تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     04-02-2020

دریافت سے ایجاد تک!

اس دنیا میں آپ کا آنا یا موجود ہونا کافی ہے؟ یہ سوال ہر اُس انسان کے لیے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے‘ جو کچھ کرنا چاہتا ہے۔ اِس دنیا میں ہماری موجودگی اِس بات کا تو بھرپور اور تسلیم شدہ ثبوت ہے کہ قدرت کی مہربانی سے ہم نے اِس دنیا کی بس مِس نہیں کی۔ قدرت نے دنیا کی بس میں سوار کردیا ہے تو کیا اِس کرم کو کافی سمجھ لیا جائے؟ کیا ہمارا اِس دنیا میں بھیج دیا جانا اِتنی بڑی بات ہے کہ ہم صبر و شکر کے ساتھ ایک طرف بیٹھ رہیں اور اچھی خاصی بے عملی کے ساتھ زندگی کو ضائع کردیں؟ 
دنیا میں ہماری موجودگی کا کوئی نہ کوئی مقصد تو ہونا ہی چاہیے۔ بس‘ اُس مقصد کے بارے میں سوچنا ہی اِس بات کی دلیل ہے کہ ہم اپنے وجود اور کردار کے حوالے سے سنجیدہ ہیں۔ 
اِس دنیا میں ہمارا موجود ہونا کچھ کر دکھانے کے حوالے سے سنہرا موقع ہے۔ کائنات میں بہت کچھ ہے۔ ایسے میں اگر ہم اپنے وجود کو ڈھنگ سے بروئے کار لائیں تو دنیا ہی نہیں‘ کائنات کی رونق میں بھی اضافہ ہوگا۔ ہمارے خالق اور رب نے یہ کائنات کسی مقصد کے بغیر خلق نہیں کی۔ ہم سمیت پوری کائنات کی تخلیق کا بنیادی مقصد خالق و رب کی مرضی کا پابند رہنا ہے۔ جو کچھ ہمارے خالق و رب نے ہمارے لیے طے کردیا ہے ‘وہی ہمارے لیے موزوں ترین ہے۔ ہم اپنے طور پر بھی بہت کچھ سوچ سکتے ہیں ‘مگر وہ سب کچھ بھی رب ہی کی مرضی کے مطابق ہونا چاہیے۔ 
ایک بڑی حقیقت یہ ہے کہ ہمیں بخشے جانے والے وجود کو اس دنیا کے لیے زیادہ سے زیادہ کارآمد بنانا لازم ہے۔ کائنات کے خالق کی مرضی یہ ہے کہ اُس کی بخشی ہوئی ہر نعمت کو بروئے کار لاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ مفید بنایا جائے۔ ہر مخلوق کو کسی نہ کسی خاص مقصد کے تحت پیدا کیا گیا ہے۔ ہم اپنے ماحول کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ سبھی کے لیے کوئی نہ کوئی کردار متعین کیا گیا ہے۔ ہر مخلوق رب کی مرضی کے مطابق کام کر کر رہی ہے۔ انسانوں کا معاملہ بہت مختلف ہے۔ انسانوں کے سوا ہر مخلوق پہلے سے طے کردہ مقصد اور طریق کار کے تحت اس دنیا میں اپنے قیام کی مدت پوری کرتی ہے۔ انسان کے لیے لازم ہے کہ ذہن کو بروئے کار لائے‘ یعنی رب کی مرضی کے بارے میں سوچے اور ایسا لائحۂ عمل اختیار کرے ‘جس سے اُس کے اپنے وجود کی مقصدیت و معنویت بڑھے اور دنیا کی مجموعی قدر میں اضافہ ہو۔ 
ہالی وڈ کے معروف اداکار آرنلڈ شوارزینیگر کہتے ہیں کہ ناکامی کسی بھی اعتبار سے کوئی آپشن ہے ہی نہیں۔ دنیا کے ہر انسان کو ہر حال میں کامیاب ہونے کی کوشش کرنی ہے۔ آرنلڈ کی بات سو فیصد درست ہے۔ ہم اس دنیا میں اس لیے بھیجے گئے ہیں کہ کچھ کر دکھائیں۔ کوئی بھی انسان بے صلاحیت نہیں۔ بہت سوں میں بہت سی صلاحیتیں پائی جاتی ہیں۔ اگر کوئی اوسط درجے کی زندگی بسر کر رہا ہے‘ تو یہ اُس کے اپنے فیصلے کا نتیجہ ہے۔ قدرت نے تو سب کے لیے کوئی نہ کوئی کردار طے کر رکھا ہے۔ اس کردار کو ڈھنگ سے ادا کرنے کے لیے مطلوب مہارت اور سکت اپنے اندر پیدا کرنا انسان کے بس میں ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو یہ اُس کا اپنا فیصلہ ہے۔ کسی نے اُسے ایسا کرنے پر مجبور نہیں کیا۔ 
انسان کی اہم ترین ذمہ داری تو یہ ہے کہ وہ اپنے وجود سے مکمل طور پر باخبر ہو۔ خود آگہی کی منزل سے گزرنے کے بعد ہی وہ اِس کائنات کے لیے کچھ کرنے اور اسے کچھ دینے کے قابل ہوسکتا ہے۔ روئے ارض پر بسنے والے ہر انسان کے لیے لازم ہے کہ اپنے آپ سے کماحقہ آگاہ ہو۔ جب تک وہ اپنے وجود کے ہر مثبت اور منفی پہلو سے اچھی طرح آگاہ نہیں ہو لیتا تب تک دنیا کو کچھ دینے اور کچھ کر دکھانے کے قابل نہیں ہوسکتا۔ یہ حقیقت ذہن نشین رہے کہ اس دنیا کی ساری رونق خود آگہی کے دم سے ہے۔ جو لوگ اپنے وجود پر غور کرکے اُسے زیادہ بارآور بنانے کی کوشش کرتے ہیں وہی ڈھنگ سے جی پاتے ہیں‘ کچھ کر پاتے ہیں۔ 
ہمیں اس حقیقت کو کافی سمجھتے ہوئے پُرسکون ہوکر بیٹھ نہیں رہنا ہے کہ ہمیں دنیا کی بس میں سوار ہونے کا موقع دیا جاچکا ہے۔ اس بس میں ہمیں اپنے لیے موزوں نشست تلاش کرنی ہے۔ جسے بھی اس دنیا میں بھیجا گیا ہے‘ اُس کے کاندھوں پر چند ایک ذمہ داریوں کا بوجھ بھی ہے۔ کائنات کے خالق کی مرضی یہ ہے کہ جو کچھ اُس نے ہر اعتبار سے جامع زندگی بسر کرنے کے لیے طے کر رکھا ہے‘ انسان اُس کے مطابق جیے اور اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی بہبود کا بھی خیال رکھے۔ 
کیا انسان اپنے خالق و رب کی مرضی کے مطابق آسانی سے جی سکتا ہے؟ یہ سوال اِس لیے اہم ہے کہ دنیا میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے‘ اس کا بڑا حصہ رب کی مرضی کے خلاف ہے۔ اگر ہم اپنی سوچ کو رب کی مرضی کے سانچے میں ڈھالے بغیر کچھ کرنا چاہیں گے تو نتیجہ ہماری مرضی کا ہوگا‘ رب کی مرضی کا نہیں۔ ہر اعتبار سے معیاری انداز سے جینے کے قابل ہونے کے لیے لازم ہے کہ ہم اپنے وجود پر غور کریں‘ اس دنیا میں اپنی آمد کو کافی نہ سمجھیں ‘بلکہ اپنے وجود کو نئے سِرے سے دریافت کرنے پر بھی متوجہ ہوں۔ 
ولیم بارکلے نے کہا ہے کہ آپ کے لیے دو دن سب سے اہم ہیں۔ ایک تو وہ دن ہے جب آپ اِس دنیا میں آئے تھے۔ اور دوسرا دن وہ جب آپ نے اپنے وجود کو دریافت کیا۔ اپنے وجود کو دریافت کرنا ... بات کچھ عجیب سی لگتی ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ روئے زمین پر بسنے والے ہر انسان کو اپنے آپ سے آگاہ ہونا ہے۔ خود آگہی کا مطلب ہے اپنے وجود کی تمام خوبیوں‘ خامیوں اور خرابیوں سے کماحقہ آگاہ ہونا۔ جب ہم اس منزل سے گزرتے ہیں تب ہی معیاری انداز سے جینے کے قابل ہو پاتے ہیں۔ ہمارے رب نے ہمارے لیے جو کچھ طے کر رکھا ہے وہ ہمیں کرنا ہے۔ دنیا کو بہتر بنانا تمام انسانوں کی ذمہ داری ہے۔ دنیا کو سکونت کے زیادہ سے زیادہ قابل بنانا کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔ انسان سوچنے والا حیوان ہے۔ وہ کسی بھی ناموافق صورتِ حال کو آسانی سے قبول نہیں کرتا اور دنیا کو کچھ دینے کے لیے بھی آسانی سے تیار نہیں ہوتا۔ معیاری انداز سے جینے کے لیے انسان کو اپنے آپ پر اچھا خاصا جبر کرنا پڑتا ہے۔ ہر انسان میں بہت سی ایسی خصوصیات پائی جاتی ہیں‘ جو دوسروں کے لیے زیادہ قابل قبول نہیں ہوتیں۔ اُس کی کئی عادتیں یکسر ناقابل قبول بھی ہوسکتی ہیں۔ جو کچھ دنیا کے لیے مکمل طور پر یا زیادہ قابل قبول ہو اُس کا معیار بلند کرنے پر انسان کو زیادہ متوجہ رہنا چاہیے۔ یہ سب کچھ اُسی وقت ممکن ہوسکتا ہے‘ جب انسان اپنی ولادت کو سب کچھ سمجھتے ہوئے مطمئن نہ ہو رہے بلکہ ایک قدم آگے جاکر اپنے وجود کو نئے سِرے سے دریافت کرے‘ اپنی خوبیوں کا معیار بلند کرنے پر متوجہ ہو‘ اپنی خامیوں کو دور کرنے کی شعوری کوشش کرے۔ ہر اعتبار سے بھرپور کامیابی یقینی بنانے کے لیے انسان کا خود آگہی کے مرحلے سے گزرنا ویسا ہی لازم ہے جیسا زندہ رہنے کے لیے سانس لینا۔ 
اپنی دریافت بھی لازم ہے ‘مگر اس سے بھی آگے کی منزل ہے ‘اپنے وجود کی گہرائی میں اتر کر ایک نیا وجود ایجاد کرنا۔ جو ایسا کر گزرے وہ محض کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوتا ‘بلکہ عہد ساز شخصیت میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved