ہر دور میں انسان کی نفسی یا فکری ساخت سے ایک چیز تو بُری طرح چمٹی رہی ہے ... افلاس کا خوف۔ دوسروں سے پیچھے رہ جانے کا خوف انسان کو کسی بھی سطح تک گراسکتا ہے اور گراتا رہا ہے۔ افلاس کے چنگل میں پھنسنے سے بچنے کے لیے انسان وہ سب کچھ کر گزرتا ہے جو اُسے محض افلاس نہیں بلکہ مکمل معاشی‘ معاشرتی اور اخلاقی تباہی تک پہنچادیتا ہے۔
افلاس کا خوف بہت سے حوالوں سے پائے جانے والے خوف کا نتیجہ بھی ہے اور مجموعہ بھی۔ دنیا کے ہر انسان کو افلاس سے شدید خوف محسوس ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں بھی لوگ دوسروں سے پیچھے رہ جانے کے خوف میں مبتلا رہتے ہیں۔ یہ افلاس ہی کا خوف ہے۔ ہم بہت کوشش کریں تب بھی اس خوف کو فکری ساخت سے نکال نہیں سکتے۔ ہاں‘ اسے قابو میں رکھنے کی کوشش کی جاسکتی ہے اور لوگ ثابت کرتے رہے ہیں کہ افلاس کے خوف کو قابو میں کرنے کی کوشش کامیابی سے ہم کنار بھی ہوسکتی ہے۔
جرم کی طرف لے جانے والی ذہنیت یعنی جرم پسندی صرف اُس وقت پنپتی ہے جب افلاس کا خوف فکری ساخت کے تمام حصوں پر قابض و متصرف ہوچکا ہو۔ سوچ کی عمومی سطح پر رہتے ہوئے انسان سہل پسندی کا مرقع ہوتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ بہت سی تبدیلیاں بس یونہی‘ خود بخود واقع ہوجایا کریں۔ یہ سہل پسندی بہت سی خرابیوں کو جنم دیتی ہے۔ سب سے بڑی خرابی تو یہ ہے کہ انسان عمل پسند نہیں رہتا یعنی کسی بھی حوالے سے عملی سطح پر مؤثر یا مطلوب کردار ادا کرنے سے گریزاں رہتا ہے۔ یہ ایک خرابی پورے وجود کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔ جارج برنارڈ شا کا تجزیہ یہ ہے کہ جرم پسندی اور افلاس نفسی ساخت کا ''اٹوٹ انگ‘‘ ہیں یعنی انسان ان سے چھٹکارا پانے میں بہت مشکل سے کامیاب ہو پاتا ہے۔ شا کے بقول دنیا بھر میں ایسے معاشرے بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں جن میں ایک طرف جرم پسندی پروان چڑھتی رہتی ہے اور دوسری طرف افلاس کو گلے لگائے رہنے کی ذہنیت بھی پنپنے سے باز نہیں آتی۔ یہ بات بہت عجیب ہے کہ لوگ ایک طرف تو افلاس سے ڈرتے ہیں اور دوسری طرف اُس سے جان چھڑانے کے معاملے میں سنجیدہ بھی نہیں ہوتے۔ یہی وہ دو دھاری تلوار ہے جو معاشروں کو ذبح کرتی رہتی ہے۔
افلاس سے بچنا ہر دور کے انسان کا مسئلہ رہا ہے۔ عمومی سطح پر زندگی بسر کرنا گزرے ہوئے ادوار میں کچھ زیادہ دشوار یا پریشان کن نہ تھا۔ اس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ مجموعی طور پر سب کچھ تھما ہوا تھا۔ ایک طرف ترقی کی رفتار تھمی ہوئی تھی جس کے نتیجے میں ایجادات اور اختراعات کی گرم بازاری نہ تھی۔ یہ گرم بازاری نہ تھی تو لوگوں میں بہت کچھ پانے کے حوالے سے طمع کا گراف بھی بلند نہ ہوا تھا۔ دوسری طرف معیشت کا پہیہ بھی اندھا دھند نہیں گھومتا تھا‘ بلکہ سب کچھ ایک خاص حد میں رہا کرتا تھا۔ لوگ کمانے کے لیے مشین کا جُز نہیں بن جایا کرتے تھے۔ اس کے نتیجے میں زندگی خاصی تھمی ہوئی اور پرسکون ہوا کرتی تھی۔ اشیا اور خدمات کے مہنگے ہوتے جانے کی رفتار اتنی کم تھی کہ لوگوں کے لیے خاصی نچلی سطح پر زندگی بسر کرنا بھی دکھ کا باعث نہیں ہوا کرتا تھا۔ لوگ کم آمدن کے ساتھ بھی معقول حد تک پرسکون زندگی بسر کرنے میں کامیاب رہتے تھے۔ گھر میں دنیا بھر کی اشیا جمع کرنے کا شوق زیادہ پروان نہیں چڑھا تھا‘ کیونکہ بازار میں اشیا و خدمات کا غیر معمولی تنوع ناپید تھا۔ ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جس میں افلاس سے بھی بڑھ کر پایا جانے والا خوف ہے محروم رہ جانے کا۔ ہر شعبے میں غیر معمولی تکنیکی ترقی نے اشیا اور خدمات کا تنوع اس قدر بڑھادیا ہے کہ لوگوں کے لیے کسی ایک مقام پر رُک کر زندگی کا جائزہ لینا انتہائی دشوار ہوگیا ہے۔ آج کا انسان اپنے اطراف جو کچھ بھی دیکھ رہا ہے وہ سب کچھ اپنے گھر اور زندگی میں بھی دیکھنا چاہتا ہے۔ وسائل کو ذہن نشین رکھے بغیر سوچنے اور خواہش کرنے کی عادت پختہ ہوچکی ہے۔ یہ عادت انسان کو بہت سے معاملات میں اس قدر الجھا دیتی ہے کہ سلجھنے کی گنجائش گھٹتی چلی جاتی ہے۔ آج کا انسان شدید الجھن میں مبتلا ہے۔ وسائل کی بہرحال ایک حد ہے ‘مگر جو کچھ زندگی کو آسان بنانے کے لیے بازار میں دستیاب ہے اس کی کوئی حد مقرر نہیں۔ ایسے میں ہر انسان اپنے وجود پر غیر معمولی دباؤ محسوس کر رہا ہے۔ یہ بالکل فطری ہے‘ مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان ہار مان لے۔ بہت سے معاملات میں ہمیں فطری تقاضوں کے خلاف جانا پڑتا ہے۔ اور جانا ہی چاہیے۔ دل بہت کچھ مانگتا ہے۔ جو کچھ دل مانگے وہ سب کا سب پانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ ہر معاملے میں معقولیت کا دامن تھام کر چلنا ہی ہمارے انفرادی و اجتماعی مفادات کا تحفظ یقینی بنا سکتا ہے۔
پاکستانی معاشرے میں بدنظمی اور بدحواسی بڑھتی جارہی ہے۔ معاشی خرابیوں نے معاشرتی اور اخلاقی خرابیوں کو راہ دی ہے۔ کسی نہ کسی طور بہت کچھ پانے کی ذہنیت اس حد تک پروان چڑھ چکی ہے کہ اب اس سے چھٹکارا پانا آسان نہیں۔ لوگ ماحول میں یعنی اپنے اطراف جو کچھ بھی دیکھتے ہیں وہ سب کا سب پانے کی آرزو کرتے ہیں۔ یہ ذہنیت انتہائی خطرناک ہے کیونکہ جب ہمیں اپنے وسائل کے محدود ہونے کے باعث کچھ زیادہ مل نہیں پاتا تب ہم پر مایوسی طاری ہونے لگتی ہے۔ بہت کچھ ایسا ہے جو آج کے انسان سے برداشت نہیں ہو پاتا۔ وسائل کی حد کو زمینی حقیقت کی حیثیت سے قبول کرنے والوں کی کمی ہے۔ جب محدود وسائل کے باعث کچھ زیادہ پانے کی گنجائش پیدا نہیں ہوتی تب انسان جرم پسند ذہنیت کے دائرے
میں گھومنے لگتا ہے۔ اپنی صلاحیت اور سکت کی حد جاننے والوں کو خواہشات کی بھی ایک ایسی حد مقرر کرنی چاہیے جو بھرپور مطابقت رکھتی ہو۔ ایسا کرنا ہی انسان کو فکری اعتبار سے متوازن رکھتا ہے اور وہ معقولیت کے دائرے میں رہنے کو ترجیح دیتے ہوئے جرم پسندی کی طرف بڑھنے سے گریز کرتا ہے۔
تکنیکی ترقی نے بازار طرح طرح کی مصنوعات سے بھر دیئے ہیں مگر انسان کے دل و دماغ کا کھوکھلا پن بڑھ گیا ہے۔ آج سوچنے کی عادت پروان چڑھانے اور فلسفے میں دلچسپی لینے والوں کی تعداد خاصی گھٹ گئی ہے۔ اس حوالے سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ آج کے انسان کو سوچ بچار کی زیادہ ضرورت ہے۔ فلسفے میں غیر معمولی دلچسپی لینے کی صورت میں فکری ساخت کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ لوگ تکنیکی معاملات میں تو مشاورت پسند کرتے ہیں مگر زندگی ڈھنگ سے بسر کرنے کے حوالے سے مشاورت کی اہمیت زیادہ محسوس نہیں کرتے۔ اس حوالے سے سوچ کا بدلا جانا لازم ہے۔ ڈھنگ سے زندگی بسر کرنے کے لیے وسائل کی حدود میں رہنا اب ناگزیر ٹھہرا ہے۔ ہر معاملے میں شدید محرومی محسوس کرنا دل و دماغ کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ متوازن فکر کو پروان چڑھانے ہی سے جرم پسند ذہنیت کو شکست دینے میں مدد ملتی ہے۔ قناعت پسندی اور دستیاب وسائل سے کماحقہ مستفید ہونے کی ذہنیت افلاس سے خوف کھانے کے رجحان کو بھی کمزور کرتی ہے اور انسان ڈھنگ سے جینے کے قابل ہو پاتا ہے۔