ایک ہی دن میںہونے والی دو تقریریں ‘ موجودہ صورتحال کو سمجھنے میں کافی مدد دے سکتی ہیں۔ پہلی تقریر چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویزکیانی کی ہے‘ جو انہوں نے ایک انٹرنیشنل سیمینار میں صبح کے وقت کی۔ انہوں نے کہا ’’قوم نے دہشت گردی کے باوجود ووٹ دے کر‘ گمراہ کن اقلیت کو شکست دی۔ انتخابات میں عوام نے ثابت کیا کہ ہم کسی بھی چیلنج سے نمٹ سکتے ہیں۔ قانون کی حکمرانی کے لئے ہمارا عزم غیرمتزل ہے۔ بے چہرہ دشمن سے لڑنے کا وسیع تجربہ ہے۔ جدید ترین طریقے اختیار کرنا ہوں گے۔ ‘‘ ان جملوں کے ایک ایک لفظ میں پختہ عزم کا اظہار ملتا ہے کہ فوج ‘ دہشت گردی کو مکمل شکست دینے کا عزم کر چکی ہے۔ حالیہ انتخابی مہم کے دوران دہشت گردوں نے انتخابی عمل کو سبوتاژ کر کے‘ کافرانہ جمہوریت کو شکست دینے کا جو منصوبہ بنایا تھا‘ پاکستانی عوام نے پورے جوش و جذبے کے ساتھ انتخابات میں حصہ لے کر‘ دہشت گردوں کے منصوبے ناکام بنا دیئے۔ انہوں نے 1946ء اور 1970ء کی طرح پھر ثابت کر دیا کہ وہ انتہاپسندی کے شدید مخالف ہیں۔ میانہ روی‘ فراخدلی اور ہر مذہب اور عقیدے کے لئے‘ باہمی احترام کے اصول پر وہ پورا اعتماد رکھتے ہیں اور نفرتیں پھیلانے والوں کے پیچھے نہ وہ چلے ہیں اور نہ ہی کبھی چلیں گے۔ پاکستانی عوام نے دہشت گردوں کے پیدا کردہ خوف کو نہ صرف آگے بڑھ کر پامال کیا بلکہ جمہوریت کے حق میں بھاری اکثریت سے پرجوش فیصلہ بھی سنا دیا۔ یقینا پاکستانی عوام کا یہ فیصلہ فوج کے لئے حوصلہ افزائی کا سبب بنا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بڑھ چڑھ کر شہادتیں پیش کرنے اور قربانیاں دینے والے ان افسروں اور جوانوں کے ارادے مضبوط ہوئے‘ جو وطن عزیز کو دہشت گردوں کے ہاتھوں تباہی و بربادی سے بچانے کے لئے اپنا خون پیش کر رہے ہیں۔ عوام اور فوج میں یکجہتی کا یہ اظہار ‘ دہشت گردوں اور ان کی پشت پناہی کرنے والوں کے لئے ایک انتباہ ہے۔ جنرل کیانی نے پاکستانی عوام کے دلیرانہ فیصلے کی تحسین کر کے‘ پوری فوج کے جذبات کی ترجمانی کی ہے۔ اسی روز پاکستان کے نو منتخب وزیراعظم نوازشریف نے لاہور میں ایک پالیسی تقریر کی۔ یہاں میں وضاحت کر دوں کہ نوازشریف منتخب اراکینِ قومی اسمبلی کی اکثریت کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ آئینی رعایت لیتے ہوئے انہیںمنتخب وزیراعظم کہا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کچھ بنیادی باتیں کی ہیں‘ جن سے آنے والے دنوں میں پاکستان کے اندر پیدا ہونے والے حالات کی ایک جھلک دکھا ئی دیتی ہے۔ نوازشریف نے کہا ’’طالبان کی مذاکرات کی پیش کش کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔ یہی بہترین آپشن ہے۔ طالبان سے بیٹھ کر بات کیوں نہ کریں؟‘‘ میدان جنگ کی صورتحال کو جنرل کیانی کی تقریر کی روشنی میں دیکھا جائے‘ تودہشت گردی کے خلاف جنگ میں وہ صورتحال پیدا ہی نہیں ہوئی‘ جو مذاکرات کے لئے ضروری ہوتی ہے۔ پس منظر جاننے کے لئے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ مذاکرات کی پیش کش کس نے کی اور مذاکرات کس سے کئے جائیں؟ مذاکرات کی پہلی پیش کش عصمت اللہ معاویہ کی طرف سے کی گئی‘ جو تحریک طالبان پاکستان میں کسی بڑے عہدے پر فائز نہیں۔ اس کے بعد میڈیا انچارج احسان اللہ احسان نے اس پیش کش کی تعریف کی۔ لیکن حکیم اللہ محسود کی طرف سے تو اس پیش کش کو ابھی تک تسلیم نہیں کیا گیا اور اس پیش کش کے جواب میں مذاکرات کی تیاریاں کر رہے ہیں‘ پاکستان کے آئندہ وزیراعظم۔ جائزہ لینا ہو گا کہ اگر مذاکرات کرنا ہوں‘ تو دوسرا فریق کون ہو گا؟ طالبان کے 36سے زیادہ گروپ ہیں‘ جو صرف پاکستان میں برسرپیکار ہیں۔ ان میں سے کچھ گروپ حکیم اللہ محسود کے اتحادی ہیں۔ مذاکرات کی پیش کش کو خود حکیم اللہ محسود نے نہیں اپنایا۔ ان کے باقی اتحادی گروپ کس طرح کریں گے؟ درحقیقت مذاکرات کی پیش کش ابھی محض ایک خیال ہے‘ جو ایک فرد کی طرف سے پیش ہوا اور کسی بھی دہشت گرد تنظیم نے اسے باضابطہ طور پر پیش نہیں کیا۔ ماضی میں دہشت گردوں کے ساتھ حکومتی مذاکرات کا جو انجام ہوا‘ اس کا ریکارڈ بھی اچھا نہیں۔ جس دہشت گرد لیڈر کے ساتھ بھی پاک فوج یا حکومت کے نمائندوں نے مذاکرات کئے‘ وہ یا تو اپنے ساتھیوں کو مشترکہ فیصلے نہیں منوا سکا یا خود ہی کئے ہوئے معاہدے سے مکر گیا اور کئی بار ان معاہدوں کے نتیجے میں پاکستانیوں کو نقصانات اٹھانا پڑے۔ یہاں میں نوازشریف کا اپنا ایک تجربہ بھی یاد کرا دیتا ہوں۔ اس زمانے میں نوازشریف خود وزیراعظم تھے۔ پنجاب کی سی آئی ڈی نے بڑی محنت اور جانفشانی کے بعد‘ لشکر جھنگوی کے دو گروپوں کا سراغ لگایا۔ جن کے کیمپ ملا عمر کے زیرقبضہ علاقوں میں افغانستان کے اندر تھے۔ حکومت پاکستان نے ملاعمر کی حکومت کو تمام شواہد کے ساتھ ان کیمپوں کے بارے میں بتایا۔پاکستانیوں کو جواب ملا کہ آپ کی اطلاعات درست ہیں‘ تو ہم ان لوگوں کو آپ کے حوالے کر دیتے ہیں۔ ادھر پاکستان ‘ دہشت گردوں کے دونوں کیمپوں سے اپنے مفروروں کی بازیابی کے لئے تیاری کر رہا تھا۔ ادھر سی آئی ڈی کے ذرائع نے اطلاع دی کہ وہ دونوں کیمپ تو خالی ہو چکے ہیں۔ ملا عمر صاحب کے کارندوں نے ایک طرف ہمارا مطالبہ قبول کر لیا اور ساتھ ہی مفرور دہشت گردوں کو اطلاع کر دی کہ پاکستانیوں نے آپ کا سراغ لگا لیا ہے۔ ان کے حملے سے پہلے کسی دوسری جگہ منتقل ہو جائیں۔ گوریلا جنگوں میں ایسے واقعات معمول کے حربے ہیں۔ جو گروپ اس وقت پاکستان میں دہشت گردی کر رہے ہیں‘ ان کی تعداد پینتیس چھتیس کے قریب ہے اور وہ کسی بھی ایک کمانڈر کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔ گوریلا جنگوں کا پہلا سبق ہی یہ ہے کہ وہ کوئی مربوط اور بڑا تنظیمی ڈھانچہ تیار نہیں کرتے۔ ہمیشہ چھوٹے چھوٹے یونٹس‘ آزادانہ طور پر سرگرم رہتے ہیں۔ ان کے رابطوں کے ذرائع بڑے محدود اور خفیہ ہوتے ہیں۔ کوئی بھی ایک گروپ اگر پکڑا جائے‘ تو اس کے کسی بھی رکن کو دوسرے گروپ کے بارے میں پتہ نہیں ہوتا۔ حکومت پاکستان مذاکرات کس سے کرے گی؟ پہلے اس کا تو پتہ ہونا چاہیے۔ انتخابات سے کچھ پہلے مولانا فضل الرحمن نے ایک آل پارٹیز کانفرنس میں تمام شرکا کی تائید سے قبائلیوں پر مشتمل ایک جرگہ بنایا‘ جو طالبان سے مذاکرات کے لئے فضا ہموار کرے گا۔ اس کانفرنس میں نوازشریف بھی شامل تھے۔ وہ جرگہ آج تک دہشت گردوں کے کسی بھی گروپ کو مذاکرات کے لئے تیار نہیں کر سکا۔ کم از کم میڈیا میں ایسی کوئی خبر نہیں آئی۔ تازہ خبر یہ ہے کہ نوازشریف نے مولانا سمیع الحق سے رابطہ کر کے‘ مذاکرات کے انعقاد میں مدد مانگی ہے۔ لیکن مذاکرات کی پیش کش کرنے والے طالبان کے گروپ نے انتخابات سے پہلے جن لیڈروں کو ثالث ماننے کی پیش کش کی تھی‘ ان میں مولانا فضل الرحمن اور نوازشریف کے نام تو شامل تھے لیکن مولانا سمیع الحق کا نام تک نہیں تھا۔ نوازشریف کو شاید یہ خبر نہیں دی گئی کہ پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے گروپوں میں سے ایک بھی ایسا نہیں‘ جو مولانا سمیع الحق کے زیراثر ہو۔ ان کا اثرورسوخ ملا عمر کی کمانڈ میں افغانستان کے اندر لڑنے والے طالبان میں ضرور ہو گا۔ لیکن یہ بھی پرانا قصہ ہے۔ آج تو شاید خود ان کے مدرسے کے طالب علم بھی پوری طرح ان کے کنٹرول میں نہیں۔ مناسب ہو گا کہ نوازشریف اپنا منصب سنبھالنے کے بعد ایجنسیوں سے تازہ ترین حالات کے بارے میں بریفنگ لیں اور اس کے بعد مذاکرات کے موضوع پر اظہار خیال فرمائیں۔ اچھا نہیں لگتا کہ ایک ہی موضوع پر ایک ہی دن چیف آف آرمی سٹاف اور منتخب وزیراعظم دو اجتماعات سے خطاب کریں اور ان کے خیالات میں مماثلت نہ ہو۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved