تحریر : صابر شاکر تاریخ اشاعت     31-01-2020

کرونا وائرس ‘چین سے پاکستان تک

کورونا وائرس کی وبا نے چین میں جنم لیا ‘ہر روز اس وبا سے متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے اور ہلاکتوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے‘ لیکن حقیقت پسندانہ نظر سے دیکھا جائے تو فی الوقت ایک ارب سے زائد کی آبادی میں ہلاکتوں کی تعداد دو سوسے کم اور متاثرہ افراد کی تعداد دس ہزار سے کم ہے۔ بلا شبہ یہ ایک لاعلاج وبائی مرض ہے جس کی وجہ سے خوف وہراس بھی پایا جاتا ہے۔ اسی باعث کئی ممالک نے چین میں اپنا فضائی آپریشن معطل کردیا ہے اور اپنے شہریوں کو وہاں سے نکالنے بارے چین سے بات چیت شروع کردی ہے‘ لیکن ابھی تک ایسی کوئی مصدقہ اطلاع نہیں ہے کہ چین سے بڑے پیمانے پر غیرملکی شہریوں کا انخلا شروع ہوچکا ہے۔ تمام ممالک انتہائی محتاط ہیں اور کوشش کررہے ہیں کہ کورونا وائرس سے وہ محفوظ رہیں اور کوئی ایسا اقدام نہ کیا جائے کہ جس سے یہ مرض یا اس سے متاثرہ کوئی مریض ان کے ہاں منتقل ہو۔ اچھی طرح جانچ پڑتال کے بعد کْچھ ممالک اپنے شہریوں کو محدود پیمانے پر نکال رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ مرض جانوروں سے انسانوں کو منتقل ہوتاہے اور بڑی آسانی سے ایک انسان یا جانور سے دوسرے انسان اور جانور کومنتقل ہو جاتا ہے۔پاکستان کے پاس اس وائرس کا پتا لگانے یا کسی شخص میں اس کی موجودگی کی تشخیص کرنے کیلئے بھی کوئی آلہ موجود نہیں ہے۔
پاکستان کی درخواست پر جاپان نے کِٹس عطیہ کے طور پر دینے کا اعلان کیا ہے ‘یہ کِٹس دوفروری تک پہنچ جائیں گی اور چین بھی پاکستان کو یہ کِٹس دے رہا ہے جس کے بعد چین سے کسی کو آنے کی اجازت دی جائے گی۔ آئندہ ہفتے پاک چین خنجراب بارڈر کھولنے کا فیصلہ بھی اپریل تک موخر کردیا گیا ہے۔ چین میں پھنسے ہوئے پاکستانی شہری اور طلباوطالبات بھی خوفزدہ ہیں اور ایک لمحہ ضائع کئے بغیر وطن واپس آنا چاہتے ہیں‘ لیکن درون پردہ کیے گئے فیصلے کے مطابق پاکستان خاطر خواہ انتظام کیے بغیر کسی بھی شہری کو چین سے پاکستان منتقل نہیں کرے گا ‘کیونکہ ہیلتھ سکیورٹی کے پیش نظر ماہرین نے یہی رائے دی ہے جو کہ یقیناً بہتر ہے۔ سی پیک کی وجہ سے ہزاروں چینی باشندے پاکستان کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں اور ان کی ملک بھر میں آمدورفت کا سلسلہ ہے۔ اس لیے پاکستانیوں کو اس سے محفوظ رکھنے کیلئے اور بھی لازم ہے کہ حکومت سو فیصد ہیلتھ سکیورٹی کے انتظامات کرے اور اس ضمن میں کوئی رسک نہ لیا جائے‘ نہ ہی چین کا کوئی دباؤ قبول کیا جائے‘ کیونکہ ایسی اطلاعات ہیں کہ چین یہ کوشش کررہا ہے کہ سی پیک کے لیے لازمی سٹاف کو پاکستان آنے سے نہ روکا جائے اور ہر آنے والے شہری کو پندرہ روز تک آئیسولیشن وارڈ میں رکھا جائے جبکہ ہزاروں کی تعداد میں آنے والے شہریوں کو اس طرح وارڈ میں رکھنے کی پاکستان میں گنجائش بھی نہیں ہے۔ 
ہمارا دین بھی ایسی وبائی امراض کے پھیلنے اور ان سے بچاؤ کیلئے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔آخری پیغمبر محمد مصطفی ﷺ کی احادیث کے مطابق شہریوں کو ایسی جگہ جانے سے منع کیا گیا ہے جہاں طاعون پھیل چکا ہو‘ اسی طرح ایسی جگہ سے باہر نکلنے کے بارے میں بھی ممانعت کی گئی ہے۔احادیث کی کتب بخاری شریف اورمسلم میں عبد الرحمن بن عوف ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جب بھی کسی علاقے میں طاعون پھیلنے کی خبر سنو تو وہاں مت جاؤ‘ اور جس علاقے میں تم موجود ہو وہاں پر طاعون پھوٹ پڑے تو وہاں سے ڈر کر باہر مت بھاگو۔اسی طرح بخاری اور مسلم میں اسامہ بن زید ؓکے حوالے سے ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا‘ طاعون ایک عذاب ہے جو کہ بنی اسرائیل یا تم سے پہلے کسی اور قوم پر نازل کیا گیا؛ چنانچہ جب کسی علاقے میں طاعون پھیلنے کی خبر سنو تو وہاں مت جاؤ اور جس علاقے میں تم موجود ہو اگر وہاں پر طاعون پھوٹ پڑے تو وہاں سے ڈر کر باہر مت بھاگو۔ ان احادیث کی روشنی میں ان تمام پاکستانیوں کو جو چین میں اس مشکل میں پھنسے ہوئے ہیں دعا کرنی چاہیے اور اچھے وقت کا انتظار کرنا چاہیے ‘کیونکہ معمولی سی غلطی اور غفلت بڑے حادثے کا سبب بن سکتی ہے۔اس کیلئے ہمارے ذرائع ابلاغ اور حکومت کو آگہی مہم بھی چلانی چاہیے تاکہ لوگوں میں شعور اجاگرہو۔
اس ساری صورتحال کوامریکہ سیاسی‘ معاشی اور تجارتی فوائد حاصل کرنے کیلئے چین کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کررہا ہے۔کورونا جیسے مہلک وائرس کی طرح ہماری قومی سیاست کو بھی ایسا ہی مہلک وائرس لاحق ہے اور بہتّر سال گزرنے کے باوجود پاکستان کی سیاست‘سیاسی نظام‘سیاسی جماعتیں اور ملکی نظام وائرس فری نہیں ہونے پارہا۔ پارلیمانی‘ صدارتی‘ وحدانی‘ وفاقی‘ سول اور فوجی نظام حکومت آزمائے جا چکے ہیں‘ لیکن بدقسمتی سے ابھی تک کوئی بھی تجربہ مملکتِ خداداد کو مضبوط سیاسی نظام نہ دے سکااور اب اداروں اور سیاسی جماعتوں کے باہمی جھگڑوں نے نوبت بدحالی کی اس حد تک پہنچادی ہے کہ کشمیر جیسے اہم قومی نکتے پر ابھی تک ایک بھی سیاسی بیٹھک نہیں ہو سکی۔ بھارت نے مقبوضہ وادی کو چھ ماہ سے ایک قید خانہ بنا رکھا ہے اور تمام کشمیری اپنے اپنے گھروں میں قید ہیں۔ انہیں اغوا کرکے قتل کیا جارہا ہے اور بھارت کے دوسرے حصوں میں قائم جیل خانوں میں منتقل کیا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ سمیت دیگر بین الاقوامی فورمز پر پاکستان کشمیر پر آواز اٹھارہا ہے لیکن داخلی طور پر ابھی تک ہماری سیاسی قیادت ایک آواز نہیں ہو سکی۔ اس کی سب سے پہلی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ وہ کشمیر کے ایک نکاتی ایجنڈے پر قومی گول میز کانفرنس بلائی جائے‘ تاکہ پانچ فروری کو کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے وقت پاکستان کی ایک آواز دنیا تک پہنچ سکے۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر کشمیر کے بارے میں ایک مؤقف دنیا بھر کے سامنے پیش کیا جائے اور اس مشترکہ اجلاس کی کارروائی سننے اور دیکھنے کیلئے غیرملکی سفارتکاروں کو بھی مدعو کیا جائے لیکن تادم تحریر ایسی کسی اچھی خبر کی کوئی نوید نہیں ہے۔ منتشر اور باہم ٹکڑوں میں بٹی قوم مظلوم کشمیریوں کے زخموں پر بھلا کیسے مرہم رکھ سکتی ہے؟ اس لیے اب بھی وقت ہے کہ حکومت اپنا دامن وسیع کرے اور اہم قومی امور پر اتفاق رائے پیدا کرے‘ کیونکہ کرپشن سے پاک معاشرے کی تخلیق کیلئے ایک لمبا سفر درکار ہے اور اکیلے عمران خان اس میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ بہتر ہوگا پہلے وہ کام کئے جائیں جن کے لئے حالات سازگار ہیں۔
خبر یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے پر اتفاق ہوچکاتھا‘جس کے نتیجے میں وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے درمیان وزیراعظم آفس میں بڑی خوشگوار ملاقات ہوئی اور دونوں جماعتوں کے درمیان سیاسی کشیدگی کم کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا اور مرکزی اور سندھ حکومت کے مابین حکومتی اور انتظامی امور روانی سے چلانے پر اتفاق ہوا۔ آئی جی سندھ کی تبدیلی کے معاملے پر وزیراعظم عمران خان نے سندھ حکومت کا مؤقف تسلیم کیا اور وزیراعلیٰ کی مرضی کے مطابق آئی جی سندھ دینے کا وعدہ کیا‘ لیکن وزیراعظم عمران خان کے دورۂ کراچی کے دوران بعض اتحادیوں اور پھر وفاقی کابینہ کے بعض ارکان نے وزیراعظم کے ذہن کو پراگندہ کیا اور مفاہمت کے ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کی‘ جو تاحال جاری ہے۔ اطلاع ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور پی پی پی کے کْچھ سیاسی زعما پارلیمنٹ کے اندر تعاون کو فروغ دینے کے خواہاں ہیں‘ تاکہ چھوٹے گروپس اور مسلم لیگ (ن )کو کنارے لگایا جاسکے‘ جو خاموشی سے طاقتور حلقوں سے اختلافات ختم کرکے اپنے لیے جگہ بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved