جناب آصف زرداری نے بطور صدرِ مملکت اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں تو مجھے یاد کیا۔ ایوانِ صدر کی اس ملاقات میں ، میں نے ان کی خدمت میں چند باتیں عرض کیں۔ اس ملاقات کی تفصیل سے پہلے ایک تمہیدی گزارش۔ زرداری صاحب جب جیل میں تھے تو بطورِ شہری ان کے بنیادی حقوق پامال ہوئے۔ عدالتوں میں ان کے ساتھ جس طرح معاملہ ہوا، اُس سے واضح تھا کہ انہیں زچ کرنا مقصود ہے، انصاف دینانہیں۔میں نے اس پر اپنے کالم میں صدائے احتجاج بلند کی، جس پر انہوں نے شکریے کا فون کیا۔ وہ عدالت میں آئے تو میں ان سے ملنے گیا۔ یہ میری ان سے پہلی ملاقات تھی۔بعد میں ڈاکٹر قیوم سومرو صاحب کے توسط سے گاہے گاہے ان کے ساتھ فون پر بات ہو جاتی۔بے نظیر صاحبہ کی المناک موت کے بعد جب انہوں نے ’پاکستان کھپے ‘کا نعرہ دیا تو میرے دل میں ان کے لیے قدر پیدا ہوئی، جو خوش گمانی میں ڈھل گئی۔خوش گمانی توقعات کو جنم دیتی ہے۔ میں نے ان سے کچھ توقعات باندھ لیں۔ جب انہوں نے مجھے یاد کیا تو میں ان توقعات اور خوش گمانی کے جلومیں ان سے ملا۔ ملاقات کی نوعیت مشاورتی تھی۔ اُن دنوں میںوہ روزانہ کئی افراد سے ملتے اور ظاہر ہے کہ سیاسی اخلاقیات کے تحت یہی پوچھتے کہ آپ کے خیال میں مجھے کیا کرنا چاہیے۔ جب انہوں نے یہی سوال میرے سامنے رکھا تو میں نے انہیں چار باتیں کہیں۔میں نے کہا کہ آپ کا سب سے بڑا مسئلہ ساکھ کا ہے۔ غلط یا صحیح، آپ کے بارے میں ایک رائے بنا دی گئی ہے جو منفی ہے۔آپ نے سب سے پہلے اس کوبہتر بنانا ہے۔ آپ کو بطور حکمتِ عملی قوم کو یہ بتانا ہے کہ آپ کے بارے میں جو تأثر قائم ہے، وہ غلط ہے۔یہ کام محض دکھاوے کے لیے نہیں ہونا چاہیے۔ آپ نے اپنے طرزِعمل سے یہ ثابت کرنا ہے کہ آپ کے بارے میں جو کچھ مشہور کیا گیا ہے وہ جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔دوسری بات میں نے یہ کہی کہ پیپلز پارٹی کو بھی اُس تأثر پرغور کرنا ہے جو اس کے بارے میں قائم ہے۔اسے ایک مذہب مخالف جماعت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جو ایک آزاد منش سماج کے قیام کی خواہش مند ہے۔پاکستانی معاشرہ بنیادی طور پر قدامت پسند ہے۔ ایسے معاشرے میں مذہب کے نام پر سوادِ اعظم کو پیپلز پارٹی کی مخالفت میں جمع کرنا مشکل نہیں ہوتا۔ ذوالفقار علی بھٹو ایک مسلم قوم پرست رہنما تھے۔ ان کے اس تشخص کو بنیاد بنا کر آپ نے پیپلز پارٹی کے بارے میں تأثر کو بدلنا ہے تاکہ آپ کے مخالفین مذہبی جذبات کو آپ کے خلاف استعمال نہ کر سکیں۔ میں نے تیسری بات یہ کہی کہ آج اسلام اور مغرب کے تعلقات ایک عالمگیر مسئلہ ہے اور پاکستانی سماج براہِ راست اس کی زد میں ہے۔اس ماحول میں بے نظیر کی پسِ مرگ شائع ہونے والی کتاب’’مفاہمت‘‘ (Reconciliation) بہت اہم اور بروقت ہے۔آپ اس کتاب کو ایک حل کے طور پر دنیاکے سامنے رکھیں۔چوتھی بات کہ حکومت کو پارٹی کے سامنے جواب دہ بنائیں۔ اگلے عام انتخاب میں حکومت نے نہیں پارٹی نے شریک ہونا ہے اور عوامی سوالوں کا سامنا کرنا ہے۔اگر وزیر جماعتی نظم کے تابع رہیں گے تو اس سے پارٹی مضبوط ہو گی۔ مجھے اعتراف ہے کہ انہوں نے بہت تحمل کے ساتھ میری باتیں سنیں۔ آخری بات کے جواب میں کہا کہ باہر جہانگیر بدر صاحب بیٹھے ہیں۔ آپ یہ بات ان سے ضرور کریں۔وہ پارٹی کے سیکرٹری جنرل ہیں۔ایک آدھ سال بعد میری ان سے ایک اور مختصر سی ملاقات ہوئی۔ اُن دنوں‘ ایک میڈیا گروپ نے انہیں ہدف بنا رکھا تھا اور میرا احساس ہے کہ ان کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا تھا۔ میں نے اس ملاقات میں انہیں صرف یہ مشورہ دیا کہ وہ میڈیا کے خلاف صبر کا مظاہرہ کریں اور کسی صورت ریاستی قوت کا استعمال نہ کریں۔ میں نے ان سے کہا کہ مظلومیت ایک طاقت ہے اور وہ اسے آزمائیں۔اللہ کا شکر ہے کہ ان دو ملاقاتوں میں یا فون پر میں نے کبھی کوئی ذاتی بات اُن سے نہیں کہی۔ آج میں نے ان کا بیان پڑھا کہ پیپلز پارٹی کی شکست ایک عالمی سازش کا نتیجہ ہے تو مجھے ان کے ساتھ اپنی پہلی ملاقات یاد آگئی۔واقعہ یہ ہے کہ اپنے عہدِ اقتدار میں وہ اپنی ساکھ کے بارے میں غیر حساس رہے اور پار ٹی کی ساکھ کے بارے میں بھی۔صدر بننے سے پہلے ان کی جیسی شہرت تھی، اس میں مزید اضافہ ہوا۔ پیپلز پارٹی ان کے شخصی وفاداروں کے ایک گروہ میں تبدیل ہو گئی، جس کی قیادت انہوں نے اپنے خاندان کوسونپ دی۔عوامی مسائل میں آئے دن اضافہ ہوا اور عوام کو ایک دن بھی یہ محسوس نہیں ہو سکا کہ حکومت ان کے حل میں سنجیدہ ہے۔زرداری صاحب اس زعم میں مبتلا رہے کہ انہیں جوڑ توڑ میںجو غیر معمولی مہارت حاصل ہے، محض اس کی بنیاد پر وہ اپنے اقتدار کو قائم رکھ سکیں گے۔وہ خود ایوانِ صدارت میں محصور رہے اور عوام کے ساتھ پارٹی کا رشتہ کمزور سے کمزور تر ہوتا گیا۔بے نظیر صاحبہ کے قتل کے بعد اس عوامی تعلق کو قائم رکھنے کے لیے، عوام سے قرب نا گزیر تھا۔اس عوامی رشتے کا قیام صدر زرداری صاحب کی کبھی پہلی ترجیح نہ بن سکا۔شاید دوسری بھی نہیں۔جب انہوں نے پنجاب پیپلز پارٹی کے معاملات منظور وٹو صاحب کے سپرد کیے تو اس سے بالکل واضح تھا کہ عوام اور پیپلز پارٹی کو جوڑنے والی کوئی شخصیت اب پارٹی کے پاس نہیں ہے۔بابر اعوان جیسے لوگ اس صورت میں پارٹی کا اثاثہ ہو سکتے تھے لیکن وہ زرداری صاحب کی نظر سے اتر چکے تھے۔اس کے بعد پیپلز پارٹی اگر انتخابات میں مختلف نتائج دکھاتی تو یہ باعثِ حیرت ہوتا۔پیپلز پارٹی نے زرداری صاحب کی قیادت میں جس طرح عوام کو نظراندازکیا،اس کے بعد عوام کا فیصلہ اِس سے مختلف نہیں ہو سکتا تھا۔اس اندازِ حکومت کے بعد بھی عالمی قوتوں کو کیا پیپلزپارٹی کے خلاف کسی سازش کی ضرورت تھی؟ جو بات باعثِ حیرت ہے، وہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی جیت ہے۔میرا خیال ہے اس میں سندھی عصبیت ان کے کام آئی ہے۔یہی کامیابی اب مستقبل میں ان کے لیے واحد امید ہے۔ اگر وہ سندھ میں ایک عوامی حکومت تشکیل دے سکیں جودوسرے صوبوںکی حکومتوں سے بہتر ہو تو پیپلز پارٹی سیاست کے افق پر ایک بار پھر نمودار ہو سکتی ہے۔اسے ایک اور فائدہ یہ حاصل ہے کہ وہ مایوسی کے باوجود پاکستان کے لبرل طبقے کی امید ہے۔ یہ طبقہ اگر چہ اقلیت میں ہے لیکن پیپلز پارٹی کے لیے عوامی حمایت کا ایک مضبوط ستون ضرور ثابت ہو سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کو یہ بھی ثابت کرناہے کہ بھٹو فیکٹربدستورایک حقیقت ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سیاست میں نئی عصبیتیں پیدا ہو چکی ہیں اور پرانی غیر متعلق ہو گئیں۔ زرداری صاحب کاخیال ہے کہ وہ صدارتی مدت کی تکمیل کے بعد ایک بار پارٹی کی قیادت کریں گے۔ میرا کہنا ہے کہ اگر وہ اپنے اسلوبِ سیاست میں جوہری تبدیلی نہیں لائیں گے تو نتائج مختلف نہیں ہوں گے۔ میں اگر آج ان سے ملوں تو اپنی وہی چارباتیں دہرائوں گا جو میں نے ایوانِ صدر میں ان سے کہی تھیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved