی شرائط میں سے ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved