تحریر : صابر شاکر تاریخ اشاعت     11-02-2020

عوامی جماعتیں مستحکم وفاق کی ضمانت

جمہوری سیاسی نظام کی حامل ریاستوں میں سیاسی جماعتوں کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے‘ کیونکہ سیاسی جماعتیں جمہوریت کی بنیادی درسگاہ ہوتی ہیں ‘جہاں سے سیاسی قیادتیں ایک قدرتی اور ارتقائی عمل سے گزرکر مختلف مراحل طے کرتی ہیں اورمختلف چھلنیوں سے چھَن کر ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کی انتہائی منزل تک پہنچتی ہیں۔ 
سیاسی جماعتوں کی تشکیل کا بھی ایک قدرتی عمل ہے‘ بالکل اسی طرح جیسے ایک درخت اگانے کے لیے محض ایک بیج یا ایک قلم لگائی جاتی ہے پھر اس کی آبیاری کی جاتی ہے اور اسے موسمی طوفانوں سے بچا بچا کر اس کی پرورش کی جاتی ہے۔ ہر طرح کے سرد گرم موسموں سے بچنے کے بعد پھر وہی قلم اور بیج ایک تناور درخت بن جاتا ہے اور اپنی جڑوں کو زمین کی تہوں تک پھیلا لیتا ہے ‘جس کے بعد اسے پانی دینے اور پالنے پوسنے کی ضرورت نہیں رہتی اور نہ ہی اسے اپنے وجود کو کھڑا رکھنے کے لیے کسی کی ضرورت باقی رہتی ہے‘ بلکہ وہ خود ہی زمین سے براہ راست اپنی غذا کا بندوبست کرلیتاہے ۔اس تناور درخت کو دھکا دے کر اکھاڑا نہیں جاسکتا اور نہ ہی اسے معمول کے طوفانوں سے کوئی خطرہ ہوتاہے ‘بلکہ اسے جڑ سے اکھاڑنے کے لیے کافی تگ و دو کرنا پڑتی ہے۔ہاں البتہ اگر اس کے وجود کو خطرہ ہوتا ہے تو وہ اس کے اپنے اندر سے ہی ہوتا ہے‘ جسے کیڑا لگنا یا گھن لگنا کہتے ہیں ‘جو اسے اندر ہی اندر سے چاٹ کر کھوکھلا کردیتا ہے اور ایک دن یہ تناور درخت دھڑام سے اپنے ہی وزن سے نیچے گرتا ہے اور اس کا وجود پارا پارا ہوجاتا ہے ایسے گھن لگے درخت کی لکڑی بھی کسی کام نہیں آتی‘ بلکہ وہ غریبوں کے چولہوں کا بالن ہی بنتی ہے۔ 
سیاسی جماعت کی تشکیل بھی بالکل اسی طرح ہی ہوتی ہے‘ ابتدائی طور پر چند لوگ ملکر ایک کمرے ‘بیٹھک یا ڈیرے میں بیٹھ کر گپ شپ لگاتے ہیں اور سیاست کے میدان میں جدوجہد کا فیصلہ کرتے ہیں اور اور پھر اپنا منشور لوگوں تک پہنچاتے ہیں ۔ابتدا میں نتائج کا انہیں بھی علم نہیں ہوتا کہ ان کی یہ کاوش مستقبل میں کتنا بڑا فورم بن جائے گا‘ اگر قیادت عوام کے دل کو لبھا لے اور اس کا منشور بھی پرکشش ہو تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اورمسلسل جدوجہد کے بعد اس کی جڑیں عوام میں مضبوط ہوتی جاتی ہیں اور ہم خیال کارکنوں کی فوج اس سیاسی پودے کی آبیاری کرتی ہے اور پھر یہ ایک تناور سیاسی درخت بن جاتا ہے جسے گرانا اور مٹانا اتنا آساں نہیں ہوتا۔تقسیم ہند سے پہلے انڈین نیشنل کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں‘ جن کی بنیاد بالترتیب 1885ء اور1906ء میں رکھی گئی اوراپنے پرکشش منشور اور کرشمہ ساز قیادت کی بدولت عوام میں بے پناہ مقبول ہوئیں۔آل انڈیا مسلم لیگ نے محض 42سال بعد برطانوی سلطنت اور انتہا پسند ہندوؤں سے آزادی کی منزل حاصل کی‘جبکہ انڈین نیشنل کانگریس نے اپنی پیدائش کے 62سال بعد آزادی حاصل کی۔قیام بھارت کے بعد انڈین نیشنل کانگریس نے انڈین نیشنل کانگریس اور قیام پاکستان کے بعد آل انڈیامسلم لیگ نے پاکستان مسلم لیگ کے نام سے اپنا وجود برقرار رکھا۔ بدقسمتی سے پاکستان میں مسلم لیگ اندر ہی اندر سے تقسیم درتقسیم ہوتی گئی اوراس کے کئی دھڑے بن گئے جو آج تک موجود ہیں۔مسلم لیگ کے نام کو جنرل ایوب خان‘ جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویز مشرف نے اپنے مارشل لاؤں کو جمہوریت کا تڑکہ لگانے کے لیے بھی استعمال کیا‘ لیکن مسلم لیگ کے وہ دھڑے جرنیلوں کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی دھڑن تختہ ہوگئے‘کیونکہ ان دھڑوں کی جڑیں عوام میں نہیں تھیں اور نہ ہی ان دھڑوں کو کرشمہ ساز قیادت میسر تھی۔
بہرحال مسلم لیگ کے مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کا سہرا میاں نواز شریف کو جاتا ہے‘ جنہوں نے پرورش تو پائی عسکری قیادت کے زیر سایہ ‘لیکن بڑی مہارت سے اپنے آپ کے لیے عوام میں پزیرائی حاصل کی اور مسلم لیگ کو دوبارہ ایک عوامی جماعت بنادیاجس کے نتیجے میں تمام تر بیساکھیوں کے باوجود مسلم لیگ کے اکثر دھڑے اپنی موت آپ مرچکے ہیں اور جو باقی بچے ہیں وہ سہاروں کی تلاش میں ہیں؛البتہ میاں نواز شریف نے مسلم لیگ کے ساتھ ن کا لاحقہ لگادیا بالکل اسی طرح جیسا کہ اندرا گاندھی نے انڈین نیشنل کانگریس کے ساتھ آئی کا لاحقہ لگایا تھا۔انڈین نیشنل کانگریس کے بھی مختلف دھڑے بنے ‘لیکن عوام نے صرف اندرا گاندھی کی کانگریس آئی کو ہی پذیرائی بخشی‘ جو آج تک موجود ہے۔ باوجود اس کے کہ گاندھی‘ ان کی بیٹی اندرا گاندھی ان کا بیٹا راجیو گاندھی قتل کردئیے گئے ‘سنجے گاندھی فضائی حادثے میں مارا گیا‘مگر آج بھی کانگریس کی قیادت گاندھی خاندان سونیا گاندھی اور راہول گاندھی کے پاس ہی ہے۔
قیام پاکستان کے فوراً بعد 1949ء میں ایک نئی جماعت عوامی لیگ کی بنیاد رکھی گئی بعد ازاں جس کی قیادت غدار وطن شیخ مجیب کو ملی اور1970ء کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد پاکستان دو لخت ہوا۔ شیخ مجیب کو بنگلہ فوج کے ایک افسر نے فیملی سمیت قتل کردیا‘ لیکن شیخ حسینہ واجد ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے بچ گئی۔چھ سال جلاوطنی کے بعد وطن واپس پہنچی‘ لیکن کامیاب نہ ہوسکی ‘مگر جدوجہد جاری رکھی‘ چونکہ ان کی جماعت کی جڑیں عوام میں موجود تھیں۔ جنرل ارشاد کی فوجی حکومت اور خالدہ ضیا کی سیاسی حکومت بھی عوامی لیگ کوختم نہ کرسکی اور آج حسینہ واجد نا صرف برسر اقتدار ہیں‘ بلکہ متحدہ پاکستان کے حامیوں کو چن چن کرقتل کروا رہی ہیں۔
پاکستان پیپلزپارٹی دوسری سیاسی جماعت ہے جس کی بنیاد قیام پاکستان کے تقریباً بیس سال بعدرکھی گئی‘ ذوالفقارعلی بھٹو کی کرشمہ ساز قیادت اور روٹی کپڑا اور مکان کے پُرکشش نعرے کے وجہ سے دیکھتے ہی دیکھتے عوام میں مقبول ہوگئی۔ گاندھی اورشیخ مجیب خاندان کی طرح بھٹو فیملی میں بھی ذوالفقارعلی بھٹو کو انتقامی پھانسی ہوئی اورمحترمہ بے نظیر بھٹو اورمرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹوقتل ہوئے اور آج بھی پارٹی کی قیادت بھٹو فیملی کے پاس ہے اورسکڑ کرسندھ تک محدود ہوگئی ہے‘ جس کی وجہ زرداری کی نااہلی ہے۔پیپلزپارٹی کو اندر سے ہی گھن لگا‘ زور زبردستی سے پارٹی کو نقصان نہ پہنچایا جاسکا۔بہت سے لوگ پارٹی چھوڑ کر لوٹا کریسی کی نظر ہوئے اورگمنام ٹھہرے۔تیسری جماعت تحریک انصاف ہے عمران خان کی کرشمہ سازشخصیت اورکرپشن کے خاتمے اور تبدیلی کے پر فریب نعرے نے عوام کو جوڑ دیا اورمسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے مقابلے میں عوام کو تیسرا آپشن دیا‘کم وبیش ربع صدی کی جدوجہد نے پی ٹی آئی کو یک نشستی پارٹی سے حکمران جماعت بنادیا۔پی پی پی‘ مسلم لیگ ن کی طرح اس میں بھی کنگز پارٹی کابچاکھچاسیاسی مال کھپایا گیا‘لیکن پی ٹی آئی دیگر دو جماعتوں کی طرح گراس روٹ لیول میں جڑیں پکڑچکی ہے‘یعنی یک نہ شد دوشد سے معاملہ سہ شد کی جانب بڑھ رہا ہے۔قدرتی اور ارتقائی عمل سے پنپنے والی سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں کنگز پارٹیز کنونشن لیگ‘ اسلامی جمہوری اتحاد‘ ق لیگ اور متحدہ مجلس عمل سمیت کئی ایک کا بارہاتجربہ کیا گیا‘جوتمام ترکوششوں اور توانائیوں کے باوجود کامیاب نہ ہوسکااور آئندہ بھی اس کا نتیجہ مختلف نہیں ہوگا۔کیا ہی بہتر ہو کہ عوامی سیاسی جماعتوں اور ہمارے دیگرقومی اداروں کے مابین پاکستان کوترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑاکرنے کیلئے مستقل دوستی ہو جائے ‘کیونکہ مقبول اور ملک گیرسطح کی سیاسی جماعتیں مستحکم مملکت کی ضمانت ہوتی ہیں ‘جوقومی مفاد کی خاطرغیر مقبول فیصلے کرنے کی صلاحیت اورجرأت رکھتی ہیں۔اس لیے کوئی نیاتجربہ تینوں کو جمع کرسکتا ہے۔ 
خبریہ ہے کہ امورمملکت کو بہتر انداز میں چلانے کیلئے گزشتہ ہفتے سپہ سالار اور سربراہ آئی ایس آئی کی وزیراعظم سے ہونے والی ملاقات کافی کھلے ڈلے ماحول میں ہوئی ہے ‘جس کے مندرجات غیرمعمولی بتائے گئے ہیں‘ ان ملاقاتوں میں کچھ شارٹ ٹرم اور کچھ لانگ ٹرم اقدامات اٹھائے جانے کے بارے اہم فیصلے کیے گئے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ فیصلے عمل پذیر ہوتے ہیں یا پھر...!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved