تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     31-01-2020

غریب ملکوں کی لوٹ‘ مغرب کے خزانوں میں

گزشتہ دنوں نیو یارک ٹائمز کے اداریے نے پناما پیپرز کے زخم دوبارہ کھول کر دنیا کے سامنے رکھ دیئے۔ کہانی کا موضوع وہی پُرانا اور جانا پہچانا ہے۔ یہ کہ پاکستان جیسے کمزور ملکوں میں ہونے والی لوٹ مار کا پیسہ منی لانڈرنگ کے ذریعے کیسے مغرب کے خزانوں میں جمع ہوتا رہتا ہے۔ مرکزی کردار ہماری طرح کے افریقی ملک انگولا کے سابق انقلابی صدر کی بیٹی ازابل دوس سنتوس ہے۔ موصوفہ نے سینکڑوں بے نامی پردہ در پردہ کمپنیاں اور ایک بینک قائم کر رکھا تھا۔ اس کے والد دو دہائیوں سے ملک کے صدر تھے۔ یاد رہے کہ یہ ملک ہیرے جواہرات اور تیل کی دولت سے مالا مال ہے‘ مگر ہمارے ملک کی طرح وہاں بھی کرپشن زوروں پر رہی‘ اور اب بھی ہے۔ ہماری طرح وہاں بھی بچوں کی اموات کی شرح دنیا کے دیگر ممالک کی نسبت زیادہ ہے۔ ناکام حکومتوں اور ریاستوں کی داستانِ بربادی یکساں نوعیت کی ہے۔ صرف جغرافیہ‘ وسائل کی نوعیت اور لوٹ مار کرنے والی سیاسی قیادت‘ بیوروکریسی اور سرکاری اداروں پہ قابض اشخاص میں فرق ہوتا ہے۔ اس حوالے سے کچھ حقائق آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ کرپشن میں ملوث اشرافیہ‘ حکمران طبقات اور اہلِ اقتدار کے خلاف آواز اٹھانا‘ صرف کہنے کی حد تک ذمہ داری نہیں ہے‘ بلکہ اگر قلم اور زبان اظہار کا وسیلہ بنے ہیں‘ اور ضمیر بھی زندہ ہے تو یہ مقدس فریضہ ہے‘ خصوصاً ہمارے ملک میں‘ جہاں ہم میں سے کچھ تو کرپٹ اشرافیہ میں سے لوگوں کو نہ جانے کس کس نوعیت کی تعریفی سندیں زبانی‘ کلامی اور قلم کاری کے جوش میں دینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ سوچ یہی ہوتی ہے کہ حق اور انصاف جائے بھاڑ میں‘ ہم نے اپنے اپنے جذباتی انداز میں دفاع کرنا ہے۔
انسانیت اور انسان دوستی کے تقاضے یہ ہیں کہ ظلم اور نا انصافی جہاں بھی ہو‘ اس کے خلاف بولنا‘ لکھنا اور ہر ممکن عمل سے اسے ختم کرنے کی سعی کرنا چاہئے۔ یہ کام عالمی سطح پر منظم تحقیقی صحافیوں کے کنسورشیم نے پناما پیپرز میں سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں سیاست دانوں‘ سرمایہ داروں‘ نوکر شاہوں اور حکمران طبقات سے تعلق رکھنے والوں کو بے نقاب کر کے کیا ہے۔ کئی ممالک میں تو بڑے بڑے خاک چاٹنے پر مجبور ہوئے‘ اقتدار کھو بیٹھے اور دنیا کی نظروں سے ایسے گرے کہ شرمندگی اور بے چارگی کا نمونہ بن کر گوشہ نشین ہو گئے۔ بہت سے عدالتوں کے کٹہرے میں یا حوالات کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ ہمارے ہاں‘ بد قسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا۔ اس کی بنیادی وجہ ان لوگوں کا سیاسی جماعتوں پہ قبضہ‘ ابلاغی ذرائع میں طاقت ور حلیفوں کی موجودگی‘ انتخابی سیاست میں با اثر موروثی خاندانوں کی حمایت اور لوٹ مار کی دولت سے ہر سطح پہ رشوت‘ سفارش اور خریداری کا چلن اور مافیائوں جیسی دھونس اور دھاندلی ہے۔ ان بے باک اور بہادر صحافیوں نے ایک بار پھر اجتماعی کوششوں سے ازابل دوس سنتوس کی منظم کرپشن کو بے نقاب کیا ہے۔ مذکورہ اداریے کے مطابق انہوں نے سات لاکھ پندرہ ہزار برقی پیغامات کا جائزہ لیا‘ کئی ملکوں کی خاک چھانی اور اپنی اس کوشش میں نہ جانے کتنے دروازے کھٹکھٹائے۔ موصوفہ کی چار سو سے زیادہ پردہ در پردہ کمپنیاں پائی گئی ہیں۔ اس کی دولت اور اثاثوں کی مالیت دو ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ جو نکتہ اخبار نے اٹھایا‘ یہ ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں کرپشن اور لوٹ مار کی دولت کا ارتکار جہاں بھی ہو‘ اس میں امریکہ اور یورپ کی مشہور کمپنیوں‘ مشاورتی فرموں‘ بینکوں اور مالیات کے شعبے میں سرمایہ کار کمپنیوں کا بہت بڑا حصہ ہوتا ہے۔ اگرچہ امریکہ نے بینکوں پہ پابندیاں لگا کر اور نئی قانون سازی کر کے منی لانڈرنگ کو کسی حد تک قابو میں کر لیا ہے‘ مگر جو مشاورتی اور مالیاتی کمپنیاں انگولا اور ہم جیسے ممالک سے کرپشن ختم کرنے‘ پنامہ میں فرضی سرمایہ کاری اور ایسی کمپنیاں بنانے اور بنوانے میں کردار ادا کر رہی ہیں‘ ان پر قانونی گرفت کے لئے ابھی تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ نہ ہی ایسی کمپنیوں کے بنائے جانے کے عمل کو روکنے کی کوئی ٹھوس سعی نظر آتی ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے کہ مغربی ممالک کی حکومتوں نے لوٹ مار اور کرپشن کے سرمائے کی حفاظت اور اپنے ملکوں میں سرمایہ کاری کے لئے محفوظ پناہ گاہیں بنا رکھی ہیں۔ ایک برطانوی اخبار کی دو ہزار سترہ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق مغرب میں ساٹھ کے قریب ٹیکسوں سے محفوظ سرمایہ کاری کی پناہ گاہیں ترقی پذیر ممالک کے حکمران طبقات کے لئے موجود ہیں۔ اس رپورٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ انیس سو اسی سے لے کر دو ہزار سترہ تک ان پناہ گاہوں میں غیر قانونی طور پر ساڑھے تیرہ کھرب ڈالر منتقل کئے گئے تھے۔ اس دولت کا اندازہ لگانے کے لئے آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ دنیا کی سب سے طاقت ور اور دولت مند معیشت امریکہ کی کم و بیش اتنی ہی سالانہ قومی آمدنی ہے۔ ہم غریب ملک کیوں ہیں؟ ہمارے ہاں غربت کیوں ہے؟ ہم بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے کیوں دبے ہوئے ہیں؟ ہمیں اپنی اپنی عدالتوں اور سرکاری محکموں میں انصاف اور اپنے شہری حقوق کیوں نہیں ملتے؟ یہاں اضطراب‘ بے چینی کیوں ہیں‘ اور اب بہت سے ترقی پذیر ممالک میں آئے دن ہنگامے کیوں برپا ہوتے ہیں۔ لاطینی امریکہ‘ افریقہ‘ مشرق وسطیٰ‘ افغانستان اور پاکستان میں حالات قابو میں کیوں نظر نہیں آتے؟ سب سوالوں کا جواب ہر جگہ ہر دور میں ایک ہی رہا ہے۔ اس معاملے میں رشوت‘ بد عنوانی اور منظم لوٹ مار کا حوالہ دیا گیا ہے۔ اگر آپ انگریزی پڑھ سکتے ہیں تو اس سے کہیں زیادہ ہوش ربا حقائق سامنے آ جائیں گے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہر دور میں لوٹ مار کرنے والوں نے بھی لوٹ مار ختم کرنے کے کھوکھلے دعوے کئے‘ عوام کو دھوکا دینے کے لئے۔ غیر منتخب حکومتیں بھی آئیں اور منظم سیاسی گروہوں کی کرپشن ختم کرنے اور ان کا کڑا احتساب کرنے کے فلک شگاف نعرے بلند کرتی رہیں‘ لیکن کچھ زیادہ پیش رفت نہ ہو سکی۔ آخر کار انہیں کرپٹ سیاست دانوں اور خاندانوں کا انہیں سہارا لینا پڑا۔ احتساب کا عمل سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کا آلہ کار بنا۔ عمران خان صاحب نے بیس سال کرپشن کے خلاف اور احتساب کے حق میں جدوجہد کی‘ نوجوان طبقے نے سر آنکھوں پر بٹھایا کہ انہیں اس بیانیے اور عمران صاحب کی قیادت میں امید کی کرن نظر آئی۔ ابھی تک تو وہ بے بس نظر آتے ہیں۔ اقتدار ان کے پاس ہے‘ اب بہانہ کس بات کا؟ یہ بات میں ایک پہلے مضمون میں کر چکا ہوں کہ تحریک انصاف نے نظریہ چھوڑ کر عددی اکثریت کے روایتی فارمولے کو گلے لگا لیا ہے۔ پنجاب میں ان کی اتحادی جماعت جب مشرف دور میں برسر اقتدار تھی تو کرپشن میں کون سی کسر اس نے چھوڑی تھی۔ کئی مقدمات اور تفتیشوں کا ان کو سامنا ہوتا‘ اگر احتساب صرف کمزور اور حزب اختلاف کے لئے نہ ہوتا۔ خیبر پختونخوا میں کئی بد عنوان لوگ تحریک کا نیا جماعتی لبادہ اوڑھ کر پاکیزہ بن چکے ہیں۔ دیگر صوبوں میں بھی یہی حال ہے۔ 
آج صحافی‘ دانشور اور قوم و ملک کا درد رکھنے والا قلم کار صرف پاکستان میں نہیں ہر لٹے پٹے ملک میں بے بس نظر آتا ہے۔ اجتماعی طور پر ہمارے معاشرے بگڑ چکے ہیں یا ان میں بگاڑ پیدا کئے گئے ہیں تاکہ گند اور کالک چھوٹے طبقات پر ہی زیادہ نظر آئے۔ اسی لئے تو یہ مکالمہ رائج الوقت ہے کہ سارا معاشرہ ہی کرپٹ ہے‘ آپ صرف اشرافیہ‘ سیاسی خاندانوں اور حکمرانوں کی بات کیوں کرتے ہو؟ بہرحال یہ طے ہے کہ اگر کسی ملک میں سدھار لانا ہے تو مثال اوپر سے قائم ہو گی۔ اوپر والے جس جماعت میں بھی ہیں‘ اب بہت طاقت ور ہو چکے ہیں۔ سب کا مفاد مشترک ہے: لوٹ مار۔ عالمی سطح پر حکمران طبقات سرمایہ دار سے لے کر سیاسی گماشتوں تک آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ ہمیں بھی تو اسی سطح پر اور اسی طاقت سے منظم ہونا ہو گا۔ اس کے بغیر جو ہوتا رہا ہے اور ہو رہا ہے‘ بے لگام اور بے رکاوٹ ہوتا رہے گا۔ غریب عوام اور ممالک کی دولت ہمارے بد عنوان حکمران امیر ممالک کے خزانوں میں جمع کراتے رہیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved