کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ اگر کبھی کوئی ایسا مورخ آیا ‘ جس نے انسان کی پوری تاریخ رقم کی ‘تو یہ کس قدر حیرت انگیز داستان ہوگی؟کیاآپ جانتے ہیں کہ سائنس زندگی کو صرف دو گروپس میں تقسیم کرتی ہے ؛ 1۔ پودے ‘ 2۔ جانور۔ پرائمری جماعت میں ‘ جب جنرل سائنس کی کتاب میں یہ پڑھا تو میں حیران رہ گیا۔ حیاتیاتی طور پر انسانوں میں اور جانوروں کی دوسری سپیشیز میں کوئی فرق نہیں ہے ۔
اسی طرح ہمارا سانس لینے کا نظام ہے ‘ اسی طرح ہماری جلد کام کرتی ہے ‘ اسی طرح پھیپھڑے ‘ دل او رگردے ۔ تو اگر ایک ایسا مورخ آتا ہے ‘ جو انسان کی مکمل تاریخ بیان کر سکے تو وہ کہے گا کہ واحد جاندار‘ جس نے لباس پہنا ‘ آگ استعمال کی ‘ زمین کے نیچے سے کوئلہ ‘ تیل اور گیس نکالی ۔ زمین کھود کر لوہا نکالا۔ اس کا انجن بنایا ۔ پہیہ انجن کے نیچے لگایا ۔موٹر سائیکل اور گاڑی میں سفر کرنے لگا۔ آپ ذرا ایک لمحے کے لیے غور کریں کہ اپنے جسم میں پر نصب نہ ہونے کے باوجود انسان ہوا میں اڑ رہا ہے ۔ کبھی میملز‘ پرائمیٹس اور گریٹ ایپس میں سے کسی دوسرے نے اس چیز کا تصور بھی نہیں کیا ؟
میں نے پہلے بھی اس بارے میں لکھا تھا۔ سائنس یہ کہتی ہے کہ کرۂ ارض پہ سب سے پہلے ایک زندہ خلیہ پیدا ہواتھا‘ پھر آہستہ آہستہ وہ کثیر خلوی جاندار بن گیا۔ وہ پیچیدہ ہوتا چلا گیا اورحتیٰ کہ مچھلی جیسی مخلوقات وجود میں آئیں ‘ پھر مزید بیس کروڑ سال کا عرصہ گزرا تو سانپ اور مگر مجھ جیسے ریپٹائلز بن گئے ۔ ریپٹائلز سے کروڑوں برس بعد میملز وجود میں آئے‘ جو کہ اپنے بچوں کو دودھ پلاتے ہیں ۔ میملز میں سے پھر قدرے بڑے دماغ والے جاندار پیدا ہوئے ‘ جن کو پرائمیٹس کہتے ہیں ۔ پرائمیٹس میں سے پھر ایک اور گروپ پیدا ہوا‘ جسے گریٹ ایپس کہتے ہیں ۔انسان بھی انہی گریٹ ایپس میں شمار ہوتا ہے ۔ گریٹ ایپس میں سے کچھ سپیشیز ختم ہو چکی ہیں ۔ کچھ آج بھی زندہ ہیں ۔
تو یہ انسان ہوا میں اڑنے لگا‘ پھر ا س نے چاند اور دوسرے سیاروں پہ اترنے کا خواب دیکھا۔ وہ میزائل میں بیٹھ کر چاند پہ چلا گیا ۔ اس نے مریخ اور دوسرے سیاروں پہ جا بسنے کا خواب دیکھا ۔ وہ اتنا ترقی یافتہ ہو گیا کہ اس نے اپنے ضائع ہو جانے والے اعضا سٹیم سیلز کی مدد سے لیبارٹری میں بنانے شروع کر دئیے۔چین میں ایک ایکسیڈنٹ میں ایک شخص کا ناک ٹوٹ گیا‘ تو اس کے ماتھے پر سٹیم سیلز کی مدد سے نئی ناک اگائی گئی ‘ پھر اس ناک کو اکھاڑ کر اس کی مخصوص جگہ پر نصب کر دیا گیا ۔
مورخ یہ بھی لکھے گا کہ حضرتِ انسان جب بھلائی کرنے پہ آیا تو عبد الستار ایدھی کی طرح ساری زندگی مخلوق کی خدمت میں جتا رہا۔ جب برائی پہ آمادہ ہوا تو ایٹم بم بنا کر اپنے ہی ہم نسلوں پہ مار دیا ۔
ایک طرف تو انسان کی ترقی کا عالم یہ تھاکہ وہ دوسرے سیاروں پہ اتر رہا تھا ۔ دوسری طرف یہ صورتِ حال تھی کہ وہ بڑھاپے اور موت کا علاج نہ ڈھونڈ سکا ۔ اب‘ miseryکا عالم دیکھیں؛ چین کے صوبے Hubeiمیں ایک وائرس سامنے آتا ہے اور100سے زیادہ لوگ مر جاتے ہیں ۔ Wuhanسمیت چین کے کئی شہر اس وقت لاک ڈائون کر دیے گئے ہیں ۔ ان شہروں میں بسنے والے کروڑوں لوگوں کو دوسرے شہر جانے کی اجازت نہیں ۔ کروڑوں افراد منہ پہ ماسک لگائے پھر رہے ہیں‘ چین میں اب تک پانچ ہزار سے زیادہ لوگوں میں اس وائرس کی تشخیص ہو چکی ہے ۔ تھائی لینڈ میں 14لوگوں میں ‘ ہانگ کانگ میں 8امریکہ میں پانچ ‘ آسٹریلیا میں پانچ‘ جاپان میں سات‘ فرانس میں چار‘ کینیڈا میں تین اور جرمنی میںایک۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ وائرس پوری دنیا میں پھیل سکتا ہے ‘کیونکہ لوگ جہازوں میں بیٹھ کر کرہ ٔ ارض کے ایک ملک سے دوسرے ملک کا سفر طے کر رہے ہیں ۔ وہ جہاز جو انسان کی ترقی کی علامت تھا‘ وہ بیماری اور موت کو پھیلا رہا ہے ۔ ماضی میں پولیواور طاعون جیسی بیماریاں پھیلتی تھیں ‘تو شہروں کے شہر مر جاتے تھے ۔ کورونا وائرس پولیو کی طرح ایک انسان سے دوسرے میں منتقل ہورہا ہے۔
امریکہ میں ایئر پورٹس اور سرحدوں پر سکریننگ تیزی سے بڑھائی جا رہی ہے ۔چین سے امریکہ جانے والی 24فلائیٹس کینسل کر دی گئی ہیں ۔ آدھی دنیا اس وقت ماسک لگا کر گھوم رہی ہے۔اس سب کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک ایسا وائرس آتا ہے ‘ جو کہ بہت سخت جان ہے اور تیزی سے ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہو تا ہے تو کرہ ٔارض کے سات ارب انسان چند دنوں میں موت کے گھاٹ اتر سکتے ہیں ۔
ایک طرف تو انسانی ترقی کا یہ عالم اور دوسری طرف miseryکا یہ حال ہے کہ ایک جرثومہ پورے کرہ ٔ ارض سے انسان کا نام و نشان مٹا دینے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔مذہب بتاتا ہے کہ یاجوج ماجوج نامی ایک قوم اپنی سرحدوں سے باہر نکلے گی۔ وہ اپنی سرحدوں سے نکل کر دنیا میں پھیلتی چلی جائے گی اور ہر شے چٹ کر جائے گی‘پھر اس کی موت اس کے گلے میں پیدا ہو جانے والے ایک کیڑے سے ہو گی ۔ یقینا وہ ایک وائرس ہوگا ‘جو کہ ایک شخص سے دوسرے میں منتقل ہو گا۔یہ وائرس ایک ہتھیار ہے ‘ جس سے دنیا سے مخلوقات کا صفایا ہو سکتا ہے ۔
یہ تو چین اورا مریکہ ہیں ‘ جو اپنی آ بادیوں کی سکریننگ کر رہے ہیں کہ ان میں کورونا وائرس ہے یا نہیں ۔ اگر افریقہ جیسے غریب براعظم میں ایک وائرس آتا ہے ‘تو اس سے پہلے کہ اس کی سکریننگ ہو‘ پورے براعظم سے زندگی کا صفایا ہو سکتاہے ۔ انسان شروع میں خود بھی ایک جرثومہ ہی تو ہوتاہے ‘ نر اور مادہ میں ایک ایک جرثومے کے ملاپ سے بننے والی ایک مخلوق۔ یہ خوردبینی جاندارہمارے جسموں میں ‘ ہماری آنتوں میں ہر وقت موجود رہتے ہیں ۔ جیسے ہی انسان مرتا ہے‘ وہ اسے کھانا شروع کر دیتے ہیں ۔
تو اس کا مطلب یہ ہے کہ خوردبینی جانداروں کے ذریعے خدا جب چاہے ‘ کرۂ ارض سے زندگی کا صفایا کر سکتاہے ۔ اینٹی بایوٹکس کے استعمال کی کثرت سے بیکٹیریا میں ویسے مزاحمت پیدا ہوتی چلی جا رہی ہے ۔ اگر آنے والے وقتوں میں مزید طاقتور اینٹی بائیوٹکس دریافت نہ ہوئیں تو ایک وقت آئے گا‘ جب لوگ معمولی زخموں میں انفیکشن سے مرنا شروع ہو جائیں گے ‘ جیسے ماضی میں مرتے تھے۔
یہ وائرس اور بیکٹیریا کون ہیں ؟ یہ ہمارے قاتل ہیں ‘ جو ہمارے اندر داخل ہو کر ہمیں قتل کر سکتے ہیں ۔ گو کہ ہمارا امیون سسٹم اس کے خلاف لڑے گا ‘لیکن اگر وائرس طاقتور ہوا تو امیون سسٹم اس کا کچھ نہیں کر سکے گا۔ اس وائرس اقسام اتنی ہیں کہ انسان کوشش بھی کرے تو انہیں گن نہیں سکتا ۔
آپ یہ بتائیے کہ وہ کون لوگ ہیں ‘ جو کتے‘ چمگادڑ اور کاکروچ تک جو کھا جاتے ہیں اور اگر قحط آئے تو انسانوں کو بھی کھانا شروع کر دیں گے ؟
خوفناک ترین بات یہ ہے کہ یہ وائرس ایک انسان سے دوسرے میں منتقل ہو رہا ہے ۔ یہ planet Earthسے انسان کا جڑسے صفایا کر سکتا ہے ۔ پیچھے کچھ بچتا ہی نہیں ۔ انسان کی ساری ڈینگیں ‘ کائنات تسخیر کرنے کے اس کے سارے خواب ایک لمحے میں ملیا میٹ ہو جاتے ہیں !