ترک صدر رجب طیب اردوان ایسے وقت میں پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں جب مقبوضہ جموں و کشمیر پر پاکستان کو سفارتی محاذ پر دوستوں کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے اور مسلم دنیا کے درمیان موجود اختلافات سفارتی کوششوں میں توازن کے بھی متقاضی ہیں۔ حال ہی میں کوالالمپور کانفرنس سے پاکستان کی غیر حاضری اور اس کی وجوہ سے ایک سفارتی بحران کی کیفیت پیدا ہوئی۔ ترک صدر نے پاکستان کی مجبوریوں کا ذکر کیا، ملائیشیا کے وزیر اعظم نے بھی ترک صدر کے بیانات کی اشارے کنایہ میں تائید کی لیکن دونوں برادر ملکوں نے کسی سخت رد عمل سے گریز کیا۔
وزیر اعظم عمران خان کی کوالالمپور کانفرنس سے غیر حاضری پاکستان کے لیے سفارتی طور پر خفت کا باعث بنی۔ بین الاقوامی میڈیا نے پاکستان کو عرب دنیا کا دست نگر بتایا اور تبصرے کئے کہ عربوں سے امداد لینے والوں کی خارجہ پالیسی آزاد نہیں ہو سکتی۔ پاکستان نے اس سفارتی کمزوری کو دور کرنے کی کوشش کی اور وزیر اعظم عمران نے خان نے ملائیشیا کا دورہ کیا اور اب ترک صدر دو روزہ دورے پر اسلام آباد آ رہے ہیں۔
ترک صدر دورہ پاکستان کے دوران اعلیٰ سطح کی سٹریٹیجک تعاون کونسل کے چھٹے راؤنڈ میں شریک ہوں گے اور چوتھی بار پاکستان کی پارلیمنٹ سے خطاب کریں گے ۔ صدر رجب طیب اردوان کا یہ دورہ دونوں ملکوں کے مضبوط ہوتے تعلقات کا عکاس ہے۔ صدر اردوان کے ساتھ ترک تاجروں اور سرمایہ کاروں کا وفد بھی آ رہا ہے؛ چنانچہ دونوں ملکوں کے مابین تجارت پر جامع مذاکرات ہوں گے۔ اس موقع پر دونوں ملکوں کے درمیان سرمایہ کاری کے معاہدے بھی متوقع ہیں۔
صدر رجب طیب اردوان کے دورہ کے دوران ترکی کو سی پیک میں شمولیت کی باضابطہ دعوت دی جائے گی‘ جس سے دونوں ملکوں کے مابین تعاون کے نئے امکانات پیدا ہوں گے۔ اپریل دو ہزار انیس میں استنبول، تہران، اسلام آباد تجارتی راہداری کا بھی افتتاح ہوا تھا۔ یہ تجارتی راہداری براہ راست وسطی ایشیا کے ساتھ تجارت کا اہم روٹ ہے۔ ترکی کی سی پیک میں شمولیت اس حوالے سے بھی اہم ہو گی۔ وزیر اعظم عمران خان نے حال ہی میں ترک سرکاری خبر ایجنسی اناطولیہ سے انٹرویو میں کہا تھا کہ پاکستان کو کان کنی اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کے شعبوں میں ترکی کی مدد درکار ہے۔ صدر رجب طیب اردوان کے اس دورے کے دوران ان شعبوں میں نئے مشترکہ منصوبوں پر معاہدوں کی بھی امید کی جا رہی ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان سکیورٹی اور دفاعی معاہدے بھی متوقع ہیں۔ 2000ء سے دونوں ملکوں کے درمیان ملٹری اور ایئر فورس ٹریننگ کا ایکسچینج پروگرام بھی جاری ہے۔ ترکی پاکستان کے ایف سولہ طیاروں کی مرمت میں بھی مدد دیتا ہے۔ ترکی، چین کے بعد‘ پاکستان کو اسلحہ فراہم کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔ پاکستان اور ترکی کے اعلیٰ سطحی سول و عسکری تعلقات 1988ء میں تشکیل دیئے گئے پاک ترک ملٹری مشاورتی گروپ کے تحت پروان چڑھتے رہے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ مضبوط سٹریٹیجک اور فوجی تعلقات کی وجہ سے ترکی کو ایشیا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے میں مدد ملی ہے اور نیٹو کے موجودہ اختلافات اور حالات میں ایشیا میں یہ اثر و رسوخ ترکی کے لیے امکانات کے نئے در وا کرتا ہے۔ پاکستان کے ساتھ عسکری تعلقات ترکی کو یورپ اور مشرق کے درمیان توازن برقرار رکھنے میں بھی مدد دیتے ہیں۔
ترکی بھی پاکستان کا قابل اعتماد دوست ہے جس نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی ہمیشہ حمایت کی۔ ترک صدر نے مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اٹھایا۔ ترک میڈیا نے کشمیر میں بھارتی ظلم کو اجاگر کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ ترکی کے اس کردار کی وجہ سے بھارت ترکی کے ساتھ تجارتی تعلقا تقریباً توڑ چکا ہے اور ترکی کی سٹیل مصنوعات پر غیر علانیہ پابندی لگ چکی ہے۔ اس کے باوجود ترکی کی پاکستان کے لیے حمایت غیرمتزلزل رہی ہے۔ ترکی نے ایف اے ٹی ایف اور نیوکلیئر سپلائر گروپ میں بھی ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ حالیہ برسوں میں ترکی اور پاکستان کے درمیان تعاون اور دوستی اس قدر مضبوط ہوئی ہے کہ سعودی عرب بھی اسے پاکستان میں اثرورسوخ کم ہونے کی خدشات کے ساتھ دیکھتا ہے اور کوالالمپور کانفرنس میں شرکت سے روکنے کی بھی شاید یہی وجہ تھی۔ اب سعودی عرب نے کشمیر پر او آئی سی اجلاس بلانے سے انکار کرکے پاکستان کو خود ملائیشیا اور ترکی کی جانب دھکیلا ہے۔ پاکستان نے سعودی عرب کو سی پیک میں تیسرا پارٹنر بننے کی پیشکش کی تھی لیکن سعودی عرب امریکا کا بڑا اتحادی ہونے اور دفاعی انحصار واشنگٹن پر ہونے کی وجہ سے چین کے اشتراک والے منصوبوں میں زیادہ سرگرمی نہیں دکھا سکتا۔ اب پاکستان ترکی کو تیسرا پارٹنر بنانے کی پیشکش کر رہا ہے۔ اس نئی پارٹنرشپ پر سعودی عرب کو تحفظات ہو سکتے ہیں؛ چنانچہ پاکستان کے خارجہ امور کے ذمہ داروں کو انقرہ اور ریاض کے درمیان توازن کی بھرپور کوشش کرنا پڑے گی۔
شام کے معاملے پر ترکی اور سعودی عرب کے نقطہ نظر میں بڑا اختلاف ہے۔ سعودی عرب شام کے صدر بشارالاسد کا مخالف ہے اور ترکی کو بھی بشارالاسد کی پالیسیوں سے اختلاف ہے۔ اس اختلاف کی وجہ سے ترکی ایران، روس اور چین کے قریب آیا ہے۔ ترکی، ایران، روس اور چین کے ساتھ پاکستان کا ایک سٹریٹیجک اتحاد بھی ممکن ہے لیکن اس اتحاد کو سعودی عرب اور امریکا کی جانب سے مشکلات کا سامنا ہو گا۔
عرب دنیا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بہت اچھے اور مضبوط ہیں لیکن عرب ممالک کے رہنماان تعلقات کو مفادات کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں۔ پاکستان کو امریکی کیمپ سے جوڑے رکھنے میں بھی یہی عرب شیوخ مدد دیتے ہیں۔ مفادات کے اس کھیل کو ماضی قریب کے کچھ واقعات کے تناظر میں دیکھنا ہو گا۔ متحدہ عرب امارات میں ہونے والے او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس میں اس وقت کی بھارتی وزیر خارجہ آنجہانی سشما سوراج کی گیسٹ آف آنر کی حیثیت سے شرکت زیادہ پرانی بات نہیں۔ عرب امارات کے شیوخ کے مودی کے ساتھ ذاتی دوستی کی حد تک تعلقات اور امارات میں مودی کے لیے جلسہ کی سہولت اور مندر کا افتتاح بھی پاکستان، بھارت کے ساتھ تعلقات کے عدم توازن کے عکاس ہیں۔
عرب شیوخ کے حوالے سے یہ اشارے کسی تعصب کی بنیاد پر نہیں بلکہ صرف یہ واضح کرنے کے لیے ہیں اگر عرب ملک تجارتی مفادات کے لیے پاکستان کی دوستی اور ناراضگی کی پروا نہیں کرتے تو ہمیں بھی یہ سمجھنا ہو گا کہ ملکوں کے درمیان تعلقات قومی مفادات کی بنیاد پر ہوا کرتے ہیں، ان میں مذہبی پہلو کی اہمیت ایک حد تک ہی رہنی چاہئے۔
ایران نے حال ہی میں پانچ ملکی بلاک کی تجویز پیش کی ہے جس میں ترکی، پاکستان، ایران، روس اور چین شامل ہوں۔ ملکوں کی ترقی میں علاقائی تعاون اور رابطے اہم ہوتے ہیں۔ باضابطہ بلاک بنایا جائے یا نہیں، یہ اہم نہیں ہے بلکہ ان پانچ ملکوں کے درمیان اچھے روابط علاقائی سالمیت و استحکام کے لیے بہتر ہوں گے۔ ایسے کسی بلاک یا فورم کی تشکیل میں پاکستان کو سفارتی توازن کی ضرورت ہو گی تاکہ عرب دنیا اور امریکا کے ساتھ مخالفت مول لیے بغیر علاقائی تعاون کو بڑھا کر اقتصادی اور سٹریٹیجک مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔
ایران کو اس طرح کے کسی اتحاد میں لا کر تہران پر بھارت کا اثر و رسوخ کم کیا جا سکتا ہے اور افغان مسئلہ میں بھی ایران کی مدد حاصل کی جا سکتی ہے۔ افغان طالبان اور ایران کے تعلقات ڈھکے چھپے نہیں۔ افغان طالبان کے سابق امیر ملا اختر منصور ایران سے واپسی پر بلوچستان میں امریکی ڈرون حملے کا شکار ہوئے تو پہلی بار افغان طالبان اور تہران رابطے کھل کر دنیا کے سامنے آئے تھے۔ اس کے بعد افغان طالبان کے سیاسی وفود نے کھلے عام تہران کے دورے شروع کئے اور افغان امن عمل میں تہران کو بھی اعتماد میں لیا جاتا رہا۔ بھارت افغانستان میں بھی اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش میں ہے اور ایرانی رابطوں کو اپنے مفاد میں استعمال کر سکتا ہے۔ ایران کے ساتھ بہتر تعلقات اور نیا بلاک خطے میں بھارتی اثر و رسوخ توڑنے میں بھی مدد دیں گے۔