تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     22-05-2013

دیر سے سمجھ میں آنے والی باتیں

الیکشن کی گہما گہمی ختم ہوئی اور دھاندلی کا شور اٹھا۔ اس شور کی بازگشت کراچی سے خیبر تک گونج رہی ہے۔ مسلم لیگ کا فخر امام‘ تحریک انصاف کا حامد خان‘ کراچی کامہربان ‘ پیپلز پارٹی کا نگران‘ ڈیرہ اسمٰعیل خان کا فضل الرحمن اور میرا کی اماں۔ سب دھاندلی کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ بقول ؎ بوئے گل‘ نالۂ دل‘ دودِ چراغِ محفل جو تیری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا دھاندلی کے شاکی خوشحال امیدواروں نے جعلی ووٹوں کی تصدیق کے لیے انگوٹھوں کے نشان نادرا سے چیک کروانے کی تجویز دیتے ہوئے یہ آفر بھی کردی کہ وہ اس تصدیقی عمل کا خرچہ بھی برداشت کریں گے۔ پہلے تو نادرا والوں نے اس تجویز پر کان ہی نہیں دھرے اور فرما دیا کہ ان کے پاس ایسا کوئی میکنزم ہی موجود نہیں۔ پھر انہوں نے سوچا کہ جہاں الیکشن کمیشن انمٹ سیاہی کی مد میں ساٹھ کروڑ خرچ کر سکتا ہے وہاں انگوٹھوں کی تصدیق والے معاملے میں کیوں خرچ نہیں کر سکتا؟ انہوں نے فوراً ایک تخمینہ الیکشن کمیشن والوں کو بھجوا دیا کہ اس عمل کے لیے درکار سوفٹ ویئر پر پچاس کروڑ روپے لاگت آئے گی۔ یہ تو صرف ابتدائی خرچہ تھا۔ پھر فرمایا کہ ایک ووٹ کی تصدیق پر دس سے پندرہ روپے خرچہ آئے گا۔ یعنی اگر کسی حلقے میں ایک لاکھ ووٹ ڈالے گئے ہیں تو ان کی تصدیق کے لیے شکایت کنندہ دس سے پندرہ لاکھ روپے ادائیگی کرے گا۔ ایسی صورت میں ممکن ہے الیکشن کمیشن اسے بعدازاں نااہل قرار دے دے کہ اس کا انتخابی خرچہ مقرر کی گئی اخراجات کی مد سے تجاوز کر گیا ہے۔ ویسے تو گئے گزرے امیدوار کا انتخابی خرچہ بھی الیکشن کمیشن کی مقرر کردہ حدود سے کہیں زیادہ بلکہ دس پندرہ گنا زیادہ ہوا ہے مگر الیکشن کمیشن والے بادشاہ ہیں کہ پہلے ایک غیر حقیقی حد مقرر کرتے ہیں اور پھر کامیاب امیدواروں کی پارلیمانی زندگی کی ابتدا ہی اس جھوٹ سے کرواتے ہیں کہ انہوں نے اپنے الیکشن میں مقرر کردہ غیر حقیقی حد کے اندر ہی خرچہ کیا ہے۔ اگر صرف اس مد میں جمع کروائے گئے بیاناتِ حلفی کو معیار بنایا جائے تو سارے کے سارے کامیاب امیدوار آئین کی دفعہ باسٹھ تریسٹھ کے تحت نااہل ہو سکتے ہیں مگر جس ملک میں جمشید دستی جیسے جعلی ڈگری ہولڈر دو دو حلقوں سے ریکارڈ ووٹ لے کر جیت جائیں وہاں اخلاقی اقدار اور اعلیٰ کردار جیسے متروک الفاظ کو کتابوں وغیرہ کے علاوہ کہیں اور استعمال کرنا ایک مذاق کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ نادرا کی جانب سے سافٹ ویئر کے اخراجات گو کہ بادی النظر میں بڑے غیر حقیقی معلوم ہوتے ہیں مگر چلیں سو پچاس کروڑ تو کسی نہ کسی طرح Justify کیے جا سکتے ہیں مگر فی ووٹ چیک کروائی دس روپے کی سمجھ نہیں آتی کہ اس عمل میں کون سی گیدڑ سنگھی خرچ ہونا ہے۔ اصل میں حقیقت یہ ہے کہ ملک عزیز میں ہر ادارہ سائڈ بزنس میں مصروف ہے۔ جسے موقع ملتا ہے وہ اپنے کام میں منافع کمانے کا طریقہ سوچ لیتا ہے۔ نیب کے افسران تنخواہ بھی لے رہے ہیں اور وصولیوں پر کمیشن بھی وصول کر رہے ہیں۔ اگر انہوں نے کمیشن پر ہی کام کرنا ہے تو پھر تنخواہ لینے کا کیا جواز ہے اور اگر وہ تنخواہ لیتے ہیں تو کمیشن وصول کرنے کی کیا تُک ہے؟ ہر ادارہ اپنی اپنی جگہ پر کمرشل ادارہ بنتا جا رہا ہے۔ ملتان کینٹ میں داخلے کے لیے گاڑیوں پر لگائے گئے سٹکر چھاپے گئے۔ ہر سٹکر اس مقصد کے لیے تھے کہ کینٹ حدود میں داخل ہونے والی گاڑیوں کو غیر ضروری چیکنگ وغیرہ سے نجات مل سکے۔ میں نے بھی اپنا شناختی کارڈ جمع کروا کر سٹکر حاصل کرلیا۔ اس سٹکر کی سرکاری قیمت مبلغ تین سو روپے تھی‘ جبکہ لاگت کسی طور بھی بیس پچیس روپے سے زائد نہیں تھی۔ لیکن اصل صدمہ تب ہوا جب اس سٹکر کے باوجود وہی پرانی چیکنگ سے پالا پڑا۔ اس کے بعد میں نے یہ سٹکر لینے سے توبہ کر لی۔ انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق اپنی جگہ مگر یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ دوسری گنتی میں چودھری نثار علی خان صوبائی نشست سے کس طرح ہار گئے؟ کیا پہلی گنتی کرنے والوں کو ٹھیک طرح گنتی کرنی نہیں آتی تھی؟ کیا مخالف کے ووٹوں میں پڑے پڑے برکت پڑ گئی تھی؟ کیا چودھری نثار علی خان کے ووٹ تھیلوں سے اڑن چھو ہو گئے تھے؟ یہ تو خیر مذاق تھا مگر اس سے گنتی کا سارا عمل مشکوک ہو گیا ہے۔ ایک دو ووٹوں کا معاملہ نہیں کہ اسے انسانی غلطی کی مد میں ڈال کر اس سے جان چھڑوا لی جائے یہ تقریباً چودہ سو ووٹوں کا معاملہ ہے۔ پہلی گنتی میں چودھری نثار علی خان صوبائی اسمبلی کی نشست پی پی 7 پر جیت گئے تھے مگر ہارنے والے تحریک انصاف کے امیدوار محمد صدیق خان نے اس نتیجے کے خلاف اپیل کردی۔ پہلی گنتی میں چودھری نثار علی خان ٹیکسلا کے اس صوبائی حلقے سے تین سو گیارہ ووٹوں سے جیت گئے تھے جبکہ تیسری گنتی میں چودھری محمد صدیق خان ایک ہزار سے زائد ووٹوں سے جیت گئے۔ اس سارے معاملے نے ووٹوں کے سارے عمل کو مشکوک کر کے رکھ دیا ہے۔ اگر چودہ سو ووٹوں کی غلطی ہو سکتی ہے تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ چودہ ہزار ووٹوں کا گھپلا نہیں ہو سکتا؟ اس ایک چیز نے کم از کم الیکشن کمیشن کے اس دعوے کو تو غلط ثابت کردیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے ووٹ ڈالنے سے لے کر نتائج تک فول پروف بندوبست کیا ہے۔ گزشتہ روز زرداری صاحب نے بھی فرمایا ہے کہ اگر انہیں اس قسم کے ریٹرننگ افسران مل جائیں تو وہ دوبارہ صدارتی الیکشن جیت سکتے ہیں۔ یہ بڑی حیران کن بات ہے جو انہوں نے کی ہے۔ یہ بات اگر عمران خان کہے‘ نواز شریف کہے‘ چودھری شجاعت حسین کہے‘ حتیٰ کہ مولانا فضل الرحمن اور الطاف حسین بھی کہہ سکتے ہیں مگر کم از کم زرداری صاحب یہ بات نہیں کہہ سکتے کیونکہ الیکشن والے دن وہ خود صدر مملکت تھے‘ جناب کھوسو صاحب جو نگران وزیراعظم ہیں انہی کی پارٹی کے نامزد کردہ تھے۔ ساری نگران کابینہ ان کی مرضی و منشا کی تھی اور پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ جناب نجم سیٹھی بھی انہی کے نامزد کردہ تھے۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں بھی سب کچھ انہی کا اور ان کے اتحادیوں کا ہی کیا دھرا تھا۔ پنجاب میں تھانیدار سے لے کر چیف سیکرٹری تک ان کے نگران وزیراعلیٰ نے اپنی مرضی سے لگائے تھے اب ان کا یہ کہنا کہ اگر انہیں اس الیکشن جیسا عملہ میسر ہو تو وہ دوبارہ صدر پاکستان منتخب ہو سکتے ہیں‘ ایک ایسی بات ہے جو پورے انتخابی عمل کو مزید مشکوک بناتی ہے ۔ حیرانی اس بات کی ہے کہ یہ بات سمجھ نہیں آ رہی کہ دھاندلی کا الزام لگانے والے کس پر الزام لگا رہے ہیں؟ ہر شخص متاثرہ ہے اور ہر پارٹی گریہ کناں ہے۔ سارے عمل کا ماسٹر مائنڈ اور نگران صدر پاکستان خود فریادی ہے۔ تحریک انصاف کے نوجوان ورکر کئی جگہ پر دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ ان کو ممی ڈیڈی کلاس کہنے والوں کا دعویٰ تھا کہ برگر کھانے والے یہ نوجوان ایک دن دھرنا نہیں دے سکتے لیکن یہ مراعات یافتہ کلاس کے نوجوان پچھلے آٹھ دن سے دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ شوکت گجر کا کہنا ہے کہ یہ امریکی ڈیزائن کے انتخابات تھے اور اسی کے مطابق نتائج آئے ہیں۔ میں اس بات پر شوکت کا مذاق اڑاتا تھا مگر اب ہرگزرتا ہوا دن شوکت گجر کی بات میں خواہ مخواہ وزن پیدا کرتا جا رہا ہے۔ اب تو مجھے بھی شبہ ہونے لگا ہے کہ دال میں جو کالا ہے وہ ہماری سمجھ سے باہر کی چیز ہے۔ اس حساب سے یہ ویسے بھی باہر کی چیز ہی لگتی ہے اور ہمیں ایسی باتیں دیر سے سمجھ آتی ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved