جب آپ لال قلعہ، جامع مسجد، تاج محل، قلعہ آگرہ اور دیگر مغل یادگاروں کو دیکھنے نکلیں تو پیشہ ور گائیڈز سے جنگ اور پھر اس میں شکست فاش کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو جائیں۔ وہاں پہنچتے ہی وہ گائیڈ گھیر لیتے ہیں جو آپ کو اپنی ماہرانہ رہنمائی میں پوری یادگار کا معائنہ کروانا چاہتے ہیں۔ ان کی پوٹلی میں محیرالعقول واقعات اور ناقابل یقین حکایات ہی نہیں ہوتیں‘ موقع بے موقع لطیفے اور چٹکلے بھی ہوتے ہیں۔ اس داستان میں دو چار بہت سخت مقام آتے ہیں جن میں ایک اس وقت ہوتا ہے جب وہ غلط اردو مزید غلط تلفظ کے ساتھ بول کر آپ کی طرف داد طلب نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ محبت کی داستانیں اورنگزیب کی بے رحمی ان کے خاص موضوعات ہیں۔ مجھے گائیڈ کی ضرورت کبھی نہیں رہی‘ پھر بھی ان سے جان چھڑانے میں آپ کا بہت وقت لگتا ہے۔ لاہورکا مسافر لال قلعے کے لاہوری دروازے کے باہر پہنچا تو اس کے شکوہ نے دل مٹھی میں لے لیا۔ دل نے سوچا کہ صرف یہ دروازہ اور مسافر ہی لاہوری نہیں ہے۔ فقط لال قلعے اور تاج محل کا معمار استاد احمد لاہوری ہی لاہور سے نسبت نہیں رکھتا تھا‘ خود شاہجہاں بھی لاہوری تھا۔ 5جنوری 1592 کو قلعہ لاہور میں اس کی پیدائش ہوئی تھی۔
میں نے گائیڈز کی ٹولیوں سے کسی طرح جان چھڑائی۔ برسوں پہلے پڑھی ہوئی کتاب شاہجہاں نامہ کے اوراق دل میں کھولے۔ عنایت خان کو یاد کیا۔ یہی وہ قلعہ اور یہی درودیوار ہیں جنہوں نے شاہجہاں سے لے کر بہادر شاہ ظفر تک کے حکمرانوں کے جاہ و جلال دیکھے ہیں، شاہانہ فیاضی اور مظلوموں کی چیخیں محفوظ کی ہیں، مرہٹوں اور انگریزوں کی لوٹ مار دیکھی ہے۔ لاہوری دروازے سے آگے بڑھا۔ اب مینا بازار میرے سامنے تھا۔ شاہی بیگمات، شہزادیاں عام بازاروں میں نہیں جاسکتی تھیں، نہ خریدوفروخت کرسکتی تھیں تو یہ بازار ان کے لیے بنایا گیا۔ یہاں شاہی خاندان کی خواتین دکاندار کے روپ میں موجود ہوتی تھیں۔ جہاں شہزادے اور بادشاہ ہی آسکتے تھے۔ یہی وہ مینا بازار ہے جہاں بہت سی رومانوی داستانیں جنم لیتی ہوں گی۔ اس مسقف بازار میں دو رویہ دکانیں اب بھی ہیں اور سیاحوں کی جیب سے پیسے نکلوانے کا کام کرتی ہیں۔ ایک پل کو وہ بھی خود کو بادشاہ محسوس کرسکتے ہیں۔
''یہاں اس جگہ ملکہ نورزہاں کا بادشہ زہاں گیر عاشک ہوگیا تھا‘ کبوتر ہاتھ سے اڑنے پر‘‘۔ میں نے پلٹ کر دیکھا۔ ایک پیشہ ور گائیڈ سیاحوں کی ایک ٹولی کو اس مینا بازار کے دلچسپ واقعات بتا رہا تھا ''کیا کہہ رہے ہو بھیا‘ جب یہ قلعہ شاہجہاں نے بنایا اس سے بہت پہلے جہانگیر کا انتقال ہوچکا تھا۔ یہ واقعہ اس مینابازار کا کب ہے‘‘ میں نے بے ساختہ گائیڈ سے کہا۔ سچ یہ ہے کہ میرا دخل درمعقولات بنتا نہیں تھا۔ گائیڈ کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ میں نے اس کے علم پر نہیں اس کے پیٹ پر بھی لات ماردی تھی‘ لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا اس ٹولی میں ایک مرد اور ایک لڑکی قہقہہ مار کر ہنسے۔ انہیں گائیڈ کا بدلتا رنگ بہت پسند آیا تھا اور شاید وہ خود بھی اس سے تنگ تھے۔ اس سے پہلے کہ گائیڈ مجھے کوئی جواب دے، میں جلدی سے آگے بڑھ گیا کہ اسی میں خیر تھی۔
مینا بازار کے اختتام پر چوک تھا جسے چھتہ چوک کہتے ہیں۔ یہاں نوبت خانہ یا نقارخانہ کی عمارت بھی ہے جہاں سے نقارچی بادشاہ کی آمدورفت کا اعلان کیا کرتے تھے۔ وہ دور تو فارسی کا تھا لیکن ہم نے اردو کہانیوں میں یہ منظر اس طرح دیکھا ہے: باادب! باملاحظہ! جہاں پناہ تشریف لاتے ہیں۔ کون سے جہاں پناہ بھئی۔ اورنگزیب کے بعد اکثر بادشاہ انگریزوں کی پناہ مانگتے پھرتے تھے۔ اور انگریز پر ہی کیا موقوف‘ طاقتور سرداروں اور بادشاہ گر بھائیوں کی امان بھی۔ میرے کانوں نے اسی نوبت خانے میں قتل ہونے والے فرخ سیئر اور جہاندار شاہ کی چیخیں سنیں۔ یہیں اسی عمارت میں ان کے ماتحتوں نے انہیں قتل کیا تھا۔ سوچتا ہوں توسنگ سرخ کی سرخی کچھ اور بڑھ جاتی ہے۔
12مئی 1639 کو سنگ بنیاد رکھا گیا اور 8سال 10ماہ اور 25 دن بعد6 اپریل 1848کو تکمیل ہوئی۔ پرانا قلعہ سلیم گڑھ نئے قلعے کے اندر سما گیا۔ اپنے اپنے ادوار میں بادشاہ اس میں تعمیرات کرتے رہے۔ یہ وسیع و عریض قلعہ جو دو سو سال بادشاہوں کا مسکن رہا بہت سی آوازیں سمیٹے ہوئے ہے۔ آوازیں تو شخصیات کی بھی ہیں اور عمارات کی بھی۔ رنگ محل۔ دیوان عام۔ دیوان خاص۔ خواب گاہ۔ موتی مسجد۔ ظفر محل۔ نہر بہشت۔ شیش محل۔ یہ محل وہ محل۔
میرے لیے مسئلہ یہ تھا کہ ان بہت سی جگہوں میں کون سی چند منتخب کی جائیں تاکہ مختصر وقت میں سیر حاصل سیر کی جاسکے۔ دیوان عام سامنے تھا سو اسی کی طرف قدم بڑھ گئے۔ لاہوری ہونے کا مسافر کو فائدہ بھی ہے اور نقصان بھی۔ قدم قدم پر لاہور کی مثال دینا پڑتی ہے۔ کچھ منظر دیکھے بھالے لگتے ہیں، کچھ دروبام پرانے آشنا معلوم ہوتے ہیں۔ ہوبہو قلعہ لاہور کے دیوان عام جیسا ہے۔ وہی بہت سے سرخ ستون۔ تین اطراف سے محراب دار اور کھلا۔ چوتھے رخ پرچودہ پندرہ فٹ بلند بادشاہ کا جھروکہ۔ جھروکے پر بس ایک تخت اور دو خدمت گاروں کے برابر جگہ۔ ایک طرف دیوان عام میں بارہ چودہ سیڑھیاں اترتی ہوئیں۔ جھروکے کے عقب میں قریبی لوگوں یا بیگمات کے بیٹھنے کے کمرے۔ جھروکے کے نیچے ایک تخت پر وزیراعظم کے کھڑے ہونے کی جگہ۔ سامنے کھلا سبزہ زار۔ سب کچھ وہی جو لاہور میں ہے۔ لیکن یہ دلی کا ایوان زیادہ وسیع اور کشادہ ہے۔
دیوانِ خاص زیادہ پرشکوہ اور زیادہ خوبصورت ہے۔ یہاں چیدہ چیدہ لوگوں کو باریابی کی اجازت تھی۔ یہیں تخت طاؤس رکھا تھا جس پر شاہجہاں سے محمد شاہ رنگیلا تک سب شاہان دہلی جلوہ افروز ہوتے تھے یہاں تک کہ نادر شاہ ایک عذاب کی طرح نازل ہوا۔ قتل عام الگ رہا، تخت طاؤس اور کوہ نور ہیرا بھی ساتھ لے گیا۔ اس ایوان نے کیسے کیسے منظر دیکھے ہوں گے۔ جمنا سے نکالی ہوئی نہر جسے نہر بہشت کا نام دیا گیا تھا اس دیوان خاص کے بیچوں بیچ بہتی تھی۔ فوارے بلند ہوتے تھے اور جھرنے جل ترنگ بجاتے تھے۔ چھت چاندی کی تھی جو بعد میں لوٹ مار کی نذر ہوگئی۔ اسے تانبے کی چھت سے اور پھر تانبے کی چھت بھی لکڑی کی چھت سے تبدیل ہوگئی۔ بالکل مغل بادشاہوں کے زوال کی طرح۔
پیاس لگنا شروع ہوگئی تھی۔ دیوان خاص سے کسی کینٹین کی تلاش میں نکلا۔ کھلے سبزہ زار کے کونے میں چند کرسیاں پڑی تھیں۔ ایک طرف سیاحوں کی وہی ٹولی بیٹھی تھی جن سے مینابازار میں ملاقات ہوئی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی ان کے چہروں پر مسکراہٹ آگئی۔ ادھیڑ عمر مرد اٹھ کر میری طرف بڑھا۔ مصافحہ کیا اور ساتھ بیٹھنے کی دعوت دی۔
وہ دہلی کے رہنے والے کاروباری شخص منصور خان تھے۔ ان کے ساتھ ان کی بیگم اور بچے تھے۔ خوبصورت نوجوان لڑکی ان کی بنگلور سے آئی ہوئی بھانجی زنیرہ تھی‘ جو یونیورسٹی میں پڑھتی تھی۔ چھٹیوں میں دلی آئی ہوئی تھی اور لال قلعہ دیکھنے کا اس کا پہلا موقعہ تھا۔''آپ نے تو ہمارے عالم فاضل گائیڈ کو ناراض کردیا‘‘ وہ کھلکھلا کر پھر ہنسی۔ اصل بات یہ تھی وہ اس لیچڑ گائیڈ سے پیچھا چھڑانے میں ناکام ہوچکے تھے اور میں نے ان کا مسئلہ آسان کردیا تھا۔
لیکن میرا مسئلہ آسان نہیں تھا اور وہ تھا ان کے اصرار پراپنا تعارف کرانا۔ حالات کا جبر ایسا ہوگیا ہے کہ اگر آپ ہندوستان میں اپنے آپ کو پاکستانی کہہ کر تعارف کروائیں یا پاکستان میں ہندوستانی کہہ کر تعارف کروائیں تو مقامی باشندوں کی آنکھوں میں شک کی پرچھائیاں لہرانے لگتی ہیں۔ فوراً خیال آنے لگتا ہے کہ یہ فلاں ایجنسی کا بندہ تو نہیں؟ لیکن سچ یہ ہے کہ حالات کا جبر اپنی جگہ، پڑھے لکھے باشعور ذہنوں کی مٹھاس اپنی جگہ۔ منصور خان کے گھرانے کو میر ے پاکستانی ہونے کا اندازہ بالکل نہیں تھا لیکن اگر انہیں کچھ وہم ہوا بھی تو انہوں نے مجھ پر ظاہر ہونے نہیں دیا۔ ہم نے کولڈ ڈرنک، چپس کے ساتھ مزے کا وقت گزارا۔ وہ کبھی پاکستان نہیں آئے تھے سو مجھ سے لاہور کے حالات پوچھتے رہے۔ کچھ ہی دیر میں اپنائیت کی ایک لہر نے ہمیں ایک ساتھ بھگو دیا۔ اس طرح کہ ہم باقی قلعہ دیکھنے اٹھے تو ساتھ ساتھ تھے۔