انصاف سرکار میں ' اتحادیوں ‘اور‘ فسادیوں‘ کے چرچے عام ہیں ‘جبکہ چوہدری شجاعت حسین نے وزیراعظم کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں پر اعتماد اور فسادیوں سے اجتناب کریں۔چوہدری شجاعت حسین کا کہنا ہے کہ یہ وہی فسادی ہیں جنہوں نے ہر دور میں نفرت اور انتشار کی سیاست کی ہے ۔چوہدری شجاعت کا مشورہ انتہائی کارآمد نسخہ ہے‘ جسے سمجھنے والے سمجھ گئے ‘جو نہ سمجھے وہ اناڑی۔انصاف سرکار کو فسادیوں سے خطرہ ہے‘ نہ اتحادیوں سے‘ اسے اصل خطرہ ان کھلاڑیوں سے ہے جو نو بال پر نو بال کروائے چلے جارہے ہیں‘ جن کی کوئی ''لائن ہے اور نہ ہی کوئی لینتھ‘‘۔ایسے کھلاڑیوں سے اچھے کھیل کی توقع ایسے ہی ہے کہ کوئی چارا بو کر کپاس اُگنے کی امید لگا کر بیٹھ جائے۔ انہی کھلاڑیوں کی '' پرفارمنس‘‘کی وجہ سے اپوزیشن اپنی ساری وکٹیں کامیابی سے بچائے بیٹھی ہے۔مزے کی بات یہ کہ کھلاڑی نو بال اور وائڈ بال پر بھی ایسے اُچھلتے کودتے ہیں کہ گویا کلین بولڈ کردیا ہو...خیر عمران خان صاحب کے کھلاڑی جانیں اور ان سے لگائی جانے والی امیدیں ...یہ میچ کہیں تو اپنے منطقی انجام کو پہنچے گا۔
کیا حلیف کیا حریف‘کیا وزیر کیا مشیر‘کیا اپنے کیا پرائے‘سبھی خدشات اور تحفظات میں گھرے نظر آتے ہیں ‘بلکہ اکثر اپنوں کے تحفظات اور گلے شکوے اختلافات کی صورت اختیار کرتے نظر آتے ہیں۔شیخ رشید کے بدلتے رجحانات ''سیاسی موسمیات‘‘ پر واضح نظر آرہے ہیں۔ تحفظات سے اختلافات تک‘ یہ سفر انتہائی مختصر اور ''ریکارڈ‘‘ مدت میں پورا ہوا ہے‘ جبکہ اس میں مزید شدت کی توقع بھی کی جا رہی ہے۔ شیخ رشید کے اس طرزِ عمل کو ایک اہم غیرمعمولی پیش رفت کے تناظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ دور کی کوڑی لانے والے یہ بھی کہتے نظر آتے ہیں کہ شیخ رشید بحرِ سیاسیات میں کشتی کے پہلے ہچکولے پر ہی سامان اتارنا شروع کر دیتے ہیں اور کشتی کے بھنور میں پہنچنے تک وہ اپنا کافی سامان ہلکا کر چکے ہوتے ہیں۔ ریکارڈ اور ماضی گواہ ہے کہ وہ کشتی کے ڈوبنے سے پہلے ہی اپنی سمت اور منزل تبدیل کرکے دوسری کشتی پر سوار ہو جاتے ہیں‘ جس کی ان کے پاس اپنے تئیں بے شمار توجیہات اور جواز موجود ہوتے ہیں۔شیخ رشید نے اخلاقی اور سیاسی بوجھ ہلکا کرنا شروع کردیا ہے اور اب‘ وہ حکومتی فیصلوں پر تنقید کے ساتھ ساتھ تنبیہ بھی کرتے دکھائی دے رہے ہیں‘جبکہ فواد چوہدری بھی پنجاب کے کپتان اور وزیراعظم کے وسیم اکرم پلس کی مایوس کن کارکردگی پر کئی بار انہیں آڑے ہاتھوں لے چکے ہیں۔
کیا یہ طرزِ حکومت اور سیاستدان ڈلیور کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں یا انہیں کام نہیں کرنے دیا جا رہا؟ یہ بحث زور پکڑتی جا رہی ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ان سوالات کی شدت اور تقویت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ایسے میں پارلیمنٹ اور اس کی کارکردگی پر بھی کئی کڑے سوال کھڑے ہو چکے ہیں۔ سرکاری خرچ پر اسمبلی اجلاس کیلئے گھر سے نکلنے والے رکن اسمبلی کا اپنا میٹر گاڑی سٹارٹ ہوتے ہی ڈاؤن ہو جاتا ہے۔ پھر اجلاس میں شرکت سے لے کر کھانے اور نہانے تک جتنے دن بھی وہ قیام کرے سارا بوجھ حکومتی خزانے پر ہی ہوتا ہے۔ اس کے بدلے آج تک عوام کو کیا دیا گیا؟ اس کا جواب پارلیمنٹ کے کسی بھی اجلاس کا منظرنامہ دیکھ کر بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ ماسوائے قانون سازی اور مفادِ عامہ کے وہ سب کچھ ہوتا ہے‘ جسے دیکھ کر ہر پاکستانی جلتا ہے‘ کڑھتا ہے‘ اور شرمسار بھی ہوتا ہے کہ کیا اسی لیے اس نے ووٹ دیا تھا کہ اس کے نمائندے اپنے ذاتی مفادات‘ استحقاق کے تحفظ کے لیے ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالیں اور دست و گریباں ہونے سے بھی گریز نہ کریں۔ مزے کی بات یہ کہ مشترکہ مفادات کو جہاں خطرہ لاحق ہوا‘ وہاں یہ سب آن کی آن میں اکٹھے اور یکجا نظر آتے ہیں۔ کیا حلیف‘ کیا حریف‘ سبھی مفادات کے جھنڈے تلے کھڑے نظر آتے ہیں‘ اور ان حالات میں قوم کا غم ایسے بھسم ہوجاتا ہے جیسے سوکھی لکڑی بھڑکتی ہوئی آگ میں۔
آئین اور ضابطے عوام اور مملکت کی سہولت اور آسانیوں کے لیے بنائے جاتے ہیں‘ اور جب آئین کی کتاب کو حکمران الٹی تسبیح کی طرح پڑھنا شروع کرتے ہیں تو یہی آئین اور ضابطے ثواب کے بجائے عذاب کا منظر پیش کرنے لگتے ہیں۔ بدقسمتی سے ملک و ملت کی پاسداری و خدمت کا حلف اٹھانے والے ہی اس کی بربادی اور بدحالی کے ذمہ دار دکھائی دیتے ہیں۔دور کی کوڑی لانے والوں کا کہنا ہے کہ عوام سے طرزِ تغافل برتنے والے سیاستدانوں سے چھٹکارا طرزِ حکومت کی تبدیلی سے ہی ممکن ہے۔ وہ یہ بھی برملا کہتے نظر آتے ہیں کہ چارج شیٹ آنے کو ہے۔ بد عہدی کا طویل عہد اپنے انجام کو پہنچنے والا ہے۔
لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے دعوؤں سے لے کر سابق حکمرانوں سے ریکوریوں کے بلند بانگ دعوؤں تک شو رمچانے کے باوجود نہ تو لوٹی ہوئی دولت واپس آئی اور نہ ہی سابق حکمرانوں سے ٹکے کی ریکوری ہوئی‘ الٹا نواز شریف کو باہر بھیجو انا پڑا‘ جبکہ دیگر اسیر بھی ایک سے بڑھ کر ایک ''دودھ کا دُھلا‘‘دکھائی دیتا ہے اور انصاف سرکار کے ان سارے دعووں اور وعدوں کی نفی ہوتی نظر آ تی ہے جو اس کے عہدے داروں نے کنٹینر پر کھڑے ہو کر اس ملک کے عوام کے ساتھ کیے تھے۔ اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان شخصیات کے قریبی رفقا کے حوالے سے بھی کڑے سوالات کھڑے ہو چکے ہیں۔ ان کی اہلیت سے لے کر کارکردگی تک اور انتظامی معاملات سے لے کر مالی معاملات تک سبھی معاملات انصاف سرکار کے لیے سوالیہ نشان بنے ہوئے ہیں۔ اگر یہ سب بچ گئے تو پھر کچھ بھی نہیں بچے گا‘ نہ یہ نظام رہے گا اور نہ ہی نظام چلانے والے کیونکہ جس معاشرے میں سب کچھ چلتا ہے وہاں پھر کچھ نہیں چلتا۔ روٹی‘ کپڑا اور مکان سے لے کرقرض اُتارو ملک سنوارو سکیم تک سارے مزے عوام چکھ چکے ہیں‘البتہ ڈیم فنڈ‘ سماجی انصاف اور کڑے احتساب کے حشر نشر کے بعدنتائج بھی آنا شروع ہوگئے ہیں۔
ابھی کالم یہیں تک پہنچا تھا کہ ٹی وی پر چلنے والی ایک خبر نے سارا موڈ اور کالم برباد ہی کرڈالا اور قلم کا دھارا اس دلخراش خبر کی طرف موڑنا پڑا ۔ کراچی کے سرجانی ٹائون میں ایک اور چھ سالہ بچی کو آوارہ کتوں نے بھنبھوڑ ڈالا ۔ کراچی اور اندرون سندھ میں کتا گردی کے واقعات رکنے میں نہیں آرہے ۔ گزشتہ روز آوارہ کتوں کا شکار بننے والے شہریوں کے اڑتالیس کیس رپورٹ ہوئے ‘ جبکہ غیر رپورٹ شدہ کیسز کے بارے میں رب جانے یا وہ خود جانیں جن پہ یہ قیامت ٹوٹی ہوگی۔انتہائی تشویش کا مقام ہے کہ کراچی کے بعد اب لاہور میں بھی کتوں کے کاٹنے کے درجنوں واقعات رپورٹ ہونے کے باوجود متعلقہ ادارے کتوں کے خلاف مہم پر آمادہ نظر آتے ہیں۔اس کے علاوہ غلاظت اور گندگی سمیت ٹوٹی پھوٹی‘ اندھیرے میں ڈوبی سڑکیں بھی لاہوریوں کا مقدر بنتی چلی جارہی ہیں‘جس پر نہ کسی ادارے کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہے اور نہ ہی کسی عوامی نمائندے کو پروا۔کراچی کے عوام ان حالات سے گزر چکے ہیں۔ سیاسی تعصب‘ حکمرانوں کی بد نیتی اور غیر سنجیدہ رویے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کو پہلے ہی برباد کر چکے ہیں۔ خدارا یہ پالیسیاں اور تعصبات ترک کریں اور عوام سے کیے ہوئے وعدوں اور دعووں کا کچھ تو پاس کریں۔اگر یہ صورتحال چند ماہ اور جاری رہی تو عین ممکن ہے کہ شہر کی سڑکیں‘ فٹ پاتھ اور گلیاں ٹوٹ پھوٹ کے بعد خستہ حالی کا منظر پیش کرنے لگیں اور جا بجا مٹی اور کوڑے کے ڈھیر نظر آئیں۔