وہ دن تو تاریخ پر گہری نظر رکھنے والوں کو یاد ہوں گے‘ جب مصر کے صدر انورالسادات اور اسرائیل کے وزیر اعظم مناچم بیگن نے گرم جوشی سے ہاتھ ملائے تھے اور عربوں اور اسرائیل کے مابین بات چیت کے ذریعے امن قائم کرنے کے معاملات کی ابتدا کی تھی۔ مصر کی قیادت نے نہ صرف مزاحمت کا راستہ ترک کیا بلکہ دیگر عرب ممالک اور اپنے عوام کی اکثریت کی رائے کے خلاف اپنا الو سیدھا کرنے کے لئے قومی یا یوں کہئے کہ شخصی خود غرضی کی ایک نئی مثال قائم کر دی تھی۔ اس کے خلاف رد عمل غیر متوقع نہ تھا۔ جہاں اکثریت کی رائے اور مشاورت کو نظر انداز کیا جاتا ہے‘ وہاں قتل و غارت ہی ہوتی ہے اور دلوں کا غبار نکالنے کے غیر انسانی اور غیر جمہوری رویے ہی پنپتے ہیں۔ مصر کی اشرافیہ‘ جو کبھی عرب ممالک کی قیادت کا دعویٰ کرتی تھی‘ یک طرفہ طور پر قومی مفاد کی دیوی کی پوجا پاٹھ میں اپنا الگ سے مندر تعمیر کر بیٹھی۔ اپنوں سے کٹے تو غیروں کے دربار میں عافیت پائی۔ مصر کی فوج‘ اس کی نوکر شاہی اور مغرب نواز معاشی طبقات یہی چاہتے تھے۔ کھوئے ہوئے علاقے بازیاب کرائے اور امریکی امداد پر گزر اوقات ابھی تک جاری ہے۔ اسرائیل کے قیام کے خلاف عربوں کی مزاحمت پر مصر کی طرف سے یہ اتنا بڑا خود کش حملہ تھا کہ پھر کبھی اجتماعی عرب مؤقف قائم نہ ہو سکا۔
انورالسادات اور ان کے جانشینوں کا مؤقف یہ تھا کہ اسرائیل کے خلاف اقدامات کر کے وہ کچھ حاصل نہیں کر سکتے تھے۔ جوہری ہتھیار حاصل کر لینے کے بعد‘ اسرائیل نا قابل تسخیر ہو چکا تھا۔ انیس سو تہتر کی جنگ میں مصر کا پلڑا میدانی جنگ میں اسرائیل کے خلاف تھا۔ مصر والے نہر سویز کو عبور کر کے بہت آگے اسرائیل کے خلاف پیش قدمی کر سکتے تھے مگر روک دئیے گئے۔ جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی آخری دھمکی کے علاوہ امریکہ نے خفیہ پیغام بھی ارسال کئے کہ وہ اسرائیل کی ہزیمت اور شکست خوردگی‘ جو بڑی تباہی پر منتج ہو سکتی تھی‘ کسی صورت برداشت نہیں کرے گا۔ مصر کا مقصد بھی اسرائیل کو فتح کرنا نہیں تھا بلکہ انیس سو چھیاسٹھ کی جنگ کا بدلہ لینا اور اپنی طاقت کا لوہا منوانا مقصود تھا۔ جب یہ مقصد پورا ہو گیا تو جنگ کو طول دینا اس لئے خطرے سے خالی نہ تھا کہ امریکی اسلحہ کی سپلائی اور مشاورتی کاوشوں سے پانسہ پلٹ سکنے کا قوی اندیشہ تھا۔ صورتحال مصر کے خلاف جا سکتی تھی۔ جنگ بندی کے بعد خفیہ مذاکرات کا عمل شروع ہوا۔ امریکہ کی ثالثی نے حسب معمول وہ رنگ دکھائے جو آج تک فرعونوں کی قدیم سر زمین میں ماند نہیں پڑے۔ وہاں گزشتہ ساٹھ سال سے فوج اقتدار پہ قابض ہے۔ آج بھی وہاں منصفانہ اور شفاف انتخابات ہوں تو اخوان المسلمون ہی جیتیں گے۔ مشرق وسطیٰ کا المیہ بالکل یہی ہے کہ ریاست پر قابض اشرافیہ نے فوج کے سہارے غیر جمہوری اقتدار میں خاندانی بادشاہتیں قائم کر رکھی ہیں۔ اس کے نتیجے میں وہاں جمہوری مسابقت کی ثقافت اور روایات قائم نہ ہو سکیں۔ زمینی سطح پہ مذہبی فلاحی تنظیمیں ہی سرگرم رہیں‘ جس کا سیاسی فائدہ اخوان کی قیادت کو ہوا۔
مصر اور اسرائیل کے معاہدے کے تقریباً چھ سال بعد یاسر عرفات نے بھی ہتھیار ڈال دیئے۔ مصر اور امریکہ نے مشترکہ کوششوں سے اسرائیل کے وزیر اعظم یزہاک رابن اور یاسر عرفات کے مابین تاریخی سمجھوتہ کرایا۔ اسی روایتی زیتونی رنگ کی وردی اور فلسطینیوں کا شناختی رومال سر پر لٹکائے یاسر عرفات نے اسرائیل کے وجود کو تسلیم کر لیا‘ مسلح جدوجہد سے توبہ کر لی اور غیر مرتب وعدوں پر اعتبار کرتے ہوئے دو ریاستوں کے منصوبے پر رضا مندی ظاہر کر دی۔ اوسلو میں کئی برس تک خفیہ مذاکرات امریکی اعانت سے جاری رہے تھے۔ اسرائیل نے فلسطینی ریاست کے وجود کو فوری تسلیم نہیں کیا بلکہ کئی برسوں تک کئی شرائط پوری ہونے تک صیغہ مستقبل میں رکھا۔ دریں اثنا وہ دریائے اردن کے مغربی علاقوں میں‘ جہاں فلسطینی ریاست قائم ہونا تھی‘ یہودی آباد کاروں کی بستیاں مسلسل تعمیر کرتا رہا۔ اب تک وہاں کئی ہزار ایسی آبادیاں قائم ہو چکی ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل فلسطینی ریاست کو اسی انداز میں قائم ہوتا دیکھ سکتے تھے‘ اور اب بھی ایسا ہی ہے کہ وہ اپنی فوج نہ رکھ سکے‘ اس کی پولیس موثر نہ ہو مگر جو بھی فلسطینی دھڑے اسرائیل کے خلاف مزاحمت کریں‘ ان کا قلع قمع فلسطینی حکومت ہی کرے۔ ابھی تک اسے حکومت نہیں بلکہ اتھارٹی ہی کہا جاتا ہے۔ اپنے وجود کے لئے اتھارٹی سلامتی کے معاملات میں اسرائیل سے تعاون کرنے کی پابند ہے۔ یاسر عرفات اور فلسطینی قوم پرست دھڑے‘ جو فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن میں شامل تھے‘ جب اپنے تاریخی موقف سے ہٹے تو ان کے اندر نئی دھڑے بندیوں کا پیدا ہونا فطری تھا۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ واقعی فلسطینیوں کی اکثریت ابھی تک ایک ریاست پر سیاسی اعتقاد رکھتی ہے‘ مگر یہی ان کا تاریخی موقف رہا ہے۔ اگر ہر ریاست میں کثیرالمذاہب معاشرے ہیں تو قدیم فلسطین میں ایسا کیوں ممکن نہیں؟ جواب سادہ سا ہے۔ اکثریت کے جمہوری اصول اور عوام کے اقتدار کے فلسفے کو مان لیا جائے تو دیگر ریاستوں سے راتوں رات جہازوں پر لائے جانے والے یہودی آباد کار اقلیت میں ہوں گے۔ عملی طور پر ان علاقوں میں وہی کیفیت ہے‘ جو سفید فام اقلیت نے جنوبی افریقہ میں قائم کر رکھی تھی۔
موجودہ عالمی نظام میں تو ویسے کئی تضادات ہیں‘ مگر فلسطینیوں کے بارے میں غالب مغربی طاقتوں کا موقف ان تمام علم گیر اقدار اور اصولوں کے عین برعکس ہے‘ جن کا پرچار وہ ترقی پذیر ممالک میں کرتی رہی ہیں۔ جمہوریت‘ برابری اور اکثریت کی حکمرانی ہر جگہ جائز مگر فلسطین میں نہیں۔ فلسطینیوں کی طرف سے یہ بڑی رعایت تھی کہ انہوں نے دو ریاستوں کے فارمولے کو تسلیم کیا اور یہ بھی کہ اسرائیل کے وجود کو ان سے اب کوئی خطرہ نہ ہو گا۔ اندرونی طور پر انہیں یہ باور کرایا گیا تھا کہ فلسطینی علاقے جغرافیائی طور پر مربوط ہوں گے‘ لیکن تین اہم معاملات مزید مذاکرات کی نذر کر دئیے گئے۔ یہ معاملات ہیں: فلسطینی مہاجرین کی اپنے گھروں کو واپسی اور اپنی املاک‘ جن پر اسرائیل قبضہ کر چکا ہے‘ کا واپس حصول‘ یروشلم میں ہی فلسطینی ریاست کا مرکز اور مغربی کنارے سے یہودی بستیوں کا خاتمہ۔ یاسر عرفات ان تین مطالبات پہ آخری دم تک ڈٹے رہے۔ آج بھی غالب تر فلسطینی آبادی کا موقف یہی ہے۔
عجیب منظر تھا کہ کیمروں کے سامنے سے دوسرا فریق غائب تھا اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیلی وزیر اعظم کو پہلو میں تھامے ''امن منصوبے‘‘ کا اعلان فرما رہے تھے۔ ان کا زور یہودی ریاست پر تھا کہ یہودیوں کے سوا کسی اور کو شہریت نہیں مل سکتی۔ مقصد واضح ہے کہ فلسطینیوں کا اپنی تاریخ‘ زمین‘ وطن اور ملک سے تعلق ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا جائے۔ مغربی کنارے میں یہودی بستیاں بھی قائم رہیں گی اور فلسطینی مہاجرین واپس آئیں تو انہیں فلسطینی ریاست کے علاقوں میں ہی جگہ دی جائے۔ اور پھر یہ کہ یروشلم اسرائیل کا غیر منقسم مرکزِ ریاست ہو گا۔ یہ سب اقوام متحدہ کے اصولوں کے خلاف ہے کیونکہ یہ علاقے جنگ کی صورت میں قبضے میں لئے گئے ہیں اور عالمی ادارے کی سب قراردادیں اس کے اس قبضے کے خلاف ہیں۔ نہ جانے یہ کیسا امن منصوبہ ہے اور کیسے فلسطینی اسے تسلیم کر سکتے ہیں۔ عرب اتحاد میں دراڑیں اب کوئی ڈھکی چھپی باتیں نہیں۔ تالیوں کی گونج میں عمان‘ عرب امارات اور بحرین کے نمائندوں کی موجودگی کا اعلان ہوا اور تباہ شدہ اردن کی تعریف۔ صدر ٹرمپ پُرجوش نظر آئے۔ جبر اور مزاحمت کا جدلیاتی ٹکرائو ایسے ہی بد امنی کے منصوبوں سے آبیار ہوتا ہے۔