تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     10-02-2020

سرخیاں‘متن ’’اجراء‘‘یوسفی نمبراور ابرارؔ احمد کی نظم

مہنگائی میں کمی کیلئے ہر حد تک جائیں گے: وزیر اعظم عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''مہنگائی میں کمی کیلئے ہر حد تک جائیں گے‘‘ لیکن دیکھ رہے ہیں کہ مہنگائی پہلے اپنی ساری حدیں عبور کرے اور اسی لیے اس کیلئے کمیٹیاں بھی بنا دی ہیں اور اگر خاطر خواہ نتائج حاصل نہ ہوئے تو ان کمیٹیوں پر ایک ایک اور کمیٹی بنا دیں گے‘ جس سے آبادی میں کافی کمی ہو جائے گی اور اسی حساب سے مہنگائی بھی اپنے آپ کم ہوتی ہوتی ختم ہو جائے گی اور لوگوں کو اگر صبر کرنے کی عادت پڑ گئی تو پھر مہنگائی کا نام و نشاں تک باقی نہیں رہے گا اور لوگ اسے ڈھونڈتے پھریں گے‘ لیکن یہ کہیں دستیاب نہ ہوگی ۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
ملکی سیاست میں سابق حکمرانوں کی اب گنجائش نہیں: سراج الحق 
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''ملکی سیاست میں سابق حکمرانوں کی اب گنجائش نہیں‘‘ اور صرف موجودہ حکمرانوں کی ہے‘ جو کہ بہت سخت جان واقع ہوئے ہیں اور میرے بلا ناغہ بیانات کا بھی ان پر کوئی اثر نہیں ہو رہا‘ اس لیے میں سوچ رہا ہوں کہ یہ شاید روزانہ بیانات ہی کا شاخسانہ ہے‘ اس لیے اب میں ایک دن چھوڑ کر بیان دیا کروں اور پہلے بھی ایسی کوشش کئی بار کر چکا ہوں‘ لیکن اس لیے ناکام رہا ہوں کہ وقت آنے پر بیان اس قدر زور سے آتا ہے کہ میں اسے روک ہی نہیں سکتا اور سنا ہے کہ عادتیں قبر تک ساتھ جاتی ہیں اور یہ عادت بھی مجھے کچھ ایسی ہی لگتی ہے۔ آپ اگلے روز ایک انٹرویو دے رہے تھے۔
اجراء (یوسفی نمبر)
اقبال خورشید کی ادارت میں شائع ہونے والے اس کتابی سلسلے کا یہ مشتاق یوسفی نمبر ہے۔ سرورق پر یوسفی صاحب کی تصویر ہے‘ پس سرورق رائے ظاہر کرنے والوں میں ابن انشا‘ مجنوں گورکھپوری‘ ممتاز حسین‘ ڈاکٹر اسلم فرخی‘ رئیس امروہوی‘ سید ضمیر جعفری اور ڈاکٹر ظہیر فتحپوری شامل ہیں۔ ابتدا میں ''قطرے میں سمندر‘‘ کے عنوان سے شاہین نیازی کی تحریر ہے‘ جس کے مقابل مصور شاہدر سام کا بنایا ہوا یوسفی صاحب کا پورٹریٹ ہے اور اس کے بعد اہل خانہ کے ہمراہ یوسفی صاحب کے گروپ فوٹوز ہیں۔ اس کے بعد مرحوم کی بعض تحریروں کے عکس شائع کیے گئے ہیں‘ اور مرحوم کی تصانیف ؛چراغ تلے‘ حاکم بدہن‘ زرگزشت اور آبِ گُم پر مختلف مشاہیر کے مضامین ہیں۔ اس کے بعد انٹرویوز ہیں‘ پھر ان کے خطوط ہیں‘ یہ جریدہ ہمارے عہد کے نامور اور مستند مزاح نگار پر ایک بھرپور دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے ‘جس کی بے حد ضرورت بھی تھی اور جنہیں رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا‘ اور تین سو صفحات پر مشتمل یہ جریدہ خاصی حد تک اس کا حق بھی ادا کرتا ہے اور یہ صحیح معنوں میں عہدِ یوسفی تھا‘ جو ہم نے گزارا ہے۔
اور اب آخر میں ابرارؔ احمد کی یہ نظم:
ایلانؔ کُردی کی خود کلامی
کوئی ہلچل سی تھی
شور تھا چار سُو
جیسے چھت گر رہی ہو
مجھے کیا پتا
کیا ہوا تھا کہیں
جب مجھے ساتھ لے کر چلے تھے
مری ماں نے سینے سے بھینچا ہوا
باپ کا ہاتھ بازو پہ تھا
اور ہم چل رہے تھے
نہ جانے کدھر کو-----
سمندر کبھی میں نے دیکھا نہیں تھا
مگر کیسا منظر تھا
جی چاہتا تھا
اسی ڈولتی‘ ڈوبتی نائو سے کود جائوں
نکل جائوں لہروں پہ اُڑتا ہوا
پرندوں کی صورت چہکتا ہوا
مگر-----ماں نے سختی سے چمٹا کے
پانی کے اندر
مجھے کچھ کہا-----میں بھی بولا
مگر سانس----- جانے اسے کیا ہوا
کوئی بڑھتی ہوئی پھانس تھی
اور گھیرے میں لیتی ہوئی
کوئی سیّال ظلمت-----
تو پھر----- میں اُدھر
اپنے آنگن میں‘ اپنے کھلونوں سے
اور دوستوں سے
لہکتے ہوئے باتیں کرتا ہوا
محوِ پرواز تھا
اور نیند آ رہی تھی
گھنی ‘ گہری ‘ تاریک
ماں‘ جانے کس خواب کو جا چکی تھی-----
بہت دیر تک
پانیوں نے تھپک کر سلایا مجھے
اسی ریت پر-----
جس پہ اب میں پڑا
اپنی پھیلی ہوئی پتلیوں میں
خدا دیکھتا ہوں-----
خدا----- جس نے بھیجا مجھے
اس زمیں پر
اسی ایک دن کے لیے!؟
آج کا مقطع
میں رنج کھینچا رہتا ہوں اس لیے کہ ظفرؔ
غبار سے بھی کبھی کارواں نکلتا ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved