تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     02-02-2020

سرخیاں‘ متن‘ درستی اور ابرارؔ احمد کی نظم

عمران آٹا ‘ چینی چوروں سے تحفے اور مفاد لینا بند کریں: شہباز 
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''عمران خان آٹا ‘ چینی چوروں سے تحفے اور مفاد لینا بند کریں‘‘ جبکہ ہم نے کبھی ایسا نہیں کیا تھا‘ کیونکہ ایک تو ہم خود اسی طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور دوسرے ہمیں اوپر سے اتنی آمدن ہو جایا کرتی تھی کہ ہم نے کبھی اس کی پروا ہی نہیں کی تھی اور اسے بالائی آمدنی ‘اسی لیے کہا جاتا ہے کہ یہ براہ ِراست اللہ میاں کی طرف سے آتی تھی ‘جو اپنے بے شمار چھپڑ پھاڑ پھاڑ کر اپنے برگزیدہ بندوں پر نچھاور کرتے رہتے ہیں۔ ہماری تو سیاست لندن آنے کے بعد ویسے ہی ختم ہو گئی ہے ‘کیونکہ واپس جانے کی ضرورت اس لیے بھی نہیں کہ کون لاتعداد مقدمات کا سامنا کرے ‘جبکہ اب مزید پیسوں کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ پہلے والے ہی سنبھالے نہیں جا رہے۔ آ پ اگلے روز لندن میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
حکمرانوں کو سوچنا چاہیے کہ ٹڈی دل کا حملہ 
عوام کی بددعائوں کا نتیجہ ہے: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''حکمرانوں کو سوچنا چاہیے کہ ٹڈی دل کا حملہ عوام کی بددعائوں کا نتیجہ ہے‘‘ کیونکہ ہماری بددعائوں سے کوئی نتیجہ نہیں نکلا تھا اور یہ ٹڈی دل دراصل ہماری مدد ہی کو آیا ہے‘ جس کا جتنا بھی شکریہ ادا کیا جائے کم ہے اور جس کا عوام ڈھول وغیرہ بجا کر مقابلہ کر رہے ہیں اور اب سوچ رہے ہیں کہ اگر اس نے ہمارا ہی کباڑا کرنا تھا تو اس کے لیے دعائیں ہی کیوں مانگی گئی تھیں اور مزید پتے کی بات یہ ہے کہ عوام بھی ہماری ہی طرح کے ہیں‘ کیونکہ ہم دعا کسی اور چیز کی مانگتے ہیں اور سامنا کسی اور چیز کا ہو جاتا ہے‘ مثلاً :دعا حکومت کی رخصتی کی مانگتے ہیں‘ جس کی بجائے یہ ہر روز مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جاتی ہے؛ حتیٰ کہ اس کے اتحادی بھی چار دن واویلا کرنے کے بعد برف میں لگ کر بیٹھ گئے ہیں اور نہایت غیر مستقل مزاجی کا ثبوت دیا ہے اور یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ آپ اگلے روز پارلیمنٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
عمران کو گھر بھیجنے پر سب متفق‘ متحدہ بھی ساتھ چھوڑ دے: بلاول
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''عمران کو گھر بھیجنے پر سب متفق‘ متحدہ بھی ساتھ چھوڑ دے‘‘ اور یہ بات ہم بار بار دہرا رہے ہیں‘ لیکن اس پر اثر ہی نہیں ہو رہا اور بالکل حکومت بنی ہوئی ہے‘ جو ایک ہی ضد پر لگی ہوئی ہے؛ حالانکہ ہم نے جب ایک بار پیسوں کی واپسی سے انکار کر دیا تھا‘ تو صبر کر لیتی ‘کیونکہ شریف برادران جو ایک دھیلا بھی واپس کیے بغیر لندن جا کر بیٹھ گئے ہیں ‘ ان کا اس نے کیا بگاڑ لیا‘ جو ہمارا بھی بگاڑنے کی خام خیالی میں مبتلا ہے‘ کیونکہ ہم نے یہ پیسے واپس کرنے کے لیے نہیں کمائے تھے‘ بلکہ خود حکومت کی بھی نیت یہ پیسے واپس لینے کی نہیں تھی ‘کیونکہ میگا کرپشن کے قیدیوں اور حوالاتیوں کو جیل میں ائر کنڈیشنر‘ ٹی وی اور دیگر سہولیات فراہم کرنے سے تو وہ اور بھی پکّے ہو گئے تھے اور سب کو گھر سے بھی زیادہ آرام و آسائش میسر تھے‘ اس لیے ان کا دماغ خراب تھا‘ جو وہ ان حالات میں پیسے واپس کرتے۔ آپ اگلے روز پارلیمنٹ ہائوس میں اپنے چیمبر کے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
ریکارڈ کی درستی
جاوید حفیظ نے اپنے کالم میں ایک شعر اس طرح سے درج کیا ہے؎
تقدیر کے قاضی کا فتویٰ ہے ازل سے
ہے جُرمِ ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
اس کا پہلا مصرعہ خارج از وزن ہو گیا ہے‘ جبکہ میری نظر میں اصل مصرعہ اس طرح سے ہو سکتا ہے ع
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ثوبیہ خان نیازی نے اپنے کالم میں ایک شعر اس طرح سے لکھا ہے ؎
کیوں گردشِ مدام سے گھبرا نہ جائے دل
انسان ہوں پیمانۂ ساغر نہیں ہوں میں
دوسرا مصرع غلط ہے جو کہ صحیح اس طرح سے ہے ع
انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں
اور‘ اب آخر میں ''موہوم کی مہک‘‘ میں سے ابرار احمد کی یہ نظم:
آخری بارش 
ایک محبت کے باطن میں/ کتنے جذبے ہمک رہے ہیں/ ایک چمکتے مُکھ میں/ کتنے چاند ستارے دمک رہے ہیں/ جاگنے کی ساعت کے اندر/ کتنی صدیاں سوئی ہوئی ہیں
دلوں میں اور دروازوں میں/ کہیں ابھی موجود ہیں شاید/ رستہ تکتی/ جھکی ہوئی بیلیں اور بارش/ جہاں سے کوئی مہک پرانی/ میری مٹّی اڑا رہی ہے/ تیرے کپڑے پکڑ رہی ہے
جتنے اشک تھے لہو کے اندر/ اتنے پھول کھلا آیا ہوں/ جن ہونٹوں پر چہکا‘ ان پر/ چپ کی مُہر لگا آیا ہوں
جتنے خواب بھرے تھے میری نیندوں میں/ اتنی تعبیروں کے پیچھے بھاگ چکا/ ایک نوع کے آنسو‘ آنکھ سے گر جاتے ہیں/ اور طرح کے بھر جاتے ہیں
رستوں کے اندر رستے ہیں/ سفر کے اندر سفر چھُپے ہیں/ بادلوں کے اندر بادل ہیں/ چھینٹوں کے اندر چھینٹے ہیں/ بارش تو گرتی ہی رہے گی/ دنیا تو بستی ہی رہے گی
جو بھی چلتا ہے بارش میں/ جو بھی گھومتا ہے بستی میں/ کھو جاتا ہے/ کھو جائے گا/ عمر کی بھی سرحد ہوتی ہے/ رقص کی بھی اک حد ہوتی ہے/ چلیے--- اب میں بھی تیار ہوں/ تھم جانے کو/ کسی مہکتی مٹی میں/ گھل مل جانے کو---!
آج کا مقطع
جانِ ظفرؔ درکار ہے اب تو
میٹھی بات اور پھیکی چائے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved