تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     08-02-2020

سرخیاں ، متن، درستی اور دو غزلی

آٹا اور چینی چور وزیراعظم کی بغل میں بیٹھے ہیں: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''آٹا اور چینی چور وزیراعظم کی بغل میں بیٹھے ہیں‘‘ جبکہ ہم نے کسی بھی قسم کے چوروں کو کبھی اپنی بغل میں نہیں بیٹھنے دیا کیونکہ جو کام ہم خود کر سکتے ہیں اسے کرنے کے لیے دوسروں کو اپنی بغل میں کیوں بٹھاتے جبکہ ہم ان سے صرف بغلگیر ہوتے تھے کہ ہم پیشہ افراد کے مابین ایک ازلی اور ابدی رشتہ ہوتا ہے اور ہم رشتے نبھانا خوب جانتے ہیں، اسی لیے یہاں لندن میں اکٹھے ہونا چاہتے ہیں اور امید ہے کہ مریم کو بھی یہاں آنے کی اجازت مل جائے گی کیونکہ ایک عرصے سے حکومت کی انسانی ہمدردی خوب زوروں پر ہے جبکہ مریم کی انہیں واقعی بہت ضرورت ہے کیونکہ جب وہ پچاس پچاس ڈنٹ پیلتے ہیں اور سو سو بیٹھکیں لگاتے ہیں تو انہیں خدمت کی ضرورت پڑتی ہے اور مریم کے انتظار میں انہیں بھوک بھی زیادہ لگنے لگی ہے۔ آپ اگلے روز لندن میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
عمران خان مہنگائی مافیا سے جان نہیں چھڑا سکتے: قمر زمان کائرہ
پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ''عمران خان مہنگائی مافیا سے جان نہیں چھڑا سکتے‘‘ اور ہم ان کی مجبوری کو سمجھتے ہیں کہ وہ کوشش تو بہت کرتے ہیں مگر یہ ہمارے اور ن لیگ کے لگائے ہوئے پودے ہیں جو اب تناور درخت بن چکے ہیں اس لیے عمران خان کو ان کی چھائوں میں بیٹھ کر دنیا کی بے ثباتی پر غور کرنا چاہیے جو چند روزہ ہے اور صرف دنیا داروں کو راس آتی ہے‘ اس لیے ہمارے ساتھ اس کی گاڑھی چھنتی تھی اور جب بھی کوئی وقت پڑتا تھا تو ہم پتلی گلی سے نکل جایا کرتے تھے اور اسی لیے ہم نے پتلی گلیاں جگہ جگہ پر بنوا رکھی تھیں۔ تاہم احتساب ادارے کی نیّت کچھ اور ہی لگتی ہے جو ہمارے چیئر مین کے پیچھے بھی پڑ گئی ہے ‘حالانکہ زرداری صاحب اس کے لیے کافی ہونے چاہئیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
ریکارڈ کی درستی
آج م سین بٹ صاحب نے اپنے کالم میں ایک شعر اس طرح درج کیا ہے ؎
میں بارشوں میں بہت بھیگتا رہا عابدؔ
سلگتی دھوپ میں چھت بہت ضروری ہے
اس کا دوسرا مصرعہ ایک لفظ کے چھوٹ جانے سے بے وزن ہو گیا ہے، یہ اس طرح بھی ہو سکتا ہے ع
سلگتی دھوپ میں چھت بھی بہت ضروری ہے
اور، اب آخر میں یہ دو غزلی:
رہے گی یاد سیالی دھوپ
یہ میٹھی، متوالی دھوپ
ملی ہے اجنبیوں کی طرح
اپنی دیکھی بھالی دھوپ
گری کسی کی گٹھڑی سے
راہ میں پڑی اُٹھا لی دھوپ
اگلی سردیوں کی خاطر
تھوڑی بہت بچا لی دھوپ
بادل اوڑھنے سے پہلے
نیچے تُرت بچھا لی دھوپ
بہت ہمارے کام آئی
خالی اور خیالی دھوپ
اُس کے دھوپ خزانے سے
ملی ہے ایک پیالی دھوپ
ترلا منّت کر کے آج
رُوٹھی ہوئی منا لی دھوپ
جنّت سے بھیجی ہے، ظفرؔ
عاصیؔ نے کرنالی دھوپ
ایک ہاتھ کی تالی دھوپ
کیسی نئی نرالی دھوپ
ساتھ ساتھ ہی چلتے ہیں
روشن دن اور کالی دھوپ
مہکی ہے چاروں جانب
اُجلے پھولوں والی دھوپ
اپنا تمبو تانیں گے
کیا کر لے گی سالی دھوپ
اُن ہاتھوں کا سایہ چھائوں
اُن ہونٹوں کی لالی دھوپ
رستا ہی تھا ناہموار
گرتی ہوئی سنبھالی دھوپ
مئی جُون میں ہو گی خوار
یہ نازوں کی پالی دھوپ
مری میں قحط پڑا تو پھر
سِبّی سے منگوا لی دھوپ
اصلی چھائوں نہ ملی، ظفرؔ
پھیلی ہوئی ہے جعلی دھوپ
آج کا مقطع:
زباں کو سر پہ اٹھائے بھی ہم پھرے ہیں ، ظفر
سخن کیا ہے زباں پر سوار ہوکر بھی 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved