لندن ایک بار پھر پاکستانی سیاست کا محور بن گیا ہے۔بتایا جارہا ہے کہ کسی ایک شہباز شریف کی ایک اہم ملاقات ہوئی ہے‘ اور کہا جارہا ہے کہ اس سرد موسم میں کچھ اہم فیصلے متوقع ہیں‘ جس سے دونوں طرف برف پگھل سکتی ہے۔کچھ گلے شکوے بھی ہوئے ہیں اور کچھ نئے وعدے بھی کیے گئے ہیں‘ نیز شہباز شریف جلد وطن لوٹ رہے ہیں۔یہ بھی یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ مزید لیگی رہنماؤں کو گرفتار نہیں کیا جائے گا اور نیب کے اسیران پر نظر کرم ہوگی۔ لندن پلان کے تحت‘ لیگی رہنماؤں میں سے کچھ اس وقت لندن میں موجود ہیں اور میاں نواز شریف اور شہباز شریف کے ساتھ ان کی مشاورت جاری ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ لیگی رہنما ناراض پی ٹی آئی رہنماؤں کو پارٹی سے توڑنے کی کوشش کریں گے اور حکومت کے ناراض اتحادیوں کو اپنے ساتھ ملانے کی بھی کوشش کریں گے۔یوں مسلم لیگ (ن )مارچ اور اپریل میں اپنی بھرپور سیاسی سرگرمیاں شروع کردے گی۔کافی عرصے سے منظر نامے سے غائب چوہدری نثار بھی سیاسی افق پر نمودار ہوئے ہیں اور پی آئی اے کی پرواز 785 سے لندن پہنچ رہے ہیں۔بتایا گیا ہے کہ ان کے لندن وزٹ کا مقصد طبی معائنہ ہے‘ لیکن امکان ہے کہ وہ اہم ملاقاتیں کریں گے اوراگر وہ نواز شریف کی عیادت کے لیے گئے تو گزشتہ کچھ برسوں سے جاری سرد مہری میں بھی کمی آجائے گی۔ لندن میں سیاسی رہنماؤں کی یہ اہم ملاقاتیں‘ کسی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوں گی یا نہیں؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ شریف خاندان گزشتہ چند برسوں سے زیر عتاب ہے۔پانامہ پیپرز ان کی مالیاتی کرپشن سامنے لے آئے‘ اس کے ساتھ لندن میں پینٹ ہاؤسز‘ٹی ٹی سکینڈل اور زلزلہ زدگان کے فنڈز میں خرد برد کے الزامات کے زد میں آیا شریف خاندان اپنے سیاسی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔اس سے پہلے عوام میں صرف یہ تاثر تھا کہ کرپشن صرف پی پی پی کرتی ہے‘ لیکن پانامہ پیپرز نے اس تاثر کو زائل کردیا اور مسلم لیگ( ن) کا نیا چہرہ عوام کے سامنے آیا‘ جس پر کرپشن کے داغ تھے۔مسلم لیگ (ن) نے اس کو جمہوریت کے خلاف سازش قرار دیا‘ لیکن اپنے دفاع میں ٹھوس شواہد نہ پیش کرسکی اور میاں محمد نواز شریف‘ وزیر اعظم کے عہدے سے برطرف کر دئیے گئے۔اس دوران بیگم کلثوم نواز کی رحلت ایک سانحہ تھی‘ جس نے شریف خاندان کو انتہائی رنجیدہ کردیا۔میاں محمد نواز شریف اور مریم نواز شریف اُس وقت جیل میں تھے ‘جس وقت بیگم کلثوم نواز کا انتقال ہوا اور یہ بات ان کے لیے ہمیشہ باعث ِتکلیف رہے گی کہ وہ آخری لمحات میں ان کے ساتھ نہیں تھے۔ میاں محمد نواز شریف اس وقت علاج کیلئے لندن میں ہیں اور مریم نواز ضمانت پر ہیں‘ لیکن وہ خاموش ہیں‘ ان کا ٹوئٹر خاموش ہے۔سوشل میڈیا صارفین کی بڑی تعداد ان کو ٹوئٹر پر مس کررہی ہے‘ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ شاید وہ مصلحت پسندی سیکھ گئی ہیں۔اس سے پہلے ہم نے ان کا نڈر اور بے خوف چہرہ دیکھا اور یہ کہا جاتا رہا کہ جیل کی سختی بھی ان کے مضبوط ارادوں کو توڑ نہیں سکی۔خیر اب جو خبریں آ رہی ہیں کہ لندن کے ہوٹل میں کچھ اہم شخصیات کی ملاقات ہوئی ہے‘ کیا یہ لندن پلان کسی تبدیلی کا پیش خیمہ ہیں؟دوسری طرف کہا جا رہا ہے کہ مقتدر حلقے فی الحال شریف خاندان کو پاور سرکل سے باہر رکھنے کے خواہاں ہیں‘تاہم مسلم لیگی قیادت کو یہ یقین ہے کہ نئے پولیٹیکل گیم میں ان کو ضرور کچھ اہم حصہ ملے گا‘ کیونکہ اگر پی ٹی آئی ڈلیور نہ کرسکی ‘تو ان کو باری ملے گی ۔شہباز شریف اس اہم ملاقات کے بعد اپنے بڑے بھائی نواز شریف سے ملے اور ان سے مشاورت کی اور بتایا گیا ہے کہ جلد ہی شہباز شریف وطن واپس لوٹ رہے ہیں۔یوں شہباز شریف کی واپسی نا صرف صوبائی طور پر بلکہ مرکز میں بھی ایوان کے اندر تبدیلیوں کا باعث بنے گی۔ دوسری طرف پی ٹی آئی بھی پاور سرکلز کی ملاقاتوں سے بے خبر نہیں اور اپنے اتحادیوں کے ساتھ مذاکرات میں مصروف ہے۔پی ٹی آئی حکومت پر اپنی گرفت کمزور نہیں ہونے دے رہی اور سمجھداری سے سیاسی چالیں چل رہی ہے۔لاہور پلان کے تحت حکومتی مذاکراتی کمیٹی نے چوہدری برادران کی رہائش گاہ پر پرویز الٰہی ‘مونس الٰہی ‘طارق چیمہ اور کامل علی آغا سے ملاقات کی۔حکومت کی مذاکراتی کمیٹی میں گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور‘ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار‘ وفاقی وزراء شفقت محمود‘ اسد عمر اور پرویز خٹک شامل تھے۔حکومت کی یہ کوشش ہے کہ لندن ملاقاتوں کے بعد ان کی گرفت اقتدار پر ڈھیلی نہ ہو اور ان کے اتحادی ناراض ہوکر کہیں دوسری طرف نہ دیکھنا شروع ہوجائیں۔اس لیے حکمراں فی الحال سب کو خوش کرنے کی کوشش میں لگے ہیں۔ لندن پلان کے مطابق‘ فی الحال نواز شریف‘ شہباز شریف‘ مریم نواز اور حمزہ شہباز کو سیاسی افق سے دور رکھا جائے گا۔مسلم لیگ (ن )کی دیگر سینئر قیادت کو آگے لایا جائے گا ‘تاہم کسی قومی حکومت کے آنے کا امکان نہیں ‘تبدیلی صرف اِن ہاؤس نظر آئے گی۔اس سلسلے میں گزشتہ دنوں کچھ سیاست دان ‘ایک بزرگ شخصیت سے پنجاب میں ملے تھے‘ تاہم پاور سرکلز اس وقت عمران خان کو ہی اقتدار کی کرسی پر دیکھنا چاہتے ہیں۔الغرض مسلم لیگ (ن) لندن میں متحرک ہے اور تحریک انصاف لاہور میں متحرک ہے۔لندن پلان بمقابلہ لاہور پلان ہے‘تاہم یہ کہا جارہا ہے کہ لندن ہوٹل میں ہونے والی ملاقات کے بعد شہباز شریف سے خوش ہیں اورانہوں نے پاکستان واپسی کی تیاری شروع کردی ہے۔دوسری طرف چوہدری برادران کے ساتھ مذاکرات کے بعد تحریک انصاف بھی مطمئن ہے کہ تخت ِلاہور کو فی الحال کوئی خطرہ نہیں۔ مسلم لیگ(ن) کے رہنما ہارون اختر کی وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات ‘کے بارے میں یہ خبر گرم ہے کہ ان کو ایف بی آر میں جگہ دی جارہی ہے اور وہ وزیر اعظم عمران خان کی اقتصادی ٹیم کے ساتھ کام کریں گے‘جبکہ پی ٹی آئی کے سٹار شبر زیدی بیماری کی وجہ سے رخصت لے چکے ہیں۔پی ٹی آئی کے ذرائع کے مطابق‘ اگر ہارون اختر کو لیا گیا تو پی ٹی آئی کو نقصان ہوگا اور پی ٹی آئی کے اندر سے مخالفت بھی آئے گی۔ہارون اختر ‘اسحاق ڈار کی ٹیم کا حصہ تھے‘ کیا تحریک انصاف‘ مسلم لیگ(ن) کی معاشی پالیسی کو آگے لے کر چلے گی؟ یہ ایک بڑا سوال ہے۔ حکومت اقتصادی امور سنبھالنے میں تاحال ناکام ہے اور عوام مہنگائی سے سخت پریشان ہیں۔وزیر اعظم عمران خان کی آدھی کابینہ پرویز مشرف کی کابینہ پر مشتمل ہے۔ کیا پرانے چہرے تبدیلی لانے میں معاون ثابت ہوں گے؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا‘ تاہم شطرنج کی بساط ایک بار پھر سج چکی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کس کو شہ ملے گی اور کسی کو شہ مات؟ یہ پاکستان کے وہ طاقت ور حلقے طے کریں گے‘ جو ہمیشہ سے فیصلہ ساز ہیں۔