3 استعفے اور 3 ماہ میں الیکشن کا وعدہ کر کے دھرنا ختم کرایا: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''تین استعفے اور تین ماہ میں الیکشن کا وعدہ کر کے دھرنا ختم کرایا گیا‘‘ اور چودھری پرویز الٰہی نے بہت جلد بازی سے کام لیا‘ ورنہ ہم تو آپ ہی دھرنا ختم کرنے والے تھے‘ کیونکہ ہمارے مطالبات مانے جانے کا دُور دُور تک کوئی امکان نظر نہ آتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے چودھری صاحب سے کوئی باز پُرس نہیں کی‘ بلکہ اُن کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ہمیں نجات دلوائی ‘کیونکہ چندے کے پیسے ختم ہو رہے تھے‘ جن کی بچت کی میں اُمید لگائے بیٹھا تھا ۔ آپ اگلے روز لاہور میں پروفیسر ساجد میر سے ملاقات کے بعد گفتگو کر رہے تھے۔
ہمیں مہنگائی کا احساس ضرور ہے‘ گھبراہٹ نہیں: حماد اظہر
وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور حماد اظہر نے کہا ہے کہ ''ہمیں مہنگائی کا احساس ضرور ہے‘ گھبراہٹ نہیں‘‘ کیونکہ گھبراہٹ کا کام ہم نے عوام کیلئے مخصوص کر رکھا ہے ؛ چنانچہ ہم مہنگائی کا احساس کر کے اپنا کام کرتے ہیں اور عوام گھبرا گھبرا کر اپنا اور یہ اشتراک نہایت کامیابی سے جاری و ساری ہے اور وزیراعظم نے نہ گھبرانے کی جو تاکید کر رکھی ہے ‘وہ ہمارے لیے ہے‘ عوام کیلئے نہیں۔ آپ اگلے روز کراچی کے ایک نجی ٹی وی پروگرام میں شامل تھے۔
دال دلیا شائع ہو گئی!
اس عنوان سے خاکسار کے فکاہی کالموں کا انتخاب قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل ‘لاہور نے شائع کر دیا ہے۔ پس سرورق عطا الحق قاسمی کی تحریر ہے ‘جبکہ پیش لفظ میرا بقلم خود ہے‘ کتاب کا انتساب شجاعت ہاشمی کے نام ہے۔ اس کتاب کی قیمت 400روپے رکھی گئی ہے۔
درستی
بھائی صاحب نے اپنے کالم میں جمال احسانی کے جو اشعار درج کیے ہیں۔ ان میں کچھ محلِ نظر ہیں‘ مثلاً:؎
گھر بھی عزیز شوق بھی دل میں سفر کا ہے
یہ روگ اک پل کا نہیں‘ عمر بھر کا ہے
اس شعر کادوسرا مصرعہ بے و زن ہو گیا ہے ‘کیونکہ اس میں ''اک‘‘ کی بجائے ''ایک‘‘ ہے‘ جبکہ دوسرا شعر یوں درج ہے : ؎
مجھے شکست دی میرے حریف نے
پھر میری شکست سے ڈرتا ہوا نظر آیا
دونوں مصرعے بے وزن ہیں‘ اصل شعر غالباً اس طرح سے ہے ؎
مجھے شکست دی میرے حریف نے اور پھر
مری شکست سے ڈرتا ہوا نظر آیا
تیسرا شعر یوں درج کیا گیاہے: ؎
کنجیاں خانۂ ہمسایہ کی رکھتے کیوں ہو
اپنے گھر کی جب حفاظت نہیں کی جا سکتی
دوسرا مصرعہ بے وزن ہو گیا ہے‘ جو غالباً اس طرح سے ہے: ع
اپنے گھر کی جو حفاظت نہیں کی جا سکتی
چوتھا شعر اس طرح درج کیا گیاہے : ؎
کوئی فال نکالی نہ استخارہ کیا
بس ایک صبح یوں ہی خلق سے کنارہ کیا
اس کا پہلا مصرعہ بے وزن ہو گیا ہے‘ جو دراصل اس طرح سے ہیع
نہ کوئی فال نکالی نہ استخارہ کیا
اور‘ اب آخر میں اقتدار جاوید کی نظم:
اوسیرس
لنگر انداز کشتی ہوئی
توالف سا قیامت بھرا جسم
ساحل کی رونق بڑھانے لگا
جگمگانے لگا شہر
بارش منقش سلوں پر برسنے لگی
خود کو شق کر کے گیلی زمیں
اَن گنت میووں سے
گرم گودام بھرنے لگی
دُور دیسوں سے تجار آنے لگے
سات رنگوں بھری نہر بہنے لگی
دُور کی سمت اُڑتے سفیدی بھرے بگلے
واپس پلٹنے لگے
جن ہواؤں نے گھیرا تھا
شفاف پانی بھری جھیل کو
اوپر اٹھنے لگیں
سُرخ دھاگوں سے رنگیں
سرہانے سجائے گئے
لڑکیاں گیت گانے لگیں
گندمی خوشوں میں دانے پڑنے لگے
سجدئہ سہو کو بھول کر
لوگ ہنسنے لگے شہر بسنے لگا
اک الف سا قیامت بھرا جسم ہے
جس کے سو بعید ہیں
ایک بارش میں بھیگا ہوا پیڑ ہے
جس کے پتوں کی رنگت بہت سبز ہے
اک ہری شاخ ہے
جس میں تازہ شعاؤں کا طوفان ہے
کیسا صدرنگ سوراخ ہے!!
(اوسیرس---- زرخیزی کا خدا)
آج کا مقطع
عبور کر کے ہی اِس کو بتا سکوں گا‘ ظفرؔ
ابھی یہ کہہ نہیں سکتا ہوں کیا رکاوٹ ہے