کشتیاں باہر کے پانی سے نہیں بلکہ اندر کے پانی سے ڈوبتی ہیں۔ انصاف سرکار اتحادیوں اور اپنے ارکان و وزرا کے تحفظات اور گلے شکوے دور کرنے کے بجائے جارحانہ پوزیشن لے چکی ہے۔ اختلاف رائے رکھنے والے وزرا اور ارکان اسمبلی کو ''شٹ اَپ‘‘ کال دی گئی ہے۔ دوسری جانب وزیر اعظم کا حالیہ دورہ لاہور بھی پہلے جیسا ہی رہا۔ اس بار بھی عثمان بزدار کا دفاع کیا اور ان کی تبدیلی کو خارج از امکان قرار دے گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ بزدار کہیں نہیں جا رہے اگر ایسا ہوا تو اگلا وزیر اعلیٰ بھی 20 روز سے زیادہ نہیں نکالے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مجھے ان سازشیوں کا علم ہے جو خود وزیر اعلیٰ بننے کے لیے یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں وزیر اعلیٰ سے اختلافِ رائے رکھنے والے تین وزرا کو برطرفی کا جھٹکا دے دیا گیا ہے۔ ان وزرا کی برطرفی پنجاب کے وزرا اور ارکانِ اسمبلی کے لیے بھی کھلا پیغام ہے کہ عثمان بزدار سے عدم تعاون کی صورت میں انہیں بھی ایسے ہی اقدام کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
فارورڈ بلاک کے غبارے سے ہوا نکالنے کے دعوے ہوں یا وزیر اعظم کے دوٹوک بیانات‘ میری دانست میں ان کی بنیاد پر عثمان بزدار کے جانے یا نہ جانے کا فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ بزدارصاحب کی کارکردگی ہی اس بات کا حتمی فیصلہ کرے گی کہ وہ وزیر اعلیٰ رہیں گے یا نہیں۔ وزیر اعظم روزِ اوّل سے عثمان بزدار کے جو ''فضائل اور خصائل‘‘ بیان کرتے چلے آرہے ہیں وہ تاحال عوام سے پوشیدہ ہیں۔ تاریخ اور صحافت کا طالب علم ہونے کے ناتے میرا مشاہدہ ہے کہ ماضی میں کم و بیش ایسے ہی بیانات نواز شریف غلام حیدر وائیں کے دفاع میں دیا کرتے تھے لیکن وہ اندرونی مزاحمت کو بغاوت میں بدلنے سے نہ روک سکے۔
واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ کس طرح تین روز قبل ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی سے بدتمیزی کے واقعہ پر پوری اسمبلی پولیس کے خلاف سراپا احتجاج بن گئی اور سپیکر چوہدری پرویز الٰہی نے آئی جی کو طلب کرکے واضح کیا کہ مجھے ایوان کی عزت ہر صورت بحال کرنا ہے‘ اگر ڈپٹی سپیکر محفوظ نہیں تو عام آدمی کا کیا حال ہو گا۔ جس عام آدمی کا حوالہ چوہدری پرویز الٰہی نے دیا ہے اسی عام آدمی کا حوالہ غلام حیدر وائیں کی وزارتِ اعلیٰ کے دور میں بھی دیا گیا تھا‘ جب ایک رُکنِ اسمبلی کو ٹریفک سارجنٹ نے روک کر ٹریفک قوانین کا احساس دلایا تھا تو کیا حکومتی‘ کیا اپوزیشن ارکان سارے ہی بینچ ''پَنچ‘‘ بن کر پولیس کو آ لگے تھے‘ جس کے نتیجے میں ایس پی ٹریفک سمیت ناجانے کتنوں کو قانون کی پاسداری کروانے کی قیمت چکانا پڑی تھی۔ پولیس کے خلاف یہ اتحاد اندرونی تحفظات اور مزاحمت کو بغاوت میں بدلنے کا محرک بنا اور غلام حیدر وائیں کو تبدیل کرنے کی خواہش دو ٹوک مطالبہ بن گئی اور معاملہ ''پوائنٹ آف نو ریٹرن‘‘ پر جا پہنچا۔ اندرونی اختلافات اور گلے شکووں کی چنگاریاں بھڑک اُٹھیں اور بات جا پہنچی تحریک عدم اعتماد تک۔ اسی ہنگامے میں سیکرٹری اسمبلی کے ''خصوصی تعاون‘‘ سے اُنہیں اغوا کر لیا گیا لیکن عدم اعتماد کی بلا نہ ٹل سکی۔ بالآخر غلام حیدر وائیں کو بچانے کے سارے حربے بے سود ثابت ہوئے اور نواز شریف بحیثیت وزیر اعظم اپنا وزیر اعلیٰ بچا سکے اور نہ ہی تختِ پنجاب۔ جارحانہ اور دوٹوک گفتگو بظاہر بہت مضبوط اور اصولی معلوم ہوتی ہے لیکن بعض اوقات یہ اصولی اور دوٹوک گفتگو اُس ماں کی خواہش معلوم ہوتی ہے جو اپنے بچے کو چاند سے کم نہیں سمجھتی۔ صرف ماں کے چاند کہنے سے کوئی بچہ چاند نہیں ہو جاتا... ہر ماں کو اپنا بچہ چاند ہی نظر آتا ہے‘ بھلے وہ چاند کی ضد ہی کیوں نہ ہو۔
وزیر اعظم کا یہ دوٹوک اور واضح اعلان اس وقت تک مؤثر نہیں ہو سکتا جب تک وزیر اعلیٰ ان دعووں اور توقعات پر پورا نہیں اُترتے جو وزیر اعظم ڈیڑھ سال سے عوام کو سناتے چلے آرہے ہیں۔ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے لیے نامزد کرتے وقت عثمان بزدار کی قابلیت اور خصوصیات بیان کرنے کے لیے جو استعارے استعمال کیے تھے بخدا اگر ان کا چند فیصد بھی سچ ثابت ہو جاتا تو وزیر اعظم کو اس صورتحال کا ہرگز سامنا نہ کرنا پڑتا۔ نہ وضاحتیں دینا پڑتیں اور نہ ہی وزیر اعلیٰ کے دفاع کے لیے ارکانِ اسمبلی اور وزرا کو ''شٹ اَپ‘‘ کال دینا پڑتی۔ گورننس اور میرٹ کی کہیں کوئی پرچھائیں بھی پڑ جاتی تو وزیر اعظم کو ٹھنڈ ضرور پڑ جاتی کہ ان کا وسیم اکرم پلس ''سپر فٹ‘‘ ہے۔ نام بھلے وسیم اکرم ہو یا جاوید میاں داد، شاہد آفریدی ہو یا کوئی اور ان سب کی وجۂ شہرت ان کی شاندار کارکردگی ہے۔ جب کارکردگی اور پرفارمنس صفر ہو تو بھلے کسی بھی نام سے منسوب کر لو‘ جس سے چاہے تشبیہہ دے لو کیا فرق پڑتا ہے۔ فیصلہ بہرحال پرفارمنس کی بنیاد پر ہی ہو گا۔ یونہی نہیں کہتے چم نہیں کم (کام) پیارا ہوتا ہے۔ موصوف سے وابستہ کی گئیں توقعات ہی پوری نہ ہوں تو کون سا وسیم اکرم اور کہاں کا جاوید میاں داد۔ آج بھی انہیں منصور اختر والی فہرست میں ہی شمار کیا جاتا ہے۔
وزیر اعظم کی تمنائیں اور توقعات عوام کے دکھوں اور مسائل کا ازالہ کیسے کر سکتی ہیں جبکہ حالیہ دورہ لاہور میں نہ تو آٹا گردی کرنے والوں کو طلب کیا گیا‘ نہ ہی شہریوں کو آوارہ کتوں کے حوالے کرنے والوں کا پوچھا گیا۔ مہنگائی اور گرانی کی روک تھام پر مامور ذمہ داران سے باز پرس کی گئی‘ نہ شہر کی صفائی کے نام پر ہاتھ کی صفائی دِکھانے والوں کو تنبیہہ کی گئی‘ نہ ہی تھانہ، پٹوار اور ہسپتال میں دھندہ کرنے والے کو للکارا گیا۔ للکارا تو صرف ان وزرا اور ارکانِ اسمبلی کو جن کو ان کے وسیم اکرم پلس ''مائنس‘‘ کرتے چلے آرہے ہیں۔ اکثر وزرا اور قد آور شخصیات سے عناد اور بغض کی داستانیں تو کوئے سیاست سمیت شہر کے اکثر واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں۔
بات ہو رہی تھی آوارہ کتوں کا شکار شہریوں کی۔ اس حوالے سے عرض کرتا چلوں کہ تادم تحریر آوارہ کتوں کے راج کے نتیجے میں 60 افراد گھائل ہو چکے ہیں۔ شہر بھر میں کتا کتا کروانا منظور ہے لیکن کتوں کے کاٹے کے واقعات کا سدّباب کرنے میں نہ تو کوئی سنجیدہ ہے اور نہ ہی کوئی مخلص۔ کراچی کے بعد اب یہ عذاب میرے شہر لاہور پر نازل ہو چکا ہے۔ بدانتظامی اور نااہلی کا آسیب اب یہاں بھی بتدریج پنجے گاڑتا دِکھائی دیتا ہے۔ گندگی اور غلاظت کے جابجا ڈھیر یہاں بھی نظر آنا شروع ہو چکے ہیں۔ گلیاں، سڑکیں اور اکثر فٹ پاتھ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جبکہ شہری سہولیات کے دیگر محکمے بھی جامِ غفلت کے نشے میں دھت نظر آتے ہیں۔
واپس چلتے ہیں اپنے موضوع کی طرف۔ جس عہد میں عوامی شکایات کے ازالے پر مامور ذمہ داران کی ''کارستانیوں‘‘ کے نتیجے میں وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ میں واقع دفاتر سربمہر کر دئیے جائیں تو باقی سب کچھ کیسے چلتا ہو گا۔ وزیر اعلیٰ شکایت سیل کے خلاف شکایات کے اَنبار کون سنے گا جبکہ صوبہ بھر میں اکثر تقرریاں اور تعیناتیاں تو سیدھا سیدھا ٹینڈر نظر آتی ہیں۔ سابق ادوار سے چمٹی ہوئی اکثر جونکیں پَل کر اس قدر پھل پھول چکی ہیں کہ انصاف سرکار بھی انہیں ہلانے سے قاصر نظر آتی ہے۔ اِن سبھی کو سب ہی بخوبی جانتے ہیں۔
چلتے چلتے وزیر اعظم کے ایک اور اہم اقدام کا ذکر ضروری ہے۔ انہوں نے 2008ء سے 2018ء تک بیرون ممالک دوروں پر خرچ کرنے والے سربراہان سے رقوم کی واپسی کا فیصلہ کیا ہے۔ اُن کا فیصلہ اور جذبہ بجا سہی لیکن کرپشن اور لوٹ مار کی وہ ریکوری کہاں گئی جو انصاف سرکار نے برسرِ اقتدار آنے کے بعد کرنی تھی؟ کہاں گئی ملک و قوم کی وہ دولت جو بیرون ممالک بینکوں میں انڈے بچے دے رہی ہے؟ اس سے پہلے کون سی ریکوری ہوئی؟ اور کون سے خزانے بھرے جا چکے ہیں؟ سو دن کی کارکردگی کے بیانیے سے شروع ہونے والی جوابدہی کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اب وزیر اعظم نے سابق سربراہان سے غیر ملکی دوروں پر ہونے والے اخراجات کی ریکوری کا نیا ٹاسک اپنے ذمہ لے لیا ہے۔ لوٹی ہوئی رقم سے پھوٹی کوڑی واپس نہیں آ سکی ہے۔ ایسے میں بیرونی دوروں پر اٹھنے والے اخراجات کی ریکوری کیسے ہو گی؟ حکیم لقمان نے اپنے بیٹے کو حکمت سے بھری کیا خوب نصیحت فرمائی تھی کہ ''میں جب بھی پچھتایا اپنے بولنے پر بچھتایا‘‘۔ گویا اکثر مواقع پر اگر بولنا چاندی ہے تو خاموشی سونا ہے۔