تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     09-02-2020

ترک ‘امریکا تعلقات

امریکی قانون ساز اس وقت ترکی اور روس کا مقابلہ کرنے کے لیے بحر متوسط کے علاقے میں نئے قوانین کا سہارا لینے کی تگ و دو میں ہیں‘ تا کہ اسرائیل‘ یونان اور قبرص جیسے امریکا کے حلیف ممالک کی حمایت کی جاسکے۔ترکی اور امریکا کے مابین اعتماد کا فقدان ہمیشہ ہی رہا ہے۔ ماضی میں جس کا نقصان دونوں اٹھا چکے ہیں تاہم امسال توقع کی جارہی ہے کہ اس تنازعے پر باہمی اعتماد پہلے کی نسبت جلد بحال ہوجائے گا۔
مبصرین کے بقول ‘نجانے کیوںاس بار زیادہ وقت لگ رہا ہے‘ جس کے نتیجے میں چند امور تعلقات کی ہر جہت مفلوج ہو رہی ہے ۔شام‘ روسی تعلقات اور ایف ای ٹی کے معاملات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ۔ گزشتہ سال FETO (گولن موومنٹ)سے متعلق ترکی کی شکایات کے بارے میں خبریں زیر گردش رہیں‘ لیکن وہ معاملہ اب بھی کمرے میں بند بڑے ہاتھی کی طرح موجود ہے‘جو نظر تو نہیں آتا‘ مگر کسی بھی وقت بڑے ایڈونچر کے لیے خوفزدہ کیے رکھتا ہے۔ ترکی کے حکمران طبقے نے شاید امریکا میں مقیم ایف ای ٹی او کے رہنما فت اللہ گلن کی حوالگی حاصل کرنے سے امید ختم کردی ہے۔حوالگی کے حوالے سے کئی قانونی پیچیدگیاں موجود ہیں‘لیکن یہ حقیقت ہے کہ امریکا میں موجود FETO اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے‘ جو ان دونوں حکومتی حلیفوں کے اعتماد کی بحالی کو روکنے کے لیے کلیدی عامل کی حیثیت رکھتی ہے۔
امریکا میں ایف ای ٹی او کی ترکی مخالف سرگرمیوں کے تسلسل سے حکمران طبقے کے لوگوں کے اس عقیدے کو تقویت ملی ہے ۔ ''ایک ایسی دہشت گرد تنظیم ‘جس نے جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی حکومت کو گرانے کی کوشش کی اور اپنے رہنما رجب طیب اردوان کو مارنے کی منصوبہ بندی کی تھی‘‘ اسے جامع منصوبہ بندی سے تحفظ فراہم کیا جارہا ہے۔ امریکی انتظامیہ کے ذریعہ ترکی کی پارلیمنٹ اور دیگر اداروں پر بم گرائے جانے والے ایف 16 طیاروں کی یادیں‘ روس کے ساتھ ترکی کے تعلقات دنیا کی نظر میں ہیں۔انقرہ ‘واشنگٹن اورماسکو مثلث میں تعلقات کا تجزیہ کریں توتصویر مزید واضح ہو جائے گی اور یقین بھی ہو جائے گا کہ کس طرح امریکا کے رہائشی عالم دین کے ذریعہ بغاوت کی کوشش کی گئی تھی اور روس کے فوری اظہارِ یکجہتی کے خلاف واشنگٹن کا ردعمل کتناسست تھا‘تاہم روسی رد عمل وقت کی مناسبت سے فوری طور پر آیا۔ روسی ایس -400 اینٹی بیلسٹک میزائلوں کی خریداری پر بھی واشنگٹن نے ترکی کو نئی نسل کے طیارے ایف 35 کے مشترکہ تیاری جاری رکھنے پر پابندیوں کی دھمکی دی تھی۔ان تمام معاملات کو پس پشت نہیں ڈالا جا سکتا۔ان طیاروں کی فراہمی گزشتہ موسم گرما میں ہوئی تھی ۔ اب‘ غیر یقینی طور پرامریکا تعلقات کو ہائی جیک کرنیکی کوشش میں ہے‘ جس میں واشنگٹن توقع کررہاہے کہ انقرہ ماضی کو بھول کر سمجھوتہ کرلے ۔
دوسرا مسئلہ تعلقات مفلوج ہونے کا ہے۔اب بھی ترکی ‘امریکا سے امید لگائے ہوئے ہے کہ وہ شام کے حوالے سے ان کی مدد کرے۔ شمال مشرقی شام میں وائی پی جی کو اپنا کلیدی حلیف کے طور پر دیکھنے کے لیے امریکی انٹیلی جنس اور فوج کے اکائیوں کا اصرار‘ ترکی کے نقطہ نظر سے اعتماد کے ضیاع کو بڑھا دیتا ہے ۔ترکی اپنے وجودی دشمن اور اس کے دیرینہ حلیف کی حیثیت سے جو کچھ دیکھ رہا ہے۔ اس دلیل کے ساتھ وائی پی جی کو بھاری اسلحے کی منتقلی اور قریبی تعاون نے انقرہ میں جلن کو بڑھا وا دیا‘تاہم شمال مشرقی شام میں ترکی کے فوجی آپریشن سے امریکی صدر ٹرمپ کو امریکی فوجیوں کو علاقے سے نکالنے پر راضی کرنے میں
مدد ملی ہے۔ یہ فیصلہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کی سخت مزاحمت کے باوجود عمل میں لایا گیا ۔یہ حقیقت ہے کہ جب تک امریکا ترک مخالف افواج کے مابین تعاون جاری رکھے گا‘ترکی کے ساتھ شام سمیت تعلقات کے دوسرے پہلوؤں کو مفلوج کرتا رہے گا۔
عالمی میڈیا کی خبروں سے ہمیں یہ تاثر ملتا ہے کہ امریکا ا ور ترکی تعلقات میں استحکام پیدا ہوا ہے ۔ٹرمپ اور اردوان کے مابین ہونے والی بات چیت تعلقات کی اصل قوت بتائی جاتی ہے۔ایسی منظر کشی کی جاتی ہے کہ ٹرمپ نے شام کے تمام معاملات ترکی کے حوالے کردئیے ہیں ۔ حالیہ اطلاعات سے پتا چلتا ہے کہ انہوں نے ہلک بینک کیس میں بھی ترکی کے حق میں فیصلہ سنایا۔ توقع کی جارہی ہے کہ ترکی کے سرکاری ملکیت بینک پر ایران کی طرف سے پابندی عائد کرنے کے الزامات پر امریکی عدالتوں کو جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ان تمام معاملات کو دیکھتے ہوئے امید کی جارہی تھی کہ شاید اردوان مسئلہ فلسطین کے حوالے 
سے نرمی کا اظہار کریں‘مگر اپنے موقف پر ڈٹے رہنے اور تقریر نے صورت ِ حال یکسر تبدیل کردی ہے۔ٹرمپ اسرائیل کے حامی صدر ہیں اور ترکی سب سے زیادہ فلسطین کی حمایت کرتا ہے۔ ٹرمپ کے نام نہادشرق ِاوسط کے امن منصوبے کے خلاف سخت ردعمل کی جو توقع تھی ‘عین اسی طرح کا رد عمل سامنے آیا۔ 2018ء میں امریکی سفارت خانہ یروشلم منتقل کیا گیاتوسب سے پہلے ترکی نے تل ابیب سے اپنا سفیر واپس بلا یا تھا۔ اس وقت ترکی نے واشنگٹن کے سفیر کو بھی مشاورت کے لیے واپس بلایا تھا۔ ایسے اقدام سے حیرت نہیں ہوئی تھی ‘کیونکہ یہ رد عمل یقینی تھا۔ بہرحال‘ جب مئی میں امریکا نے اپنا سفارتخانہ منتقل کیا تو ترکی جون 2018ء کے صدارتی اور عام انتخابات سے ایک مہینہ دور تھا۔دور حاضر میں ترکی میں انتخابات کافی دورہیں اور ترکی کی طرف سے ''یروشلم ہماری سرخ لکیر‘‘جیسے سرکاری بیان بازی کے باوجود‘ بہت ساری دیگر اہم علاقائی سرخ لکیریں موجود ہیں۔امریکا توقع رکھتا ہے کہ علاقائی دبائو اور تعلقات کے استحکام کے ساتھ ترکی کا اعتماد جیتا جائے‘تاہم قبل از وقت کچھ کہا نہیں جاسکتا‘ لیکن دونوں ممالک کے درمیان برف ضرور پگھلی ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved