بات معمولی نہیں بلکہ چونکا دینے والی ہے کہ روس عنقریب پاکستان میں 9 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے جا رہا ہے تو دوسری جانب چین‘ سعودی عرب‘ ترکی اور ملائیشیاکے بھر پور سرمایہ کاری کے اعلان وہ ٹرننگ پوائنٹس ہیں جن سے پاکستان میں روشنی کی کرنیں دکھائی دے رہی ہیں۔ ایک عرصے بعد وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے وزیر اعظم کی ہدایت پر کینیا کا دورہ کیا ہے‘ کیونکہ اب وقت آ یاگیا ہے کہ ہم آگے نکل کر اپنے لیے نئے دوست تلاش کریں ۔ انسانوں کی طرح ریاستوں کو بھی اپنے لیے دوستوں اور ہمدردوں کی تلاش رہتی ہے اور ایک طویل عرصے کے بعد پاکستان روس کے بعد اب افریقہ کو اپنے قریب لانے کی کوششیں کر رہا ہے۔ امریکہ اپنا اعتبار اور اعتماد کھو چکا ہے اورجب چین کی دشمنی میں بھارت امریکی کیمپ میں جا بیٹھا تو پاکستان کیلئے لازم ہو گیا تھا کہ وہ اپنے لیے نئے دوست تلاش کرے اور روس چونکہ ایک اُبھرتی ہوئی عالمی قوت کے طور پر ایک مرتبہ پھر سامنے آ رہا ہے اس لیے خطے میں اس کا وجود اور قربت پاکستانی مسائل میں کمی لا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی حال ہی میں روس کا ایک64 رکنی وفد پاکستان کا ایک تفصیلی دورہ کر چکا ہے‘ جس میں انہوں نے پاکستان سٹیل ملز‘ توانائی اور ایوی ایشن انڈسٹری میں سرمایہ کاری اور سہولتیں دینے کی خواہش کا اظہار کیا۔بے شک پاکستان میں روسی سرمایہ کاری سے سی پیک کو فائدہ پہنچے گا ۔ بھارت کی تو ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ پاکستان کیلئے کسی جانب سے حمایت کی آواز نہ اٹھے اور اس میں وہ اپنے دوستوں کی وجہ سے ایک عرصے تک کامیاب بھی رہا‘لیکن اب اسے عمران خان جیسی پاکستانی قیادت کا سامنا ہے جو آئے دن اس کے دانت کھٹے کرتی رہتی ہے۔
روس سے طویل سرد جنگ کے خاتمے اور افغان جہاد کی گرد کو بیٹھنے کے بعدآج پاکستان اور روس کی قربت دنیا بھر کیلئے حیرت کا باعث بن رہی ہے۔ روس نے تو اس قدر بڑھ کر اپنے پرانے اور سخت حریف بھارت کے مقابلے میں پاکستان کا ساتھ دیا کہ دنیا بھر کے سفارتی اور دفاعی حلقے ششدر رہ گئے۔افغانستان کے معاملے پردسمبر 2016 میں امرتسر میں ہونے والی ''ہارٹ آف ایشیا کانفرنس‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے روسی نمائندے نے پاکستان پر بھارت اور افغانستان کی الزام تراشیوں پر سخت ناپسندیدگی کا ا ظہار کرتے ہوئے یہ کہا کہ اس قسم کی کانفرنسوں کو ایک دوسرے کے خلاف پوائنٹ سکورنگ کی بجائے مثبت مقاصد کیلئے استعمال کیا جائے تو اس کے بہتر نتائج نکلیں گے۔ یہ الفاظ گرم سیسے کی طرح نریندر مودی اور اشرف غنی کے کانوں میں اُترے۔ ان کیلئے یہ الفاظ حیران کن تھے کہ کیا یہ وہی روس ہے جو 70 برسوں سے سلامتی کونسل میں کشمیر پر ویٹوکا حق استعمال کرتے ہوئے بھارت کا ساتھ دیتا چلا آ رہا تھا ۔بھارتی حکومت نے جب روس کے ان الفاظ پر احتجاج کرنے کی کوشش کی تو روسی نمائندے نے اس کے اعتراض کو رد کرتے ہوئے کہا کہ بھارت اور امریکہ کی بڑھتی ہوئی دوستی کے علاوہ قریبی نیوکلیئر اور دفاعی تعلقات پر روس نے اگر بھارت سے کسی قسم کا اعتراض نہیں کیا تو پھر بھارت کو بھی روس اور پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات بڑھانے پر کسی قسم کا کوئی اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں رہتا۔ یہ روس کی اس تبدیل ہوتی خارجہ پالیسی کا اظہار تھا جسے اس نے دنیا کے ایک بڑے فورم پر کر دیا۔
اس کانفرنس میں بھارت اور افغانستان کی جانب سے پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات کو روس نے سخت ناپسند کرتے ہوئے بھارت کو مشورہ دیا کہ اس قسم کی حرکات سے وہ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے ایجنڈے کو سبو تاژ کر رہا ہے‘ جس سے کانفرنس کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے اور بھارت کی باتوں سے لگتا ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ دوسرے ملکوں کی افغانستان کے مسئلے سے دلچسپی ختم ہو جائے اور اکیلا بھارت ہی افغانستان کے سیا ہ سفید کا مالک بن کر وہاں من مانی کرتا رہے۔ روسی نمائندے نے یہ کہتے ہوئے سب کو چونکا دیا کہ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے اصل مقاصد سے ہٹتے ہوئے اس کانفرنس کا ایجنڈا ہائی جیک کیا جا رہا ہے۔امرتسر میں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کیلئے پاکستان ‘بھارت‘ افغانستان کے علا وہ ترکی‘ سعودی عرب‘ عرب امارات‘ آذر بائیجان اور ایران کے نمائندگان شریک تھے ۔ افغان صدر اشرف غنی اور نریندر مودی نے اس کانفرنس میں اپنے زہریلے تیروں کا رخ پاکستان کی جانب موڑے رکھا‘ جس سے دوسرے شرکا میں کچھ بد مزگی بھی پیدا ہوئی اور بہت سے اراکین نے محسوس کیا کہ افغانستان اور بھارت نے پاکستان کے خلاف ایک مشترکہ کارٹل تشکیل دے رکھاہے جس پر روس کے نمائندے نے آگے بڑھتے ہوئے ان دونوں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے پاکستان کا بھر پور طریقے سے دفاع کیا ۔ 2016ء سے سامنے آنے والی روس کی اس حمایت کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر پاکستان کی خارجہ پالیسی کو تشکیل دیا جائے اور دانشمندی سے کام لیتے ہوئے امریکی دبائو کے سامنے سر جھکانے کی بجائے اپنی خود مختاری کو مقدم رکھا جائے تو روس اور پاکستان کے باہمی تعلقات انتہائی قریبی اور دوستانہ ہو سکتے ہیں۔
عالمی رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کے لیے اور پاکستان کے خلاف بھارت کی مدد کیلئے امریکی تھنک ٹینکس کی جانب سے مختلف اخبارات میں مضامین چھپوائے گئے‘ اس سلسلے میں کرسٹائن فیئر کے لکھے گئے ایک مضمون کو سامنے رکھیں جس میں زور دیا گیا تھاکہ امریکہ پاکستان کے خلاف بھارت کا ساتھ دے اور بھارت کی مدد کے لیے پاکستان پر دباؤ بڑھائے۔ ـاس میں وائٹ ہائوس اور پینٹاگان کو مشورہ دیا گیا تھا کہ امریکی انتظامیہ کے وہ تمام خدشات مکمل طور پر ختم ہو چکے ہیں کہ امریکہ نے اگر جدید قسم کی سول یا فوجی ٹیکنالوجی بھارت کے حوالے کی تو وہ یہ ٹیکنالوجی روس کے نوٹس میں لاتے ہوئے انہیں اس سے استفادہ کرانے کی کوشش کرے گا۔امریکی صدر رونالڈ ریگن سے اندرا گاندھی اور پھر راجیو گاندھی نے بار بار درخواستیں کیں‘ لیکن ریگن انتظامیہ فوری طور پر یقین کرنے پر تیار نہ ہوئی۔سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد بھارت نے پھر کوششیں کیں‘ لیکن امریکہ پس وپیش سے کام لیتا رہا‘ لیکن جیسے ہی جنرل مشرف نے2006ء میں گوادر پورٹ کیلئے چین سے معاہدہ کیا تو وائٹ ہائوس میںAshley Tellis اورامریکہ کے بھارت میں سفارتکار رابرٹ بلیک ویل کی کوششوں سے صدر بش بھارت کیلئے سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کی فراہمی پر رضا مند ہو گئے۔ جنرل مشرف نے گوادر پورٹ پر جب کام کا آغاز کیا تو بھارت کے نیول چیف بے ساختہ پکار اٹھے کہ اس سے انڈین نیوی اپاہج ہو جائے گی کیونکہ لازمی طور پر ایک وقت آئے گا کہ اس پورٹ کو تعمیر کرنے والا چین باقاعدہ حصہ دار بن کر سامنے کھڑا ہو گا اور اب جیسے جیسے سی پیک اپنی تکمیل کے مراحل طے کر رہا ہے‘ بھارت کے ساتھ امریکہ بھی خطرے کی گھنٹیاں محسوس کرنے لگا ہے۔ سی پیک کے مخالفین کو خدشہ ہے کہ سی پیک سے پاکستان کی معیشت اسی طرح برق رفتاراضافہ ہو سکتا ہے جس طرح ایتھوپیا کی حیران کن ترقی ہوئی‘جو کل تک بھوک‘ افلاس اور قحط کا شکار تھا مگر 2015 ء کے بعد اس کی جی ڈی پی گروتھ آٹھ سے دس فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھ رہی ہے‘ جس سے یہ دنیا کی دوسری تیز ترین ترقی کرنے والی معیشت بن چکی ہے اور اس کا سہرا چین کے سر جاتاہے جو وہاں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے ۔روس اور پاکستان کی دوستی بھی اس خطے کی جیو پالیٹکس میں زیادہ مؤثر کردار ادا کرنے کی جانب بڑھ رہی ہے۔