تحریر : صابر شاکر تاریخ اشاعت     07-02-2020

ورکنگ ریلیشن شپ کا فقدان

عصر حاضر میں پاکستان کا شمار دنیا کے ان اِکا دکا ممالک میں ہوتا ہے جہاں آزادی کے بعد پون صدی گزرنے کے باوجود سیاسی اور غیر سیاسی قیادت کے مابین ایک آئیڈیل ہم آہنگی پیدا نہیں ہو سکی‘ جس کی کئی وجوہ ہو سکتی ہیں۔ سیاسی قیادت کا موقف سنیں تو اس کے دلائل کو آسانی سے رد کرنا ممکن نہیں اور غیر سیاسی قیادت بھی بہرحال اپنا ایک ٹھوس موقف رکھتی ہے‘ جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سیاست دانوں کے پاس سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ آئین کے تحت عوام کی منتخب کردہ حکومت کو پورا حق ہے کہ وہ امورِ مملکت چلائے اور باقی تمام ادارے اس سلسلے میں اس کی معاونت کریں‘ ریاستی ادارے اپنی رائے دے سکتے ہیں‘ لیکن فیصلے اور پالیسی سازی کا حتمی اختیار سیاسی قیادت کو ہی ہونا چاہیے۔ عسکری قیادت دلیل کے طور پر کہتی ہے کہ تمام ادارے‘ خاص طور پر فوج‘ کسی بھی مملکت کے اہم ترین سٹیک ہولڈر ہوتے ہیں اور دنیا کے کسی بھی ملک میں انہیں پالیسی سازی اور فیصلہ سازی کے عمل میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ موقف بھی صائب ہے۔ ایسی ہی صورتحال میں ہماری ایک نسل ختم ہو چکی‘ دوسری ریٹائر ہو چکی اور تیسری نسل کے پاس زمامِ کار منتقل ہو رہے ہیں‘ لیکن ورکنگ ریلیشن شپ کا یہ معاملہ طے ہونے میں ہی نہیں آ رہا ہے۔ کبھی اس تنازعہ کی بنیاد نظریہ ہوتا ہے کبھی گڈ اور بَیڈ گورننس کا الزام اور کبھی وجہ تنازعہ کرپشن کو بنایا جاتا ہے۔ بعض اوقات وجہ ملک کی داخلہ پالیسی اور کبھی خارجہ پالیسی بنتی ہے۔ ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کا الزام بھی لگایا جاتا ہے۔ اس صورتحال میں طویل مدت گزر چکی ہے اور مادرِ وطن ہے کہ سیاسی‘ معاشی اور نظریاتی اعتبار سے منقسم اور کمزور تر ہوتی جا رہی ہے۔ افراد اداروں سے بڑے‘ مال دار اور طاقت ور ہو چکے جبکہ ریاست پاکستان غریب سے غریب تر اور مقروض سے مقروض تر ہو چکی ہے۔ اتنی مقروض کہ ہر شہری لاکھوں کا مقروض ہے۔ ہر نوعیت کا تجربہ ہو چکا لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ کوئی بھی ماڈل‘ رول ماڈل نہ بن سکا اور نِت نئے تجربے کرنے کا عمل جاری ہے۔
حالات کو اس نہج تک پہنچانے میں سیاسی قیادتیں برابر کی ذمہ ہیں۔ اس حوالے سے ہمارے سامنے ذوالفقار علی بھٹو‘ محترمہ بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی مثالیں موجود ہیں۔ ہمارے سیاست کے کھلاڑی زیادہ نہیں ہیں بلکہ چند ایک ہیں‘ لیکن وہ بھی اپنا اپنا کھیل کھیلنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ سیاسی قیادتیں جب اپوزیشن میں ہوتی ہیں تو مقتدرہ کے گن گاتی ہیں اور حکومت کو گرانے کے لئے اپنی خدمات کا بلینک چیک ایڈوانس میں جمع کروا دیتی ہیں اور اپنے حریف کو گرانے کے لئے‘ اسے نیچا دکھانے کے لئے کوئی بھی پتھر جو انہیں تھمایا جاتا ہے وہ پورے زور سے مارتی ہیں اور اپنے مقصد کے حصول کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار رہتی ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی اور دوسری حکومت ختم کرانے میں کس نے سب سے بڑا کردار ادا کیا؟ ظاہر ہے اپوزیشن نے اور اس وقت کون سی پارٹی اپوزیشن میں تھی؟ نواز شریف کی پہلی دوسری اور تیسری حکومت ختم کرانے میں بھی اپوزیشن کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن جو پارٹیاں اپوزیشن میں مقتدرہ کے قریب ہونا چاہتی ہیں‘ اقتدار میں آتے ہی ان کے ریاستی اداروں کے ساتھ مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ ماضی کو بھول جائیں میثاقِ جمہوریت کو لے لیں کہ 2008ء میں جیسے ہی پی پی پی کو مرکز میں اور مسلم لیگ (ن) کو پنجاب میں اقتدار ملا تو بعض قوتوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے میاں نواز شریف نے میثاقِ جمہوریت کو فوراً طاق میں رکھ دیا‘ میمو گیٹ میں پوری شدومد کے ساتھ میدان میں اترے اور زرداری حکومت کی کمر توڑنے میں پورا کردار ادا کیا۔ عسکری قیادت کے ساتھ ملاقاتیں کرنے والے چوہدری نثار علی خان اور شہباز شریف نواز شریف کے دل سے قریب تصور کیے جاتے تھے۔ لیکن پھر کیا ہوا‘ وہ سب تاریخ ہے۔
ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا یہ سلسلہ اب بند ہونا چاہیے۔ تجربات کافی ہو چکے‘ اب کوئی ٹھوس اور مستقل پالیسی اختیار کی جانی چاہیے۔ جامع ورکنگ ریلیشن شپ قائم کی جانی چاہیے‘ تاکہ جمہوریت کی ریل اور ترقی کی گاڑی کو آگے بڑھایا جا سکے۔ حکومت اور قومی اداروں میں ہم آہنگی پیدا کرنے کا اقدام ہونا چاہیے اور یہ بھی ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں بھی ایک دوسرے کی  ٹانگیں کھینچنا بند کریں کیونکہ یہ عمل بھی سیاسی معاملات‘ امورِ مملکت اور جمہوری روایات کو خراب کرنے‘ انہیں نقصان پہنچانے کا باعث بنتا ہے۔ اپوزیشن کو حکومتی پالیسیوں اور اقدامات پر تنقید کرنی چاہیے‘ تاکہ انہیں بہتر‘ ملکی ضروریات اور عوام کی امنگوں کے مطابق بنایا جا سکے اور حکومت کو گرانے کے لیے ادھر ادھر سہارے تلاش نہیں کرنے چاہئیں کہ اس سے بھی سیاسی و جمہوری عمل کو نقصان پہنچتا ہے۔
آخر کیا وجوہات ہیں کہ ایک ہی ملک کی سیاسی اور غیر سیاسی قیادت بہتّر سال گزرنے کے باوجود مل کر کام کرنے میں ناکام ہے اور یہ معاملہ ختم ہونے کو نہیں آ رہا؟ اس دوران پاکستان دو لخت ہو چکا ہے اور مقبوضہ کشمیر پر دشمن مسلسل قبضے کو دوام بخشتا ہوا نظر آتا ہے۔ آرمی پبلک سکول پر حملے کے وقت‘ صلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے وقت‘ یمن جنگ کے موقع پر سعودی عرب فوج بھیجنے یا نہ بھیجنے کے معاملے پر اگر ساری قیادتیں ایک چھت تلے بیٹھ کر فیصلے کر سکتی ہیں تو پھر امورِ مملکت چلانے کیلئے یہ قیادتیں ایک چھت تلے بیٹھ کر رولز آف گیمز طے کیوں نہیں کر سکتیں؟ اگر پرانے رولز کسی فریق کو قبول نہیں ہیں تو اس بارے میں کھل کر بات کرنا چاہیے اور بند کمرے میں ایک دوسرے کی پیٹھ پیچھے کھینچا تانی کرنے کے بجائے اس پر اوپن بحث ہونی چاہیے۔ دنیا بھر میں ترقی پذیر ممالک سے ترقی یافتہ ممالک تک کوئی ایک ملک بھی ایسا نہیں ہو گا جہاں ایسے معاملات ہوتے ہوں گے‘ جیسے کہ ہمارے ہاں ہوتے ہیں۔
کیا صدر ٹرمپ اور پینٹاگون میں کبھی اختلافات نہیں ہوئے؟ کیا صدر اوبامہ اور پینٹاگون کے درمیان گوانتانامو بے بند کرنے کے بارے میں اختلافات نہیں تھے؟ کیا صدر اوبامہ نے پوری دنیا کے سامنے گوانتانامو بے بند کرنے کا اعلان نہیں کیا تھا؟ کیا الطاف حسین رنگے ہاتھوں پکڑا نہیں گیا تھا؟ کیا اس کی پاکستان حوالگی کے بارے میں برطانیہ کے مختلف اداروں میں اختلافات نہیں تھے؟ کیا ان ممالک کی قیادتوں نے کھلے عام باہم جھگڑے کئے یا پھر بیٹھ کر مسئلے حل کئے؟ اور تو اور پوری دنیا جانتی ہے کہ پلوامہ ڈرامے کے بعد پاکستان نے بھارت کو ذلیل و رسوا کیا اور دو جنگی طیارے مار گرائے‘ ایک پائلٹ زندہ پکڑا‘ ساری دنیا کے سامنے اسے واپس بھارت کے حوالے کیا‘ لیکن بھارت نے اس ذلت آمیز شکست کو بھی فتح کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی اور شکست کے ذمہ داروں کا تعین بند کمرے میں کیا۔
لیکن بد قسمتی کی بات ہے کہ ہمارے ہاں یہ سیاسی پختگی اور بالغ نظری پون صدی کے بعد بھی نہ آ سکی اور ہم برسر عام باہم دست و گریبان ہوتے ہیں اور ورکنگ ریلیشن شپ کی خرابی پر شادیانے بجائے جاتے ہیں‘ جس کے طعنے دشمن ملک بھی دیتا ہے کہ پاکستان میں بات کی جائے تو کس سے کی جائے۔ ہمارا کوئی وزیر اعظم اپنی آئینی مدت پوری نہ کر سکا اور حکومت سازی کے ایک سال بعد ہی اختلافات کی خبریں منظرعام پر آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اگر ہمارا قومی مفاد ایک ہے‘ قومی سلامتی ایک ہے‘ نظریہ ایک ہے تو پھر ہمارے ادارے مل کر کام کیوں نہیں کر سکتے۔ اگر دشمن ملک بھارت کی کشمیر پالیسی ایک ہو سکتی ہے تو ہماری کیوں نہیں؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved