میں گذشتہ دس دنوں سے اس قوم کے چہروں پر مسرت اور خوشی ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ ایسے لگتا ہے ہر کوئی سکتے میں ہے۔ جیتنے والوں کے چہرے بھی خوشی سے تمتما نہیں رہے۔ ہار نے والوں کا ماتم تو مدتوں سے دیکھتے چلے آرہے ہیں۔ کیسا عجیب عالمِ حیرت ہے کہ تقریباً بیالیس سال بعد قوم جوق در جوق اپنے گھروں سے دیوانہ وار نکلی‘ لیکن رات گہری ہونے تک لگتا تھا مرجھا سی گئی… گُم سُم… لوگوں کی خواہشیں، امنگیں ،آرزوئیں اور ان ایامّ میں دیکھے جانے والے خواب ہی ایسے تھے جنہیں ٹوٹنا ہی تھا۔ یہ خواب صرف اس قوم کو نہیں بلکہ دنیا میں بسنے والے نوے فیصد غریبوں اور مفلوک الحال انسانوں کو جمہوریت کے حسین پردے پر تھرکتی ناچتی خواہشوں کی صورت میں دکھائے جاتے ہیں۔ سب سے پہلا یہ فقرہ سادہ لوح عوام کو سنایا جاتا ہے کہ ’’تمہاری تقدیر تمہارے ہاتھوں میں ہے‘‘۔ بس ایک ووٹ ڈال کر تم اپنی قسمت بدل سکتے ہو۔ یہ ایسا فریب ہے جس کی گذشتہ دو سو سالہ جمہوری دور کے سوا دنیا کے کسی اور طرز حکومت میں مثال نہیں ملتی۔ دنیا کے کسی اور نظام نے عام آدمی کے ساتھ اتنا فریب نہیں کیا جتنا نظام جمہوریت نے کیا ہے۔ اس وقت آبادی کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت ہے، لیکن یہ دنیا کی سب سے بڑی غربت کی آما جگاہ بھی ہے۔ اس ملک میں دنیا کے پہلے دس امیر ترین لوگوں میں سے بھی کچھ رہتے ہیںجو دن بدن امیر ہو رہے ہیں اور ان کے دولت کے انباروں کے سائے تلے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں ایسے لوگ بستے ہیں جن کے پاس گھر نہیں، جو مردہ جانوروں کا گوشت کھانے پر مجبورہیں اور جن کی زندگی گندے نالے کے گٹر میں پلنے والے کیڑوں سے بہتر نہیں۔ یہ کروڑوں لوگ ہر پانچ سال بعد اپنی تقدیر اپنے ہاتھ سے تحریر کرنے کے لیے ووٹ ڈالتے ہیں اور خواہشوں اور خوابوں کے فریب کی چادر تان کر سو جاتے ہیں۔ یہ سب لوگ مطمئن ہوتے ہیں کہ انہوں نے اپنا حاکم خود منتخب کیا ہے۔ جمہوریت کی یہ خود فریبی بھی کسی اور نظام میں موجود نہیں۔ جیسا ملک ویسا فریب، جیسے عوام ویسے ہتھکنڈے، جس طرح کا ماحول اُسی طرح کے نعرے۔ ایک طویل عرصہ تک یورپ میں جہاں اس نظام نے جنم لیا، صرف عزت دار جاگیرداروں کو اسمبلی اور حکومت تک پہنچنے کا حق حاصل تھا۔ اُس زمانے میں کوئی بڑا جاگیر دار اپنی جائداد فروخت کرنے کے لیے اشتہار دیتا تو اُس میں یہ بھی درج ہوتا کہ اس کے ساتھ سینٹ یا پارلیمنٹ کی نشست مفت آپ کو ملے گی۔ اس وقت لوگ روایتی طورپر ان نشستوں کے حامل لوگوں کے ہاتھ میں جکڑے ہوئے تھے۔ 1920ء تک کسی خاتون کو ووٹ دینے کا حق حاصل نہیں تھا۔ یورپ کے مہذب ترین ملک سوئٹزر لینڈ میں عورتوں کو یہ حق 1973ء میں ملا۔ اس وقت تک پاکستانی ایک جمہوری الیکشن کے نتیجے میں اپنا آدھا ملک گنوا چکے تھے۔ ملک کی خواتین نے بڑھ چڑھ کر 1970ء کے الیکشن میں حصہ لیا تھا۔ کتابی اور علمی لحاظ سے گفتگو کی جائے تو ہم جمہوری ترقی اور عوام کی رائے کے احترام کے اعتبار سے1970ء میں سوئٹزر لینڈ سے بہتر تھے۔ ہمارے ہاں نام نہاد جمہوری اصولوںکا احترام ان سے زیادہ تھا لیکن ہم حیثیت میں کمتر تھے۔ اس دکھ بھری کہانی کو کھولنے سے ایسا درد اُبھرتا ہے کہ راتوں کی نیند حرام ہو جاتی ہے۔ کسی ملک میں سوشل سکیورٹی کے لالی پاپ سے ووٹ لیے جاتے ہیں تو کسی میں معاشی حالات بدلنے کے نام پر۔ ہر ملک میں دو قسم کے مخصوص قابض گروہ ہوتے ہیں جنہیں دو سیاسی پارٹیوں کا نام دیا جاتا ہے۔ مغرب میں یہ گروہ دنیا کے بڑے بڑے سرمایہ داروں کے قبضے میں ہوتا ہے جن کے سماجی نظام کو کارپوریٹ کلچر کا نام دیا جاتا ہے۔ جس طرح پتلیوں کا تماشہ دکھانے والا ایک ہوتا ہے لیکن سٹیج پر دو پتلیاں ناچ رہی ہوتی ہیں، کبھی لڑرہی ہوتی ہیں، کسی کو فتح اور کسی کو شکست ہوتی ہے اور تماشائیوں سے بھرا ہال تالیوں سے گونج اٹھتا ہے۔ یہی حال اس پورے جمہوری نظام کا ہے۔ ایک ہی سودی جمہوری مافیا امریکہ، برطانیہ اور فرانس میں دو مختلف پارٹیوں کو الیکشن میں فنڈ مہیا کرتا ہے۔ لوگ سڑکوں پر نکلتے ہیں، نعرے لگاتے ہیں، ا یک دوسرے سے گتھم گتھا ہوتے ہیں،’’اپنی مرضی‘‘ سے اپنی تقدیر کا فیصلہ کرتے ہیں اور پھر ان دونوں پتلیوں میں سے کسی ایک کو حکمران بنا کر گھر لوٹ جاتے ہیں۔ اس جمہوری نظام کا بدترین چہرہ یہ ہے کہ صرف گزشتہ سو سال میں اس کے باعث اقلیتوں کا اس قدر خون بہایا گیا ہے کہ پوری دنیا کی کئی لاکھ سال کی تاریخ میں بھی اتنا خون نہیں بہایا گیا ہوگا۔ جمہوری نظام کے آنے سے پہلے دنیا میں بادشاہ علاقے فتح کرتے تھے‘ لیکن ان کی لڑائی ہتھیار اٹھانے والے افراد یا مزاحمت کرنے والے لوگوں تک محدود ہوتی تھی۔ وہ قتل عام کا حکم بھی دیتے تھے لیکن جب وہ حکومت قائم کر لیتے تھے تو اپنی حکومت کے استحکام کے لیے رعایا کو انصاف فراہم کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ جمہوری نظام کا کمال یہ ہے کہ اگر آپ اکثریت میں ہیں اور عوام کے ووٹ سے برسر اقتدار آ جاتے ہیں تو پھر وہ مخالف اقلیت، جس سے آپ نفرت کرتے ہیں، کی نسل کشی کرنے لگتے ہیں۔ میرے سامنے چھ سو صفحات پر مشتمل ایک ضخیم کتاب ہے جو دنیا کی مختلف یونیورسٹیوں میں کی گئی ہزاروں تحقیقوں کا نچوڑ ہے۔ کیلیفورنیا یونیورسٹی کے پروفیسر مائیکل من(Michal mann) کی اس کتاب کا نام ہے The dark side of democracy: Explaining Ethnic cleansing یعنی جمہوریت کا تاریک چہرہ… نسل کشی کی تفصیل۔ اس میںعوام کی واضح اکثریت سے جیتنے والے ہٹلر سے لے کر دنیا بھر میں جمہوریت کے نام پر ہونے والی نسل کشی کی داستانیں تحریر کی گئی ہیں۔ ان میں کمبوڈیا، یوگو سلاویہ، روانڈا، بھارت، انڈونیشیا اور دیگر ممالک شامل ہیں۔ ان ممالک میں51فیصد اکثریت کا49 فیصد اقلیت پر ظلم ، تشدد اور بربریت انسانی تاریخ کا بدترین باب ہے۔ مصنف نے جمہوری نظام کے قیام کے لیے اور پھر اس نظام کو قائم کرنے کے بہانے جس طرح کروڑوں لوگوں کا خون بہایا گیا، اس کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ اس میں فلپائن سے لے کر ویت نام اور جنوبی امریکہ کے ممالک شامل ہیں۔ کیونکہ یہ کتاب2005ء میں آئی تھی اس لیے اس میں عراق اور افغانستان کے لاکھوں مظلوم انسان شامل نہیں جنہیں جمہوری نظام کے نفاذ کے لیے قربان کیا گیا۔ یہ وہ عالمی جمہوری مافیا ہے جو ہر ملک کے مطابق جمہوری نظام پر اپنی بالادستی کی مہر ثبت کرتا ہے۔ پاکستان کا معاشرہ صدیوں آپس کی گروہ بندیوں میں تقسیم ہے۔ چیمہ ایک طرف تو چٹھہ دوسری طرف، رند حکمران تو رئیسانی محکوم، ارباب ایک پارٹی میں تو خٹک دوسری میں اور بھٹو ایک جانب تو پگاڑا دوسری طرف۔ ان نفرتوں کے خمیر سے پارٹیوں کا وجود جنم لیتا ہے۔ یہ گھرانے اور سربراہان انگریز کے زمانے سے مراعات پر پل پل کر موٹے ہوئے ہیں۔ یہی حال ان صوبائی لکیروں کا ہے جو انگریز نے کھینچی ہیں۔ آپ ملک توڑنے کی بات کر سکتے ہیں لیکن صوبہ توڑنے کی بات کر کے دیکھیں‘ قتل وغارت شروع ہو جائے گی۔ صوبے کی لکیریں کون سا آسمان سے اتری تھیں؟ انگریز ہی نے تو بنائی تھیں! خوفناک بات یہ ہے کہ اس عالمی جمہوری مافیا نے1970ء کے بعد پاکستان میں ایک با پھر ایسا جمہوری مینڈیٹ ترتیب دیا ہے جس سے خوف آتا ہے۔ مجیب الرحمن کی مغربی پاکستان میں ایک نشست نہ تھی اور ذوالفقار علی بھٹو کی مشرقی پاکستان میں۔ آج تینتالیس سال بعد ہر صوبے میں مختلف پارٹی کی حکومت ہے۔ نفرت کا جو بیج ہم نے اس سرزمین پر بویا تھا اسے کاٹنے کے لیے عالمی جمہوری مافیا سرگرم ہو چکا ہے۔ فصل پک چکی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ جمہوریت کا یہ آسیب کس اقلیت کی نسل کشی پہلے کرتا ہے اور کس کی بعد میں۔ سرکارِ دو عالمﷺ کی ایک حدیث بیان کرتا چلوں۔ آپؐ نے فرمایا: ’’جو کوئی عہدے کا طلبگار ہوگا ہم اسے عہدہ نہیں دیں گے‘‘ (مفہوم) پھر فرمایا: ’’اگر اللہ تم کو کوئی عہدہ دے گا تو وہ تمہاری مدد اور نصرت کرے گا اور اگر تم خود کوئی عہدہ طلب کر کے حاصل کرو گے تو اللہ تمہیں اس کے سپرد کر دے گا‘‘۔ (مفہوم) رسول اللہﷺ کی بات نہیں مانتے تو اپنی جمہوریت کے جدّامجد سقراط کی بات ہی مان لو۔ اس نے کہا تھا: عہدے کا طلبگار خائن ہوتا ہے۔ حکمران عہدوں کے سپرد ہو چکے۔ اب حکمرانوں کو عہدوں کے تھپیڑے گرداب میں لے جانے کو تیار ہیں اور عہدہ طلب کرنے والوں کو تو اللہ کی نصرت بھی حاصل نہیں ہوتی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved