تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     12-02-2020

بے راہ روی کا خاتمہ

دنیا جدید مواصلاتی نظام کی وجہ سے ایک گلوبل ویلیج کی شکل اختیار کر چکی ہے اور دنیا کے کسی ایک مقام پر پائے جانے والے رجحانات کے اثرات دوسرے مقامات پر بھی مرتب ہوتے ہیں؛ چنانچہ ہم اس بات کا مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ وہ رسومات اور تہوار جن کا آج سے نصف صدی قبل ہمارے معاشرے میں تصور بھی موجود نہیں تھا‘ وہ رفتہ رفتہ ہمارے معاشروں میں داخل ہونا شروع ہو چکی ہیں۔ وہ تہوار جن کو عالمی سطح پر خصوصیت سے پذیرائی حاصل ہوئی ‘ان میں ویلنٹائن ڈے بھی شامل ہے۔ ویلنٹائن ڈے کے موقع پر اپنے محبوبوں اور شناساؤں سے محبت اور پیار کا اظہار کیا جاتا ہے اور اس موقع پر تحائف ‘ کارڈز‘ پھول اور دیگر اشیاء کا تبادلہ کیا جاتا ہے۔ محبت کا یہ اظہار بالعموم ان لوگوں کے درمیان ہوتا ہے‘ جن کا آپس میں نہ تو کوئی ازدواجی تعلق ہوتا ہے اور نہ ہی وہ ایک دوسرے کے محرم و رشتہ دار ہوتے ہیں۔ ان تہواروں کے معاشرے میں مقبول ہونے کے سبب نوجوان نسل اور کچے اذہان پر غیر معمولی اثرات نظر آتے ہیں اورنوجوانوں کی بڑی تعداد میں غیر محرموں سے محبت اور شناسائی کے رجحانات پیدا ہوتے ہیں۔ اس طرز عمل کے نتیجے میں معاشرے میں کئی مرتبہ مردوزن کے اختلاط اور بے حیائی کو فروغ حاصل ہوتا ہے اور یہ بات بڑھتے بڑھتے ناجائز تعلقات پر بھی منتج ہو جاتی ہے۔ یہ ناجائز تعلقات جہاں پر شریعت اور اخلاقیات کے حوالے سے ناپسندیدہ ہیں‘ وہیں پر ان کے نتیجے میں معاشرے میں نفرت‘ کشیدگی اور تصادم کی کیفیت بھی پیدا ہوتی ہیں اور ان تعلقات کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھنے والے لوگ ان تعلقات میں ملوث افراد کے رویوں کی وجہ سے ذہنی کوفت کا شکار ہو جاتے ہیں اور کئی مرتبہ ان تعلقات کے نتیجے میں جانی نقصان اور ضیاع کی خبریں بھی سننے کو ملتی ہیں۔
اسلام ایک ایسا مذہب ہے ‘جو اپنے ماننے والوں کو پاکیزگی اور حیاء داری کا راستہ دکھلاتا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے کتاب وسنت میں درج ذیل تدابیر بتلائی گئی ہیں:۔
1۔نگاہوں کو جھکانے اور پردے داری کا حکم:اسلام مردو وزن کے اختلاط کی بجائے ان کو نگاہوں کو جھکا کے رکھنے اور پاکدامنی کے تحفظ کرنے کا درس دیتا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ عورتوں کو پردے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ سورہ نور کی آیت نمبر 30‘31میں ارشاد ہوا: ''مومن مردوں سے کہہ دیجئے (کہ )وہ نیچی رکھیں اپنی نگاہیں اور وہ حفاظت کریں اپنی شرمگاہوں کی یہ زیادہ پاکیزہ ہے ان کے لیے بے شک اللہ خوب خبردار ہے‘ اس سے جو وہ کرتے ہیں۔ اور کہہ دیجئے مومن عورتوں سے (بھی) (کہ) وہ نیچی رکھیں اپنی نگاہیں اور وہ حفاظت کریں اپنی شرمگاہوں کی اور نہ وہ ظاہر کریں اپنی زینت کو ‘مگر جو (خود) ظاہر ہو جائے اس میں سے اور چاہیے کہ وہ ڈال کررکھیں اپنی اوڑھنیوں کو اپنے گریبانوں پر‘ اور نہ وہ ظاہر کریں اپنی زینت (بناؤ سنگھار) کو مگر اپنے خاوندوں کے لیے یا اپنے باپوں (کے لیے) یا اپنے خاوندوں کے باپوں (کے لیے) یا اپنے بیٹوں (کے لیے) یا اپنے شوہروں کے (دیگرـ )بیٹوں (کے لیے) یا اپنے بھائیوں (کے لیے)یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں (بھتیجوں کے لیے) یااپنی بہنوں کے بیٹوں (بھانجوں کے لیے)یا اپنی عورتوں (کے لیے) یا (ان کے لیے ) جن کے مالک بنے ان کے دائیں ہاتھ (یعنی زرخرید غلاموں کے لیے ) یا ان بچوں (کے لیے) جو نہیں واقف ہوئے عورتوں کی چھپی باتوں پر اور نہ وہ مارا کریں اپنے پاؤں (زمین پر) تاکہ جانا جائے جو وہ چھپاتی ہیں اپنی زینت سے ۔‘‘
2۔نکاح کی ترغیب: بے راہ روی اور بے حیائی کے خاتمے کے لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کی بھی رغبت دلائی ہے؛ چنانچہ کوئی بھی شخص جو بلوغت کی عمر کو پہنچ جاتا ہے اس کا جلد از جلد نکاح کرنا چاہیے اور اس حوالے سے اس کی اقتصای حالت مستحکم نہ بھی ہو تب بھی پاکدامنی کے حصول کے لیے نکاح کرنا چاہیے۔ نکاح کرنے والوں کی اقتصادی حالت کو اللہ تبارک وتعالیٰ بہتر بنا دیتے ہیں؛ چنانچہ سورہ نور کی آیت نمبر 32میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ''اور نکاح کرو بے نکاح (مردوں اور عورتوں کا) اپنے میں سے اور (ان کا جو ) نیک ہیں تمہارے غلاموں میں سے اور تمہاری لونڈیوں (میں سے) اگر وہ ہوں گے محتاج (تو) غنی کر دے گا انہیں‘ اللہ اپنے فضل سے اور اللہ (بڑا) وسعت والا خوب جاننے والا ہے۔‘‘
اسی طرح صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ سے روایت ہے ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اگر کوئی صاحب طاقت ہو تو اسے نکاح کر لینا چاہیے‘ کیونکہ نظر کو نیچی رکھنے اور شرمگاہ کو بدفعلی سے محفوظ رکھنے کا یہ ذریعہ ہے اور کسی میں نکاح کرنے کی طاقت نہ ہو تو اسے روزے رکھنے چاہئیں ‘کیونکہ وہ اس کی شہوت کو ختم کر دیتا ہے۔
بد نصیبی سے ہمارے معاشرے میں نکاح کو مشکل بنا دیا گیا۔ نکاح کے موقع پر جہیز کی طلب اور شادی کے دیگر اخراجات اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ اوسط درجے کا آدمی بھی اپنی اولاد کا نکاح کرنے کے وقت پریشانی اور معاشی دباؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔ معاشرے میں نکاح آسان بنانے کی جستجو کرنی چاہیے اور اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ نکاح کو جس قدر آسان بنایا جائے گا‘ اتنا ہی معاشرے سے بے راہ روی کے خاتمے کے امکانات پیدا ہوں گے۔
3۔ شرعی سزاؤں کا نفاذ :معاشرے میں بعض لوگ بری نظر اور بری نیت کے حامل ہوتے ہیں اور وہ پاکدامنی کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے بے راہ روی کا ارتکاب کرنے پر آمادہ وتیار رہتے ہیں۔ ایسے لوگ نکاح سے اطمینان حاصل کرنے کی بجائے بدکاری کو اپنا شعار بنا لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی روک تھام کے لیے شریعت اسلامیہ نے کڑی سزاؤں کو مقرر کیا ہے؛ چنانچہ کوئی بھی غیر شادی شدہ شخص اگر بدکرداری کا ارتکاب کرے تو اسلام نے اس کے لیے سو کوڑوں کی سزا کو مقرر کیا ہے‘ جبکہ شادی شدہ شخص اگر بدکرداری کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کے لیے رجم کی سزا کو مقرر کیا گیا ہے۔ سورہ نور کی آیت نمبر 2میں اللہ تبارک وتعالیٰ غیر شادی شدہ زانی کی سزا کو یوں بیان فرماتے ہیں: ''زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والے مرد کو کوڑے مارو ‘ان دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے اور نہ پکڑے تمہیں ان دونوں سے متعلق نرمی اللہ کے دین میں ‘اگر ہو تم ایمان لاتے اللہ اور یوم آخرت پر اور چاہیے کہ حاضر ہو‘ ان دونوں کی سزا کے وقت مومنوں میں سے ایک گروہ۔ ‘‘
اس کے بالمقابل شادی شدہ زانی کو رجم کرنے کی سزا کا ذکر بھی آیا ہے‘ جس کا مفصل بیان احادیث مبارکہ میں موجود ہے۔ صحیح بخاری میں اس حوالے سے حدیث درج ذیل ہے:۔
''حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی آیا اور عرض کیا؛ یا رسول اللہ! ہمارے درمیان کتاب اللہ سے فیصلہ کر دیجیے۔ دوسرے فریق نے بھی یہی کہا کہ اس نے سچ کہا ہے۔ آپ ہمارا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کر دیں۔ دیہاتی نے کہا کہ میرا لڑکا اس کے یہاں مزدور تھا‘ پھر اس نے اس کی بیوی سے بدکاری کی۔ قوم نے کہا تمہارے لڑکے کو رجم کیا جائے گا‘ لیکن میں نے اپنے لڑکے کے اس جرم کے بدلے میں سو بکریاں اور ایک باندی دے دی‘ پھر میں نے علم والوں سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اس کے سوا کوئی صورت نہیں کہ تمہارے لڑکے کو سو کوڑے لگائے جائیں اور ایک سال کے لیے ملک بدر کر دیا جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛میں تمہارا فیصلہ کتاب اللہ ہی سے کروں گا۔ باندی اور بکریاں تو تمہیں واپس لوٹا دی جاتی ہیں؛ البتہ تمہارے لڑکے کو سو کوڑے لگائے جائیں گے اور ایک سال کے لیے ملک بدر کیا جائے گا اور انیس تم ( یہ قبیلہ اسلم کے صحابی تھے ) اس عورت کے گھر جاؤ اور اسے رجم کر دو ( اگر وہ زنا کا اقرار کر لے ) چنانچہ انیس گئے‘ اور ( چونکہ اس نے بھی زنا کا اقرار کر لیا تھا اس لیے ) اسے رجم کر دیا۔‘‘
ان اہم احکامات کے ساتھ ساتھ کتاب وسنت میں فحاشی پھیلانے والوں کی بھی شدید انداز میں مذمت کی گئی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نور کی آیت نمبر 19میں ارشاد فرماتے ہیں: ''بے شک جو لوگ پسند کرتے ہیں کہ پھیلے بے حیائی ان لوگوں میں جو ایمان لائے ان کے لیے دردناک عذاب ہے‘ دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘ان آیات اور احادیث مبارکہ سے اس بات کو پہچاننا کچھ مشکل نہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ معاشرے میں فحاشی اور عریانی پھیلانے والوں کو ناپسند فرماتے ہیں؛ چنانچہ اہل ایمان کو بھی فحاشی اور عریانی سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے معاشرے کو بے حیائی اور بے راہ روی سے پاک فرما دے۔ (آمین )

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved