جو کچھ بھی دکھائی دے رہا ہے‘ وہ علم کی بنیاد پر پایۂ تکمیل تک پہنچنے والے عمل کا نتیجہ ہے۔ انسان نے ہزاروں سال کے عمل میں جو کچھ سوچا ہے‘ اُس پر عمل کرکے اپنے لیے آسانیاں پیدا کی ہیں۔ یہ آسانیاں مادّی بھی ہیں اور غیر مادّی بھی۔ انسان کو وجود صرف اس لیے تو نہیں بخشا گیا کہ جیسے تیسے جیے اور اس دنیا کو خیرباد کہے۔ اُسے قدرت نے اس بات کا پابند کیا ہے کہ اپنی اور دوسروں کی زندگی کو زیادہ سے زیادہ آسان اور پُرلطف بنانے پر متوجہ رہے۔ فکر و عمل کی اساس یہ ہونی چاہیے کہ انسان خود بھی سُکون سے جیے اور دوسروں کو بھی سُکون سے جینے کا موقع دے۔
زندگی کو آسان بنانے میں انتہائی بنیادی اور اہم ترین کردار علم کا ہے۔ علم ہی کی بنیاد پر انسان اپنے اعمال ترتیب دیتا ہے۔ کسی بھی حوالے سے خوب سوچنے کے بعد انسان جو کچھ طے کرتا ہے ‘اُسی کی بنیاد پر زندگی کو آسان بنانے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ اعمال بے ذہنی کی بنیاد پر بھی انجام تک پہنچائے جاسکتے ہیں مگر‘ ظاہر ہے‘ اُن کی کچھ وقعت نہ ہوگی۔ عمل وہی اچھا ہے‘ جس کی بنیاد ٹھوس اور جامع علم پر ہو۔
عظیم مفکر والٹیئر نے کہا ہے کہ چند ایک وحشی اقوام کو چھوڑ کر باقی معلوم دنیا پر کتابیں حکومت کرتی ہیں۔ کتابیں ‘یعنی مربوط علم۔ کسی بھی شعبے سے متعلق یا کسی بھی حوالے سے پائے جانے والے مربوط علم کی بنیاد پر کتابیں ترتیب دی جاتی ہیں۔ کتابیں علم کے حصول کا معقول ترین ذریعہ ہیں۔ عام سی تحریر اور کتاب میں بنیادی فرق سنجیدگی‘ محنت‘ ترتیب اور استناد کا ہے۔
کسی بھی معاشرے کے لیے سب سے ضروری چیز ٹھوس علم ہے اور اس نوعیت کے علم کے حصول کا مستند ترین ذریعہ کتابیں ہیں۔ اہلِ علم جب کسی بھی موضوع کو ڈھنگ سے برتتے ہیں تو تمام نکات موزوں ترین ترتیب کے ساتھ پیش کرنے کے لیے پورے متن یا مواد کو کتاب کی شکل دیتے ہیں۔ مہذب معاشرے کتاب کو اس لیے غیر معمولی اہمیت دیتے ہیں کہ اس کے ذریعے بہت کچھ بہت آسانی سے سیکھا جاسکتا ہے۔
کتاب ہر دور میں علم کے حصول کا اہم ترین ذریعہ رہی ہے۔ کسی مجمع سے خطاب میں بھی علم پایا جاسکتا ہے ‘مگر اس کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ تقریر کے دوران انسان بہت کچھ اضطراری طور پر بھی کہتا ہے۔ بعض حوالے کمزور یا ناقص بھی ہوسکتے ہیں۔ تقریر کے دوران زبان و بیان کے معیار کی بلندی برقرار رکھنا آسان نہیں ہوتا۔ تقریر میں علمیت اور زبان و بیان کا مدار بہت حد تک اُس وقت کے موڈ پر بھی ہوتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ تقریروں کو کتابی شکل دینے کی صورت میں علم کی موثر ترسیل ممکن نہیں ہو پاتی۔ بیانیہ انداز کی تحریر میں علمیت کا گراف خاصا نیچے ہوتا ہے۔ غیر معمولی علم رکھنے والی شخصیت کی تقریر بھی اُس کی تحریر کے مقابلے میں خاصی کمزور ہوتی ہے۔
کس کتاب کو کس حیثیت میں قبول کرنا ہے‘ اس کا مدار اصلاً اُس کے معیار پر ہوتا ہے۔ فرانسس بیکن نے کہا ہے کہ بعض کتابیں اس لیے ہوتی ہیں کہ اُنہیں صرف چکھ لیا جائے۔ بعض کتابیں نگلنے کے لیے ہوتی ہیں اور چند ہی کتابیں اس قابل ہوتی ہیں کہ اچھی طرح چباکر ہضم کی جائیں۔ کتاب اگر پوری تیاری سے نہ لکھی گئی ہو تو محض چکھنے کی منزل میں دم توڑ دیتی ہے۔ بعض کتابیں تھوڑی سی معیاری ہوتی ہیں‘ یعنی اُنہیں نگلا جاسکتا ہے۔ ہر اعتبار سے مطلوب معیار پر پوری اترنے والی کتابیں تعداد میں کم ہوتی ہیں۔ ان کتابوں کو اچھی طرح چباکر ہضم کیا جاسکتا ہے‘ یعنی ہمیں کچھ حاصل ہوتا ہے۔ ایسی کتابوں ہی کو کتابیں قرار دیا جاسکتا ہے۔
عظیم شاعر جان ملٹن نے کہا ہے کہ اچھی کتاب ایسی قیمتی زندگی کی طرح ہوتی ہے ‘جس کے وجود میں عظیم روح کی رگوں کا خون دوڑتا ہو۔ ملٹن کے مطابق‘ اچھی کتاب دراصل عمومی سطح سے بہت بلند زندگی کی تیاری میں کام آنے والی چیز ہوتی ہے۔ حقیقی مفہوم میں معیاری قرار پانے والی کسی بھی کتاب کے ذریعے ہم متعلقہ موضوع‘ شعبے یا دور کے جامع اور واضح تناظر سے آگاہ ہو پاتے ہیں۔ اہلِ علم جب کسی موضوع پر تحقیق کا حق ادا کرتے ہیں‘ تو اس بات کا پورا خیال رکھتے ہیں کہ قارئین کی پوری تشفّی ہو‘ تشنگی اِس حد تک باقی نہ رہے کہ اُنہیں کوئی کمی واضح طور پر محسوس ہوتی رہے۔
ہر دور کے اہلِ علم نے کتابوں کو بہترین دوست قرار دیا ہے۔ بات کچھ غلط بھی نہیں۔ اچھا دوست کون ہوتا ہے؟ وہ جو ضرورت پڑنے پر کام آئے۔ کتاب بھی تو یہی کرتی ہے۔ جب ہم زمانے یا ماحول کے جبر سے پریشان ہوکر سکون کے چند لمحات چاہتے ہیں تو کسی گوشۂ عافیت میں کوئی معیاری کتاب تھام کر دنیا و ما فیہا سے بے نیاز و لاتعلق ہو جاتے ہیں۔ کتاب واقعی بہترین دوستوں کی طرح ہوتی ہے ‘ یعنی کبھی نہیں بدلتی‘ معیار برقرار رہتا ہے۔
ہمیں کیا پڑھنا چاہیے؟ یہ سوال ہر اُس انسان کے لیے اہم ہے‘ جو زندگی کا معیار بلند کرنے کے لیے پڑھنا چاہتا ہو۔ ٹامس ڈی کوئنسی کہتے ہیں کہ کسی بھی انسان کے لیے ایک بہت بڑا المیہ یہ ہوسکتا ہے کہ وہ سیکڑوں کتابیں پڑھنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کتابوں کا نہ پڑھا جانا بہتر تھا! محض کتابوں کا مطالعہ کافی نہیں‘ بلکہ معیاری کتابوں کا مطالعہ کچھ مفہوم رکھتا ہے۔ خاصی محنت کے بغیر‘ محض سرسری یا اضطراری انداز سے لکھی جانے والی کتابیں انسان کو کچھ نہیں دے پاتیں۔ ایسی کتابوں کا نہ پڑھا جانا زیادہ سودمند ثابت ہوتا ہے‘ کیونکہ ایسی صورت میں اور کچھ نہ سہی‘ یہ فرحت بخش احساس تو بہرحال ہوتا ہے کہ وقت ضائع نہیں ہوا۔
کتابوں کی افادیت کے حوالے سے جان ایچ لی ہنٹ کا بیان کردہ نکتہ بھی اس قابل ہے کہ ہمیشہ ذہن نشین رکھا جائے۔ ہنٹ کا کہنا ہے کہ کتابیں ہمیں سکھاتی ہیں کہ جوانی میں پُرلطف لمحات کو کس طور نکھارا جائے اور عمر کی شام ڈھلے اُن لمحات کو کس طور ذہن کے پردے پر دوبارہ روشن کیا جائے۔ بات کچھ یوں ہے کہ کتابیں ہمیں سکھاتی ہیں کہ معیاری زندگی بسر کرنے کے لیے کس معاملے کو کس طور نمٹایا جائے۔
ترقی اور خوش حالی اگر ممکن ہو پاتی ہے تو صرف علم کی بنیاد پر۔ علم کو گلے لگانے سے گریز کرنے والے معاشرے ڈھنگ سے چل نہیں پاتے۔ پاکستانی معاشرہ بھی اِس کی ایک اچھی مثال کا درجہ رکھتا ہے۔ ہم نے کبھی علم کو زندگی کی انتہائی بنیادی قدر کا درجہ نہیں دیا۔ ہم اب تک اس نکتے پر کامل یقین کے حامل نہیں ہو پائے کہ کتابوں کو گلے لگانے ہی سے ہمارا کچھ بھلا ہوسکتا ہے۔ کتابوں کو زندگی کا حصہ بنانے ہی سے ہمیں معلوم ہوسکتا ہے کہ زندگی کس طور بسر کی جانی چاہیے‘ اُس کا معیار کس طرح بلند کیا جاسکتا ہے۔ آج تک کوئی ایک معاشرہ ایسا نہیں ہوا جس نے علم کو اپنائے بغیر اپنا عمل درست کیا ہو اور ترقی یقینی بنائی ہو‘ تو پھر انتظار کس کا اور کس بات کا ہے؟ کتابوں کی دنیا ہماری منتظر ہے۔ نئی نسل کو علم کے حصول کی طرف مائل کرنا ناگزیر ٹھہرا اور اس کے لیے لازم ہے کہ کتابوں سے ان کی دوستی کرائی جائے۔ سکول کی سطح پر کتاب پڑھنے کے رجحان کو پروان چڑھاکر یہ مقصد عمدگی سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ کتاب کی حکومت اسی صورت یقینی بنائی جاسکتی ہے۔