حکومت نا اہل لوگوں کے ہاتھ میں، لوگ
بددعائیں دینے پر مجبور ہیں: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''حکومت نا اہل لوگوں کے ہاتھ میں‘ لوگ بددعائیں دینے پر مجبور ہیں‘‘ بلکہ ہم نے بھی یہ سلسلہ شروع کر دیا ہے کیونکہ مارچ اور دھرنوں سے تو حکومت پر کوئی اثر نہیں ہو رہا‘ امید ہے کہ یہ ہماری بددعائوں کی تاب نہیں لا سکے گی‘ جبکہ ہماری زبان سے نکلی ہوئی بددعا گولی کی طرح جا کے لگتی ہے؛ چنانچہ حکومت اگر چاہے تو اپنے دشمنوں کے لیے ہم سے بددعائیں منگوا کر ان کا قلع قمع کر سکتی ہے‘ آزمائش شرط ہے اور ہمارے بددعا گوئوں کو حکومت مستقل طور پر بھی تعینات کر سکتی ہے‘ کیونکہ اسے اپوزیشن کا دماغ درست کرنے کے لیے بھی ان کی ضرورت پڑتی رہے گی۔ آپ اگلے روز ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
حکومت کو حوریں‘ عوام کو دن میں تارے نظر آ رہے ہیں: سراج الحق
جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''حکومت کو حُوریں‘ عوام کو دن میں تارے نظر آ رہے ہیں‘‘ اگرچہ یہ بات اگلے روز چوہدری احسن اقبال نے کہی تھی‘ لیکن ہم اپوزیشن کے لوگ ایک دوسرے سے استفادہ کرتے رہتے ہیں اور بات لفظ بہ لفظ نقل کرنے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ سرقہ کی ذیل میں آتا ہے؛ چنانچہ چاہیے تو یہ تھا کہ میں تاروں کی بجائے سیّاروں کا لفظ استعمال کرتا کیونکہ چاند اور سورج بھی تو سیّارے ہی ہیں اس لیے چوہدری احسن اقبال سے معذرت کے ساتھ اپنے بیان میں ترمیم کر رہا ہوں اور کوشش کروں گا کہ آئندہ بھی ایسے موقعوں پر تاروں کی بجائے سیّاروں ہی کا لفظ استعمال کروں جبکہ اگر ذرا زیادہ غور سے دیکھا جائے تو چاند سورج کے علاوہ بھی سیّارے نظر آ سکتے ہیں آپ اگلے روز منصورہ میں ایک اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
وزیر اعظم اعتراف کریں وہ بغیر کسی ویژن
پروگرام کے حکومت میں آئے: مولا بخش چانڈیو
پیپلز پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات مولا بخش چانڈیو نے کہا ہے کہ ''عمران خان اعتراف کریں وہ بغیر کسی ویژن‘ پروگرام کے حکومت میں آئے‘‘ جبکہ ہم باقاعدہ ویژن اور پروگرام کے ساتھ حکومت میں آتے رہے ہیں جو ایک ہی تھا اور ساری دنیا جس سے واقف بھی ہے ‘بلکہ اب تو نیب بھی کافی واقف ہو گئی ہے جبکہ سندھ میں صوبائی حکومت بھی اسی ویژن اور پروگرام کے تحت چل رہی ہے اور اس کایا پلٹ پر حیران بھی ہو رہی ہے کیونکہ یہ وہی ہے جو ہمیشہ چشم پوشی سے کام لیا کرتی تھی جبکہ اب چشم پوشی سے کام لے رہی ہے بلکہ طوطے بھی اتنی آنکھیں نہیں پھیرتے ہوں گے جتنی اس نے پھیر رکھی ہیں اور یہ صاف طوطوں کی صحبت کا اثر ہے اور لگتا ہے کہ طوطوں کے ساتھ بھی اس نے ایک زمانہ گزارا ہوا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
خبرنامہ مجلسِ ترقیٔ ادب
ایک خبرنامۂ شب خون بھی ہوا کرتا تھا جو محض خبرنامہ ہی نہیں بلکہ پورا ایک رسالہ ہوا کرتا تھا‘ تاہم ہمارے دوست اور کرم فرما ڈاکٹر تحسین فراقی کا یہ خبرنامہ بھی اس سے کچھ زیادہ کم نہیں ہے‘ جبکہ ایک تو اس میں مجلس کی طرف سے کچھ عرصہ پہلے منعقد کرائے گئے ایک نعتیہ مشاعرے کی روداد بھی شائع کی گئی ہے جس میں صاحبِ صدارت جناب ایوب خاور کے علاوہ حضرات امجد اسلام امجد‘ اسلم کمال‘ اسلام عظمی‘ زاہد منیر‘ ناصر بشیر‘ باقی احمد پوری اور محترمہ یاسمین حمید نے شرکت کی۔جبکہ راولا کوٹ میں منعقدہ ایک تقریب کا احوال موجود ہے اور دوحہ (قطر) میں عالمی فروغِ اردو ادب ایوارڈ 2019ء کی روداد بھی ہے جو مجلس کے سربراہ ڈاکٹر تحسین فراقی کو ایک زیرک نقاد‘ اقبال شناس‘ کلاسیکی ادب اور معاصر ادبی رجحانات پر گہری نظر رکھنے والے دانشور کے طور پر دیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب کا اس موقعہ پر خطاب بھی درج ہے۔ علاوہ ازیں کتب پر تبصرہ بھی شامل ہے جن میں گنجینۂ معنی کا طلسم‘ مجموعہ نثرِ غالب‘ سلاطین دہلی کے مذہبی رجحانات‘ مقالات علامہ عبدالعزیز میمن‘ تاریخِ لاہور از کنہیا لال ہندی اور فلسفۂ جدید از خواجہ آشکار حسین شامل ہیں۔ ان کے علاوہ ''بجھتے چلے جاتے ہیں چراغ‘‘ کے زیر عنوان اعجاز رحمانی اور محمد حامد سراج مرحومین کا تذکرہ ہے۔ مشاعرہ میں شامل ہونے والے شعراء کی تصویر بھی شامل کی گئی ہے۔
اور‘ اب آخر میں اس ہفتے کی تازہ غزل:
جینا محال تھا نہ ہی مرنا محال تھا
جھوٹی بلندیوں سے اترنا محال تھا
چلنا محال تھا نہ ٹھہرنا محال تھا
بس تیرے راستے سے گزرنا محال تھا
راز و نیاز کر رہے تھے دل کے ساتھ ہم
پکڑے گئے تھے صاف‘ مُکرنا محال تھا
دریا میں اپنا ڈوب کے مرنا نہ تھا محال
وہ سطح پر ہمارا اُبھرنا محال تھا
پہنچے جو اس کے شہر تو ایسے لگا ہمیں
اس خاک پر تو پائوں بھی دھرنا محال تھا
تیری ہوائوں کی یہ کرامات ہو تو ہو
موسم کا اس طرح سے نکھرنا محال تھا
دم سادھ کر جو پتلی گلی سے نکل گئے
جیسے بھی ہو گیا یہ وگر نہ محال تھا
بدلی ہوئی تھی کام کی نوعیّت اس قدر
کرنا نہ تھا محال ‘ نہ کرنا محال تھا
لینے کے دینے پڑ گئے تھے واقعی‘ ظفرؔ
کرنا تو کافی سہل تھا بھرنا محال تھا
آج کامطلع:
مل کے بیٹھے نہیں، خوابوں میں شراکت نہیں کی
اور کیا رشتہ ہو تجھ سے جو محبت نہیں کی