تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     12-02-2020

سرخیاں‘متن اور عامرؔ سہیل کی تازہ غزل

مہنگائی پر قابو پانے کیلئے انتظامیہ کو متحرک کر دیا ہے: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''مہنگائی پر قابو پانے کے لیے انتظامیہ کو متحرک کر دیا ہے‘‘ بلکہ اسے کہہ دیا ہے کہ متحرک ہو جائے‘ اب اس کی مرضی ہے کہ متحرک ہوتی ہے یا نہیں؟ کیونکہ وہ اپنی مرضی کی مالک ہے اور اگر وہ متحرک نہ ہوئی تو میں خود متحرک ہو جائوں گا؛ اگرچہ میری حرکت میں برکت بالکل ہی نہیں ہے ‘کیونکہ جب سے ہم آئے ہیں‘ برکت تب سے ہی کہیں سیر سپاٹے پر نکلی ہوئی ہے اور ہم بے برکتی کے ساتھ ہی گزارہ کر رہے ہیں‘ جبکہ یہ آٹے اور چینی کا بحران بھی اسی بے برکتی کی وجہ سے ہے‘ اسی لیے اس کے ذمہ داروں کو کچھ نہیں کہا جاتا ‘کیونکہ وزیراعظم کی ساری برکات بھی انہی کے دم قدم سے ہیں اور یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنے ٹھُوٹھے پر خود ہی ڈانگ مار دیں‘ جو کہ ایک طرح سے کفرانِ نعمت بھی ہوگا۔ اس لیے ہم جملہ نعمتوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے ان سے استفادہ بھی کرتے ہیں اور ان سب حضرات کا شکریہ بھی ادا کرتے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں گورنر پنجاب چودھری سرورسے گفتگو کر رہے تھے۔
کمر توڑ مہنگائی میں 15 ارب کی سبسڈی قوم سے مذاق ہے: سراج الحق
جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''کمر توڑ مہنگائی میں 15 ارب کی سبسڈی قوم سے مذاق ہے‘‘ اور قوم اس وقت سے اس مذاق پر ہنسی سے لوٹ پوٹ ہورہی ہے اور ان کی ہنسی رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی ‘بلکہ خود میرا ہنس ہنس کر بُرا حال ہو گیا ہے‘ جو پہلے بھی کوئی خاص اچھا نہیں تھا ‘جبکہ قوم جو پہلے مہنگائی کی وجہ سے چیخیں مار رہی تھی ‘اب ہر طرف اس کے قہقہے گونج رہے ہیں اور کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی ؛حتیٰ کہ میری روزانہ کی تقریر میں بھی بڑا حرج ہو رہا ہے‘ کیونکہ ہنسی ذرا رکتی ہے تو تھوڑی دیر کے بعد پھر دورہ پڑ جاتا ہے‘ اور حکومت کا یہ اقدام لائقِ داد وتحسین ہے کہ اُداسی کے اس ماحول میں اس نے روتی ہوئی قوم کو ہنسنے میں مصروف کر دیا ہے اور اگر یہ سبسڈی اس سے بھی کم ہوتی تو قوم نے ہنس ہنس کر اور بھی بے حال ہو جانا تھا اور امید ہے کہ حکومت آئندہ بھی ایسے خندہ آور اقدامات اٹھاتی رہے گی۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک سیمینار سے خطاب کر رہے تھے۔
سیاسی مخالفین کے گھروں پر قبضے افسوسناک ہیں: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''سیاسی مخالفین کے گھروں پر قبضے افسوسناک‘ منفی روایت ہے‘‘ اور ان میں پناہ گاہیں قائم کرنا تو اور بھی افسوسناک ہے‘ کیونکہ اس قسم کے پوش گھروں میں فقرے اور گداگر ٹائپ لوگوں کو لا کر بیٹھا دینا‘ بلکہ سلا دینے سے بڑا توہین آمیز رویہ اور کیا ہو سکتا ہے اور کسی کے خون پسینے کی کمائی سے بنائے ہوئے گھر کی اس سے زیادہ بے عزتی بھی کوئی نہیں ہو سکتی اور مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ اسحاق ڈار اب اس گھر میں کس منہ سے آ کر رہیں گے؟ اس لیے ہم نے انہیں مشورہ دیا ہے کہ وہ گھر تو چونکہ ان کے رہنے کے قابل ہی نہیں رہا اس لیے وہ واپس جا کر کیا کریں گے؛ حالانکہ وہ وطن واپسی کیلئے تیار ہی بیٹھے تھے‘ جبکہ ویسے بھی بھائی صاحب کی بیماری کے پیشِ نظر وہ آ بھی نہیں سکتے‘ کیونکہ ان کے خاص خاص تیمارداروں میں وہ بھی شامل ہیں ۔ آپ اگلے روز لندن میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
موجودہ حکمران نواز شریف سے بھی زیادہ مفرور ہیں: مولا بخش چانڈیو
پیپلز پارٹی کے مرکزی سیکرٹریٹ اطلاعات سینیٹر مولا بخش چانڈیو نے کہا ہے کہ ''موجودہ حکمران نواز شریف سے بھی زیادہ مفرور ہیں‘‘ جبکہ ہمارے قائد نواز شریف سے زیادہ مالدار ہیں‘ لیکن انہوں نے کبھی اس پر غرور نہیں کیا اور اپنے عجز و انکساری میں ہی مگن رہتے ہیں؛ حتیٰ کہ ہمارے چیئر مین بھی عاجزی کا ایک مکمل نمونہ ہیں‘ جو ابھی بچّے ہی تھے کہ ارب پتی بن گئے‘ اور انہیں پتا ہی نہ چلا‘ جبکہ روپے پیسے سے انہیں ویسے بھی نفرت ہے‘ اسی لیے ان کی ساری دولت بینکوں میں ہی گلتی سڑتی رہتی ہے اور انہوں نے کبھی اس کی طرف آنکھ بھر کے دیکھا تک نہیں اور ادھر اُدھر سے ہی کام چلایا کرتے ہیں اور یہی صورتحال ہمارے قائد کی بھی ہے کہ سارا خرچہ ان کے مداحین ہی کے ذمہ ہوتا ہے اور انہوں نے کبھی یہ جاننے کی بھی کوشش نہیں کی ان کے کُل اثاثے کتنے ہیں اور ان کی مالیت کتنی ہے۔ آپ اگلے روز فیصل آباد میں سوشل میڈیا کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں عامرؔ سہیل کی تازہ غزل:
وہ کہہ رہے ہیں اور بھی کچھ پاس آئیے
نیندوں میں چل کے خواب کی چٹیا بنائیے
آنسو کہیں کہ عمر محبت کی ہو دراز
پلکیں کہیں کہ آنکھ سے دجلہ بہائیے
تم سے ستارے ملنے نہیں دے رہے ہمیں
یوں ہے تو کائنات کا جرگہ بلائیے
تصویر کینوس پہ ہے اور ٹوکتی ہے وہ
آنکھیں غلط ہیں‘ ہونٹ نہ ایسے بنائیے
کیا ہو‘ اگر میں پانی میں وہ ہاتھ چھوڑ دوں
دل ڈوبنے کے بعد کا منظر دکھائیے
پل پل سسک رہی ہیں یہ پل پل بلک رہیں
ان بستیوں کو خون کی بوتل لگائیے
کوئی گلاب اپنے شبستان میں رو پڑے
اس زخم زخم جسم کو اتنا ستائیے
اپنے علاوہ کون ہے سامع جہان میں
عامرؔ غزل کہی ہے تو خود کو سنائیے
عامرؔ یہ مہر و مہ بھی غزل گو ہیں میرے ساتھ
گر ہو سکے تو آ کے یہ شہرت بجھائیے
آج کا مقطع
کمینگی تو‘ ظفرؔ‘ اس کی خُو میں ہے شامل
ہمارے ساتھ نہیں خاص یہ سلوک اُس کا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved