تحریر : انجم نیاز تاریخ اشاعت     23-05-2013

پانچ سالہ منصوبہ سات دن میں!

ٹیبل ٹینس کا میچ جو کئی سال پہلے شروع ہوا، اب اپنے اختتامی رائونڈ تک پہنچ چکا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس میں کون فاتح قرار پاتا ہے۔ اس موضوع پر ذرا بعد میں۔ یہ ایک تسلیم شدہ سچائی ہے کہ گیت نہیں بلکہ گلوکار طرز بناتا ہے۔ اسی طرح منصوبہ نہیں بلکہ منصوبہ ساز اہداف کا تعین کرتا ہے؛ تاہم پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئر مین ندیم الحق کوئی منصوبہ ساز نہیں تھے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ان کا کردار ایک گاڑی کے ڈرائیور کی بجائے فرنٹ سیٹ پر بیٹھے ہوئے مسافر کا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اُن کے پاس کوئی اختیار نہ تھا، وہ محض تماشائی تھے۔ پریس کے سامنے دل کا غبار نکالتے ہوئے اُنھوںنے کہا کہ پاکستان میں جاری بجلی کے بحران کی ذمہ داری سابق حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ گردشی قرضہ جات کے حوالے سے پلاننگ کمیشن کی حالیہ رپورٹ جو ’’یو ایس ایڈ ‘‘کے غیر جانبدار تجزیے پر مبنی ہے، کا حوالہ دیتے ہوئے ڈاکٹر ندیم الحق افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ توانائی کے بحران کے حوالے سے بنائے گئے منصوبے کا حاصل اس مسئلے کے پائیدار حل کے لیے فعال کاوش کی بجائے محض وقت گزارنے تک محدود تھا۔ اُنھوںنے حکومت کے آمرانہ رویے پر تنقید کی۔ ان کی گفتگو کا ماحصل ایک لائن میں بیان کیا جائے تووہ یہ ہے کہ صدر اور اُن کے پانی و بجلی کے مشیر ڈاکٹر عاصم اس معاملے کو غیر سنجیدگی سے لیتے رہے اور اُنھوںنے اس کے حل کی کبھی خلوص ِ نیت سے کوشش نہ کی۔ لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ پرویز مشرف اور شوکت عزیز کی حکومت میں ہی 2008ء کے آغاز سے سنگین ہونا شروع ہو گیا۔ پھر اس میں کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ندیم الحق نے وزیرِ اعظم گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کی بات کیوں نہ کی حالانکہ وہ اُن کی ہی نمائندگی کرتے تھے؟ ایک ایسے شخص کے لیے جس کے ہاتھ میں بظاہر پلاننگ کمیشن کا تمام اختیار ہو، کھیت چگے جانے کے بعد چڑیوں کی طرح کا واویلا کرنا زیب نہیں دیتا‘ لیکن ہمارے ملک میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ اعلیٰ افسران ہمیشہ منصب سے الگ ہونے پر اپنے سابق باس پر تنقید شروع کر دیتے ہیں۔ یوایس ایڈ کی رپورٹ چار سال پہلے اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کی ایک اہم ممبر ڈاکٹر رابن رافیل کی تحقیقات کو بنیاد بنا کر مرتب کی گئی ہے۔ وہ پاکستان کے لیے توانائی کے مسئلے سے نمٹنے کا منصوبہ بنا رہی تھیں۔ اس سلسلے میں اُنھوںنے کچھ تجاویز پیش کیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لیے زرداری حکومت کو سیاسی قوت ِ ارادی کا مظاہر ہ کرنا ہوگا۔ ایک انٹرویو میں اُنھوںنے مجھے بتایا کہ پاکستان کو اپنی ترجیحات تبدیل کرناہوں گی۔ حکومت کی طرف سے راجہ رینٹل جیسے بدعنوان اور نااہل وزیر‘ ڈاکٹر عاصم جیسے کنفیوز مشیر اور چوہدری احمد مختار جیسے افراد کو پانی اور بجلی جیسے اہم شعبوں کا نگران بنانا مجرمانہ غفلت کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ بحران دراصل ان افراد کی وجہ سے ہی سنگین ہوا۔ زرداری صاحب کی ترجیحات کچھ اور ہیں۔اُنھوںنے ’’بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ‘‘ کے ذریعے رقم تقسیم کرتے ہوئے موجودہ انتخابات جیتنے کی کوشش کی تھی؛ تاہم یہ منصوبہ بری طرح ناکام ہوا اور پی پی پی شکست سے دوچار ہوتے ہوئے صرف سندھ تک محدود ہو گئی۔ آج اُن کے پنجاب کے کارکن طیش میں آ کر ہاتھ مل رہے ہیں۔ وہ صوبے کے حالات کو جانتے ہیں اس لیے وہ سوال کررہے ہیں کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رقم اجاڑنے کی بجائے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے کیوں نہ شروع کیے گئے۔ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ اُس خاتون نے‘ جو اس پروگرام کے تحت رقم تقسیم کرنے کا فریضہ انجام دے رہی تھیں‘ اپنا کام کافی ’’خوش اسلوبی ‘‘سے کرتے ہوئے خود کو فائدہ پہنچا یا ۔ ایک دوست موٹروے پر سفر کرتے ہوئے ایک جگہ آرام کرنے کے لیے رکا۔ وہاں اس کی ملاقات لاہور کے قالینوںکے ایک شو روم کے مالک سے ہوئی ۔ وہ صاحب بہت خوش نظر آرہے تھے۔ وجہ پوچھی تو اُنھوں نے بتایا کہ ’’میڈم‘‘ نے اپنے ڈیفنس لاہور کے گھر کے لیے چھ کروڑ پچیس لاکھ روپے کے قالینوں کا آرڈر دیا ہے۔ اگر چھ کروڑ کے صرف قالین ہی منگوائے گئے ہیں تو اس کامطلب یہ ہے کہ یا تو میڈم کے ہاتھ سونے کی کوئی کان لگ گئی تھی یا اُنھوں نے وراثت میں بھاری جائیداد پائی ہے یا پھر اُنھوںنے اپنی تنخواہ میںسے پیسہ پیسہ جمع کرکے اتنی بھاری رقم بچائی ہے۔ بہرحال یہ محکمہ انکم ٹیکس جانے اور وہ جانیں۔ کالم کے آغاز میں، مَیں نے ٹیبل ٹینس کا ذکر کیا تھا کہ میں نہیں جانتی کہ ڈبل مقابلہ کون جیتے گا۔ یہ کہانی کچھ اس طرح ہے کہ ہمارے نگران وزیر ِ اعظم،بیاسی سالہ کھوسہ صاحب کو ایک اچھوتا خیال سوجھا ہے۔ اُنھوںنے پلاننگ کمیشن کو ہدایت جاری کی ہے کہ اگلے سات دنوں میں دسویں پانچ سالہ منصوبہ، جس کو ترک کر دیا گیا تھا، کا پھر سے جائزہ لیا جائے۔ زبردست !ضعیف العمر کھوسہ صاحب کو اپنے ذہن کی توانائیاں بحال کرنے کے لیے اچھا کام مل گیا ہے۔ اُن کی چستی اور پھرتی کے قصے برق رفتاری سے پھیل رہے ہیں۔ ایک راوی بیان کرتا ہے کہ وہ بجٹ سے پہلے تیاری کی پروگرام میں قیلولہ فرما گئے‘ جب بیدار ہوئے تو حیرت زدہ افسروں سے مخاطب ہوئے کہ کام چھوڑیں، چائے اور سنیک وغیرہ سے توانائی بحال کریں۔ جب اپنی توانائی کی بحالی کے مرحلے سے خیر و عافیت سے گزر چکے تو نیم وا نظروں سے چاروں طرف دیکھتے ہوئے دسویں پانچ سالہ منصوبے کی بحالی کی ہدایت جاری فرمائی۔ اگر کھوسہ صاحب کے کامیاب لمحات کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان کے منصوبوںکے پیچھے کوئی اور منصوبہ ساز بھی ہے۔ امریکہ میں آپ کسی بھی مضمون پر دستیاب ڈمی کتب کا مطالعہ کرنے کے بعد اس کے خدوخال جان سکتے ہیں۔کتابوں کو تو چلیں اختصار کے ساتھ بیان کیا جاسکتا ہے ، لیکن ایک ایسے ملک کے لیے جس میں معیشت دیوالیہ پن سے دو ہاتھ کی دوری پر ہو، پانچ سالہ منصوبہ سات دنوں میںبناناایسے ہی ہے جیسے کوزے میں لاتعداد دریا بند کرنا۔ ایک اخباری رپورٹ نے اس معاملے پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے کہ اچانک نگران حکومت کو پانچ سالہ منصوبے کا خیال کیسے آگیا؟ایک ماہرِ معاشیات کا کہنا ہے کہ نگران حکومت کو ایسے منصوبے بنانے کی بجائے نئی حکومت کے آجانے پر آرام سے گھر جانے کی تیاری کرنی چاہیے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ایک اور چوہدری نے یہ پانچ سالہ منصوبہ اُس وقت بنایا تھا جب وہ پرویز مشرف کے دور میں پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین تھے۔ تاہم پرویز مشرف نے اُس منصوبے کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا تھا۔ اب نوجوان چوہدری ڈاکٹر رشید امجد‘ جو اُن چوہدری صاحب کے چھوٹے بھائی ہیں‘ نے اپنے برادرِ محترم کے ادھورے کام کی تکمیل کا بیٹر ااٹھایا ہے۔ کیا اس منصوبے کو ٹیبل ٹینس سے تشبیہ نہیں دی جا سکتی؟اس کھیل میں چوہدری برادرز کے حریف کبھی شوکت عزیز ہوتے ہیں اور کبھی ڈاکٹر ندیم الحق جن کا کہنا ہے کہ ایسے پانچ سالہ منصوبے موجودہ معیشت کے لیے بے کار ہیں۔ اس کہانی کا آخری باب جناب اسحاق ڈار نے لکھنا ہے۔ دیکھیں وہ اس پانچ سالہ منصوبے پر کس رد ِ عمل کا اظہار کرتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved