''مسجد جہاں نما‘‘ سچ سچ بتائیے کیا آپ کو یہ پڑھنے سے پہلے معلوم تھا کہ دلّی کی جامع مسجد کا اصل نام یہ ہے۔ مجھے تو لگتا ہے دلّی والوں کو بھی یہ نام نیا لگے گا جو روز ''جاما مسجد‘‘ آتے جاتے ہیں۔ جہاں نما کو شاہ جہاں آباد کے نام سے ایک مناسبت بھی تھی۔ میری یادوں کی البم میں مسجد کی بہت سی تصویریں صف بہ صف موجود ہیں۔ کئی بار اور مختلف موسموں میں یہاں جانا ہوا۔ کئی بار سجدہ ریزی کی۔ رمضان کے ایک دو روزے اور ان کی رونق بھی دیکھی۔ روایت کے مطابق افطار کے وقت توپ سر ہونے کا منظر بھی دیکھا۔ بازاروں میں لوگوں کو کہتے سنا کہ گولہ چھوٹ گیا‘ بھائی افطار کر لو۔ وسیع صحن میں افطاری کا اہتمام بھی دیکھا۔ اس کے رنگ، اس کی گہماگہمی دیدنی اور چشیدنی ہے۔ سچ یہ ہے کہ پڑھ لینے یا سن لینے میں وہ ہمہ جہت ذائقہ کہاں حاصل ہو سکتا ہے۔
اور سچ یہ بھی ہے کہ لاہور کی بادشاہی مسجد دلّی کی جامع مسجد کا آخری روپ ہے۔ وسعت، شکوہ، تراش خراش، خوبصورتی، سادگی اور پرکاری میں جامع مسجد بادشاہی مسجد سے کہیں پیچھے ہے۔ اورنگ زیب عالمگیر کو مجسم دیکھنا ہو تو بادشاہی مسجد دیکھنی چاہیے اور پھر اس کے مقابل عالمگیری دروازہ۔ ایسا وقار اور ایسی عظمت۔ شاید ہی کوئی دوسری مثال مل سکے۔
لیکن دلی کی جامع مسجد ان صفات میں بادشاہی مسجد سے کم سہی دیگر صفات میں بڑھی ہوئی ہے۔ ایک تو یہ کہ چاروں طرف سے پرانی دلّی میں گھری ہوئی ہے؛ چنانچہ ہر وقت مسجد پُررونق دکھائی دے گی۔ جامع مسجد اور بادشاہی مسجد کے نام ہی ان کا فرق بتا دیتے ہیں۔ بادشاہی مسجد بادشاہوں اور خواص کے لیے معلوم ہوتی ہے۔ داخلے کا صرف ایک بڑا دروازہ ہے جو قلعے کے سامنے کھلتا ہے۔ عام آدمی کا گزر کم کم ہے جبکہ جامع مسجد دلّی میں عوام کا براہ راست رابطہ ان درودیوار سے بہت زیادہ ہے۔ تین اطراف سے یہاں آیا جا سکتا ہے۔ دلّی کے ایک عام آدمی کی رسائی ہر وقت اس کے سایۂ دیوار تک ہے‘ اور لوگ بے تکلف شہر سے اس کی آغوش میں اور واپس اپنے گھروں کو آتے جاتے رہتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ دلی کی جامع مسجد جس طرح دلّی کی تہذیب کا ایک جزو ہے شاید کسی اور معروف مسجد کو یہ رتبہ حاصل نہیں ہو سکا۔
شاہجہاں آباد بسایا گیا تو لال قلعہ سے کچھ فاصلے پر مسجد جہاں نما اس طرح بنائی گئی کہ وہ قلعے اور شہر دونوں کے مکینوں کی رسائی میں ہو۔ 1650ء سے 1656ء تک اس کی تعمیر ہوئی۔ عہد شاہ جہانی کے دس لاکھ روپے لگے۔ 5000 سے زائد مزدوروں اور کاریگروں نے 6 سال تک اس پر کام کیا۔ تین بڑے دروازے بنائے گئے۔ جنوبی دروازہ جو اب گیٹ نمبر1 کہلاتا ہے، مٹیا محل کے سامنے ہے۔ شمالی دروازہ بھی آباد محلّوں کے سامنے ہے۔ مشرقی دروازہ بادشاہ کی آمدورفت کے لیے تھا اور اب اکثر بند رہتا ہے۔ مسجد کے 40 میٹر بلند دو مینار کھڑے کیے گئے۔ مسجد بنیادی طور پر سنگِ سرخ سے بنی اور اس کے ساتھ سنگ مرمر کا ملاپ کیا گیا۔ پتلے سبک میناروں پر سنگ مرمر کی عمودی دھاریاں ہیں اور عمارت پر آرائشی بیلیں پھول اور حاشیے بھی اسی براق پتھر کے ہیں۔ تین بڑے پیازی گنبد عمارت کے اوپر موجود ہیں جن میں درمیان کا گنبد قدرے بڑا رکھا گیا ہے۔ مسجد کے وسیع صحن میں پچیس ہزار افراد سمانے کی جگہ موجود ہے۔ شاہجہاں کی دعوت پر امام سید عبدالغفور شاہ بخاری بخارا سے تشریف لائے اور مسجد کا افتتاح کیا۔ پھر اسی خاندان کے افراد یکے بعد دیگرے نسل در نسل شاہی امام مقرر ہوتے رہے۔
مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھے میں نے دلّی کا قتل عام چشم تصور سے دیکھا اور کسی کا وہ فقرہ یاد کیا کہ ''شہر کی ساری سرخیاں بڑھ کر جامع مسجد کی سیڑھیوں تک آگئیں‘‘ سرخ سلیں مزید سرخ ہو گئیں۔ جنہوں نے گھروں میں خود کو محفوظ نہ سمجھا وہ جامع مسجد میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے لیکن پناہ کہیں بھی نہیں تھی۔ مسجد کے میناروں نے ہر کچھ عرصے بعد یہی منظر دیکھے۔ ایک منظر 1857 کی جنگ آزادی کا تھا۔ میں نے چشمِ تصور سے 1857 کے بعد کے منتقم گوروں کو دیکھا جو اسے مسمار کرنے کے درپے تھے‘ لیکن بالآخر جنہوں نے مسجد کو سپاہیوں کی رہائش گاہ بنا دیا تھا۔ سب کچھ ہوا لیکن مسجد کی محبت دلی والوں سے جدا نہ ہو سکی۔ الگ ہونے سے محبتیں الگ کہاں ہوتی ہیں۔
مسجد کی سیڑھیوں کی بلندی سے کس کس نے یہ عروج و زوال دیکھا ہوگا۔ شاہجہاں سے لے کر بہادر شاہ ظفر تک 201 سال کون کون سا بادشاہ انہیں سیڑھیوں سے گزرا ہوگا۔ یہ دو صدیاں کیسی آہستہ روی سے گزری ہوں گی لیکن ہمیں اب ایسا لگتا ہے کہ دو منٹ میں گزر گئیں۔ اے مسجدِ جہاں نما! تونے کیسے کیسے انقلاب دیکھے۔
لیکن جہاں نما پر ختم نہیں ایک نام اور بھی ہے جو اسی طرح دوسرے لوگوں کو کیا، دلّی والوں کو بھی معلوم نہیں۔ کوئی بتاتا ہے تو حیران ہوتے ہیں ''قلعۂ مبارک‘‘۔ یہ نام وہ تھا جو دلی کے لال قلعے کا رکھا گیا تھا اور اسی نام سے اس کا ذکر کیا جاتا تھا۔ شہر بساتے وقت سب سے پہلے قلعہ تعمیر کیا گیا۔ شاہجہاں کو دو رنگ بہت پسند تھے‘ سرخ اور سفید؛ چنانچہ قلعہ سنگ سرخ اور شاید چونے کے سنگ سفید سے بنایا گیا۔ ایک اور حیران کن انکشاف کے لیے تیار ہوجائیں۔ قلعے کا غالب رنگ ہمیشہ سے لال نہیں تھا۔ انگریزوں کے دور میں سفید پتھر جھڑنے لگا تو انہیں اس پر لال رنگ کرانا پڑا۔ یہیں سے اس کا نام لال قلعہ پڑا اور آج تک چلا آتا ہے۔
مغل قلعوں میں آگرہ کا قلعہ سب سے کمال ہے۔ اس کے بعد لال قلعے کا نمبر ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ کہ آگرہ نے مغل عروج کے بے پناہ واقعات کا مشاہدہ کیا۔ کوئی تصور کرسکتا ہے اکبر اعظم اور جہانگیر کے جاہ و جلال کا۔ ایک نادر وجہ یہ کہ جمنا ابھی تک قلعے کی فصیل کو چھو کر گزرتی ہے۔ علاقے میں تعمیر کی ممانعت ہے اس لیے سامنے کا منظر اسی طرح ہے جیسا صدیوں پہلے تھا جبکہ قلعۂ دہلی ہو یا قلعۂ لاہور‘ دریا اپنے پرانے ساتھیوں سے منہ موڑ کر دور چلے گئے۔ اب وہ گم گشتہ منظر کہاں سے بازیاب کریں۔ قلعہ لاہور سے کچھ فاصلے پر راوی کی یادگار بڈھا راوی نامی نالہ یا تالاب رہ گیا تھا۔ گریٹر اقبال پارک نے اسے بھی مرحوم کر دیا۔ اب راوی اور قلعے میں اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا لال قلعے اور جمنا میں۔
کئی بار خیال آیا کہ شاہجہاں نے دارالحکومت آگرہ سے دہلی منتقل کرنے کا فیصلہ کیوں کیا تھا؟ 1638ء میں آگرہ پانچ شہنشاہوں کا اقتدار دیکھ چکا تھا۔ جما جمایا شہر تھا۔ تاج محل بھی وہیں تھا جو شاہجہاں کی محبت تھی۔ پھر کیا وجہ ہوئی؟ شاید دفاعی وجوہ بھی ہوں لیکن ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ شاہجہاں کی سلطنت اپنے زمانے میں دنیا کی سب سے بڑی سلطنت تھی اور آگرہ کی آبادی بہت بڑھ چکی تھی۔ سڑکیں بہت تنگ تھیں۔ تقاریب، کاروبار مملکت اور لشکروں کی نقل و حرکت کے لیے جتنی جگہ درکار تھی وہ وہاں میسر نہیں آتی تھی۔ تعمیر پسند شاہجہاں کو نیا اور وسیع شہر بسانے کا خیال آیا تو پہلے لاہور منتخب کیا گیا لیکن بعد ازاں دہلی کے حق میں فیصلہ ہوا۔ آگرہ کی نسبت دہلی جمنا کے کنارے اور اوپر شمال کی طرف ہونے کی وجہ سے بہتر موسم بھی رکھتا تھا۔ یہ وجہ بھی رہی ہوگی۔ دہلی سکندر لودھی تک مسلم حکومتوں کا دارالخلافہ ہونے کی تاریخ بھی رکھتا تھا؛ چنانچہ 1638ء میں شاہجہاں آباد دہلی میں بسانے کا فیصلہ کیا گیا۔
استاد احمد لاہوری! میں آپ کے دور میں ہوتا تو آپ کی قدم بوسی کرتا اور ہاتھ چومتا۔ ایک تو لاہوری ہونے کی نسبت مجھے آپ کی طرف کھینچتی ہے حالانکہ تھے آپ بدخشاںکے۔ کیا ذہن تھا آپ کا اور کیسا دستِ ہنر۔ تاج محل بنایا تو مقبرہ نہیں عجوبہ بنادیا (ہشت پہلو آنسو کے نام سے میں تاج محل پر ایک تحریر پہلے لکھ چکا ہوں) پھر قلعہ مبارک کا خاکہ بنایا تو وہ بھی بے مثال۔ شاید جامع مسجد بھی آپ کی تخلیق ہے۔ پتہ نہیں کون انصاف پسند دانشور تھے جنہوں نے یہ باتیں مشہور کیں کہ شاہجہاں سمیت مغل بادشاہ اپنے معماروں کے ہاتھ قلم کروادیا کرتے تھے۔ نہ کسی درباری مؤرخ نے لکھا نہ کسی غیر ملکی مؤرخ نے۔ کیا کیا داستانیں مشہور کردی گئیں مغلوں کے نام پر۔ انارکلی کوزندہ چنوا دینے کی کہانی ہو یا شاہجہاں کے بیس ہزار مزدوروں کے ہاتھ قلم کردینے کی روایت معلوم نہیں لوگوں کو کیا تسکین ملی اکبر اور شاہجہاں کو ایسا ظالم ثابت کرکے۔ کہانی کارو! اصل ظالم تو تم خود تھے۔