تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     09-02-2020

تبدیلی حکومت اور سسکتے عوام

وفاقی وزارت داخلہ نے قومی اسمبلی میں جرائم پر ایک رپورٹ پیش کی ہے‘ جس کے مطابق ملک بھر میں مجموعی طور پر 7 لاکھ 77 ہزار 251 جرائم کے واقعات ریکارڈ ہوئے۔ پنجاب 4 لاکھ 90 ہزار جرائم کے واقعات کے ساتھ پہلے جبکہ خیبر پختونخوا ایک لاکھ 78 ہزار جرائم کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہا۔
یہ رپورٹ پڑھ کر میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ کیا حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں کامیاب نظر آتی ہے؟ کسی بھی حکومت کی کامیابی اور ناکامی ماپنے کے کئی پیمانے مقرر ہیں۔ کہیں ملک کی جی ڈی پی دیکھی جاتی ہے، کہیں شہریوں کا طرز زندگی دیکھا جاتا ہے۔ میرے نزدیک حکومت کی بنیادی ذمہ داری شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ حکومتوں کی تشکیل کی پہلی وجہ ہی یہ تھی کہ شہریوں کو ایک دوسرے سے اور غیر ملکی دشمنوں سے تحفظ فراہم کیا جائے۔ دنیا میں آج کئی ملک صرف اس وجہ سے خانہ جنگی کا شکار ہیں کہ ان کی حکومتیں عوام کو ایک دوسرے سے تحفظ فراہم نہیں کر سکیں۔ اگر منتخب حکومتیں عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو جائیں تو پھر عوام جابر اور جنونی حکومتیں قبول کرنے کو بھی تیار ہو جاتے ہیں جس کی مثال شام میں دہشت گرد گروہ داعش کی حکمرانی کی ہے جس کا اب خاتمہ ہو چکا۔
حکومتوں کو عوام کے تحفظ کے لیے فنڈز درکار ہوتے ہیں جو ٹیکسوں کی صورت میں وصول کئے جاتے ہیں۔ ان فنڈز سے سکیورٹی فورسز کو تربیت دی جاتی ہے، اسلحہ فراہم کیا جاتا ہے، جیلیں بنائی جاتی ہیں، اور قانون کے نفاذ کے لیے افسر اور عملہ‘ دونوں مقرر کئے جاتے ہیں۔ حکومت تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کی ضروریات پوری کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہے، یہ ضروریات اشیا کی صورت میں بھی ہو سکتی ہیں اور خدمات کی صورت میں بھی، اور ان ضروریات کو عوام کے لئے حکومت کے بغیر حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ان ضروریات میں انسانی رابطوں کے لیے سفری سہولتیں اور سڑکیں، پل، بندرگاہیں شامل ہیں جبکہ آج ٹیکنالوجی اور مواصلات کے نئے دور میں براڈ بینڈ بھی ان ضروریات میں سے ایک ہے۔ ان ضروریات کی فراہمی کے لیے بھی فنڈز درکار ہوتے ہیں۔ ان سڑکوں، بندرگاہوں کی تعمیر کے بعد ٹیکس نافذ کر کے بھی فنڈز لیے جاتے ہیں۔ ان کاموں کو نجی کمپنیاں بھی انجام دیتی ہیں اور دے سکتی ہیں لیکن عوامی مفاد کے لیے ان منصوبوں پر حکومتی کنٹرول ضروری ہوتا ہے۔
عوامی ضروریات پوری کرنے میں سب سے اہم اور مہنگا تصور حکومت کی سماجی بہبود کی ذمہ داریاں ہیں۔ ان سماجی ذمہ داریوں میں نوجوانوں کو روزگار کے مواقع کی فراہمی، بوڑھوں اور معذوروں کے لیے مالی مدد کا اہتمام کرنا بھی شامل ہے۔ ایسے ماحول‘ جس میں عوام سماجی اور اقتصادی طور پر ترقی کر سکیں، کی فراہمی بھی حکومتوں کی بنیادی ذمہ داری ہے۔
حکومت کی کامیابی یا ناکامی کے اس پیمانے پر اگر موجودہ حکومت کو دیکھا جائے قومی اسمبلی میں پیش کی گئی حکومت کی اپنی رپورٹ حکومت کی پہلی ذمہ داری کے حوالے سے اس کی کارکردگی کا خود پول کھول رہی ہے۔ اگر کوئی یہ کہہ کر وفاقی حکومت کا دفاع کرنا چاہے کہ امن و امان 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کی ذمہ داری ہے تو اسے یاد رکھنا ہو گا کہ جن دو صوبوں نے جرائم میں پہلی دو پوزیشنیں حاصل کی ہیں‘ ان دونوں میں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ اسی رپورٹ میں ایک اور اقرار کیا گیا ہے کہ پشاور 38926 جرائم کے ساتھ پہلے نمبر پر رہا۔ پشاور دوسری بار تحریک انصاف کی حکومت کو بھگت رہا ہے۔
پولیس کی خوبیاں، خامیاں اس وقت موضوعِ بحث نہیں، بلکہ اس حکومت کی کارکردگی کا تین بنیادی ذمہ داریوں کے حوالے سے جائزہ لینے کی کوشش کر رہا ہوں۔ دوسری اہم ذمہ داری امن قائم رکھنے اور عوامی ضروریات پوری کرنے کے لیے ٹیکس وصولی ہے۔ ٹیکس وصولیوں کا حال یہ ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف کے دباؤ پر ٹیکسوں کا ہدف پینتالیس فیصد بڑھایا اور ایک غیر حقیقی ہدف طے کیا، حکومتوں کی آمدن ٹیکسز ہی ہوتے ہیں۔ اسی آمدن کے تخمینے پر حکومتیں ترقیاتی منصوبے بناتی ہیں اور عوامی بہبود کے منصوبوں کا اعلان کرتی ہیں۔ مالی سال ختم ہونے میں صرف چار ماہ باقی ہیں اور خبریں یہ ہیں کہ ترقیاتی منصوبوں کے لیے مختص کی گئی رقم کا نصف بھی خرچ نہیں ہو پایا، اصل خبر یہ ہے کہ خزانے میں رقم ہی موجود نہیں تو خرچ کیسے کی جائے؟۔
جب ترقیاتی کاموں کے لیے رقم موجود نہیں تو حکومت سفری سہولتوں کے لیے کچھ کرے گی نہ دیگر جدید مواصلاتی رابطوں کے لیے کچھ ہو پائے گا۔ سفری سہولتوں کے لیے کچھ کرنے کا عزم اور رقم موجود ہو‘ تب بھی اس حکومت کی نا تجربہ کاری اور کمزور ٹیم اس کا حشر پشاور کے بی آر ٹی منصوبے جیسا ہی کرے گی۔ جدید مواصلاتی رابطوں کی حالت یہ ہے کہ دنیا فائیو جی اپنا رہی ہے اور ہمارے ملک میں فور جی کی سہولت بھی مکمل میسر نہیں۔ اقوام متحدہ نے حال ہی میں انٹرنیٹ کو بنیادی انسانی حقوق کا جزو قرار دیا ہے۔
ضروریات پوری کرنے کا حال یہ ہے کہ پہلے آٹا مارکیٹ سے غائب ہوا اور پھر دام بڑھا کر مارکیٹ کر دیا گیا۔ عوام سے کہا جا رہا ہے کہ وہ شکر ادا کریں آٹا میسر ہے اور حکومت کی شکر گزاری بجا لائیں۔ آٹے کے بعد چینی اور دیگر اشیائے ضروریہ کا بھی کچھ ایسا ہی انجام نظر آتا ہے اور حکومت کے وزیر با تدبیر کے پاس اس کے انوکھے حل ہوتے ہیں جیسے پشاور میں آٹا مہنگا ہونے پر روٹی کی پرانی قیمت بحال رکھنے کا فارمولہ یہ طے پایا کہ نانبائی روٹی کا وزن کم کر لیں اور عوام سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ داد و تحسین کے ڈونگرے برسائیں۔
نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع تو کیا مہیا ہوتے، پہلے سے برسر روزگار نوجوان بھی سڑکوں پر ہیں اور جو ملازمت پر برقرار ہیں‘ انہیں ان کے آجروں کی طرف سے کمزور مالی حالات کی آڑ میں روزانہ روزگار ختم ہونے کی دھمکی آمیز تنبیہ سننا پڑتی ہے۔ بوڑھوں اور معذوروں کی مالی مدد کے لیے بیت المال ضیاء الحق دور سے ایک ذریعہ ہے، اس کے بعد آنے والی حکومتوں نے اس رقم کو نئے نئے ناموں کے ساتھ غریبوں پر احسان کے لیے استعمال کیا۔ اس حکومت نے اس عشروں پرانے بندوبست کو 'احساس پروگرام‘ کا نام دیا ہے لیکن اس پروگرام کے تحت غریبوں کو جو کارڈ مہیا کئے گئے ہیں، ان سے رقم نکلوانے کے لیے چند ٹھیکے داروں کو مشینیں دی گئی ہیں، وہ ٹھیکے دار حکومت سے جو رقم لیتے ہیں وہ الگ‘ اور غریبوں کے وظیفے میں جو کٹوتی ہے وہ الگ، اب یہ احساس ہے تو اللہ بھلا کرے ان احساس کرنے والوں کا۔
ستر سال سے ملک کے عوام کو سول و غیر سول حکومتوں نے ہر بحران میں ایک ہی جواب دیا، ملک نازک دور سے گزر رہا ہے، پہلے پہل تو یہ جواب عوام سے ایک مذاق لگتا تھا لیکن اب انداز حکمرانی اور حکومت کی کارکردگی دیکھ کر لگتا ہے ملک واقعی ہی نازک دور سے گزر رہا ہے۔ اگر حالات کو سدھارنے کے لیے فوری کوئی ایکشن نہ لیا گیا تو ملک کی بدحال ہوتی معیشت اس قدر تباہ ہو جائے گی کہ عوام کو برسوں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ 
خبر ہے یا افواہ، یہ تو رپورٹ کرنے والا بہتر بتا سکتا ہے کہ لیکن ایک میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ طاقت ور حلقوں نے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے ملکی معاشی صورت حال پر مشاورت کی۔ اسحاق ڈار نے ان طاقت وروں کے نمائندوں کو جواب دیا کہ 2013 میں جب مسلم لیگ ن کی حکومت آئی تھی تو معاشی صورت حال کو درست سمت پر گامزن کرنے میں 2 سے 3 سال لگے تھے۔ عمران خان کی حکومت نے ملک کو جس قسم کے معاشی بحران میں مبتلا کر دیا ہے اس سے نکلنے کے لئے 8 سے 10 سال لگیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved