انسان بھی کیا عجیب مزاج کا حیوان واقع ہوا ہے۔ ایک بات پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے اور وہ یہ کہ انسان کے مزاج کے حوالے سے کوئی بھی بات پورے تیقّن سے نہیں کہی جاسکتی! قصہ یہ ہے کہ جس بات پر کوئی ہتّھے سے اکھڑ سکتا ہے اور قتل بھی کرسکتا ہے ‘اُسی بات سے کسی کے کانوں پر جُوں تک نہیں رینگتی۔ کبھی کبھی انسان قیامت خیز لمحات کو بھی جھیل جاتا ہے اور کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ کوئی معمولی سا کام نہ ہونے پر بھوکے شیر کی طرح بپھر جاتا ہے۔
کچھ ایسا ہی معاملہ چھوٹی چھوٹی عادات کا بھی ہے۔ یہ خیال عام ہے کہ انسان کے پاس کھانے کو کچھ نہ ہو تو وہ چوری پر مجبور ہو جاتا ہے۔ زندہ رہنے کے لیے انسان کچھ بھی کرسکتا ہے۔ خیر‘ اگر کوئی مجبوری کی حالت میں پیٹ بھرنے کے لیے کچھ چُرا بھی لے تو معاملہ ایسا نہیں کہ سمجھ میں نہ آسکے۔ یہ افسوس کی بات ضرور ہے‘ اچنبھے کی نہیں۔ مشکل یہ ہے کہ اس نوعیت کی کوئی عادت پروان چڑھ جائے تو آسانی سے جان نہیں چھوڑتی۔ دیکھا گیا ہے کہ لوگ بہت سی چھوٹی چھوٹی عادات سے چھٹکارا پانے کی کوشش نہ کرنے کا خمیازہ اس طور بھگتتے ہیں کہ نوکری نہیں بلکہ کیریئر ... اور کبھی کبھی تو زندگی ہی داؤ پر لگ جاتی ہے۔ سگریٹ پینے کی عادت ہی کو لیجیے ‘جو کبھی کبھی بہت بڑی آتشزدگی کا سبب بن جایا کرتی ہے۔ کچرا ڈھنگ سے ٹھکانے لگانے کی عادت پروان نہ چڑھائی گئی ہو تو یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی کی طرف سے شدید عدم احتیاط کے ساتھ پھینکا ہوا تھوڑا کچرا بھی کسی کے لیے شدید پریشانی یا نقصان کا باعث بنتا ہے۔ مثلاً کوئی کیلا کھاکر چھلکا یونہی پھینک دے تو پھسل کر گرنے پر کسی کی ٹانگ فریکچر ہوسکتی ہے۔
بچپن میں چوری کی عادت پڑگئی ہو تو انسان بے دھیانی کے عالم میں ایسی غلطی کر بیٹھتا ہے کہ لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ بہت سوں میں چراکر کھانے کی عادت پائی جاتی ہے۔ بچپن میں پڑنے والی یہ عادت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ توانا ہوتی جاتی ہے‘ پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے‘ جب انسان کچھ چراتا ہے تو اس کی نظر مالی فائدے پر نہیں ہوتی ‘بلکہ ایسا کرنے سے اُس کے نفس کی تسکین ہو رہی ہوتی ہے۔
کچھ دن قبل ایک ایسی خبر آئی جس نے ایک بار پھر یہ نکتہ درست کردیا کہ جس طور محض ایک غلط کلک سے کمپیوٹر میں بہت کچھ بگڑ جاتا ہے ‘بالکل اُسی طور کوئی ایک چھوٹی سی غلط عادت پورے وجود کو لے ڈوبتی ہے۔ بات کچھ یوں ہے کہ بھارتی نژاد پارس شاہ کو معروف مالیاتی ادارے سٹی گروپ نے معطل کردیا۔ پارس شاہ معمولی بینکر نہ تھا۔ وہ سی گروپ کے لندن ہیڈ کوارٹرز میں ہائی ییلڈ بانڈز کے شعبے کا سربراہ تھا۔ اس کا سالانہ پیکیج دس لاکھ پاؤنڈ تھا! غیر معمولی پیکیج کے ساتھ قابلِ رشک انداز کی زندگی بسر کرنے والا پارس شاہ گرا بھی تو کس گڑھے میں؟ معمولی سی چوری اُسے لے ڈوبی۔ سی سی ٹی وی فوٹیج کی معرفت یہ بات سامنے آئی کہ پارس شاہ نے ادارے کی کینٹین سے متعدد بار سینڈوچ چراکر کھائے! مالیات کی دنیا میں یہ اپنی نوعیت کا کوئی انوکھا واقعہ نہیں۔ ایسا کئی بار ہوا ہے کہ کسی کے لیے لاکھوں ڈالر یا لاکھوں پاؤنڈ سالانہ کا پیکیج طے کیا گیا‘ ادارے نے شاندار رہائش فراہم کی‘ اضافی سہولتیں بھی دی گئیں ‘مگر پھر بھی وہ ہیرا پھیری سے باز نہ آیا اور بہت ہی چھوٹی حرکتوں کے ذریعے اپنی لُٹیا ڈبو بیٹھا۔
اسی طرح کی ایک اور واقعہ بھی سن لیجیے؛ جاپان کے مزوہو بینک نے اپنے لندن آفس میں ایک ایگزیکٹیو کو محض اس لیے فارغ کردیا تھا کہ اُس نے ادارے کے پارکنگ لاٹ میں دفتری ساتھی کی موٹر سائیکل سے صرف 9 ڈالر مالیت کا پُرزہ چرالیا تھا! دیکھا آپ نے؟ موٹر سائیکل کا صرف 9 ڈالر کا پُرزہ چراکر جناب نے اپنے کیریئر کے انجن کا بیڑا غرق کرلیا۔ انسان جب اپنے ہی خلاف گل کھلانے پر اُتر آئے تو پھر پستی کی کوئی حد مقرر نہیں کی جاسکتی۔
اسی طرح کے ایک اور واقعے میں لندن کے ایک معروف بینک نے اپنے ایک اعلیٰ افسر کو‘ جو سالانہ لاکھوں پاؤنڈ کا پیکیج پاتا تھا‘ صرف اس لیے فارغ کردیا تھا کہ وہ روزانہ اپنے اپارٹمنٹ سے دفتر آنے کے لیے ریلوے کا ٹکٹ نہیں لیا کرتا تھا! ٹکٹ کتنے کا تھا؟ صرف ڈیڑھ پاؤنڈ کا‘ یعنی ماہانہ زیادہ سے زیادہ 80 پاؤنڈ کا خرچ! اتنے معمولی سے خرچ کو بچانے کے لیے حضرت نے اپنے انتہائی شاندار کیریئر کوہی پر داغ لگوالیا! ہے نا ں کتنے افسوس کی بات؟
انسانی مزاج کی پیچیدگیاں سمجھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ کوئی بھی بُری عادت اگر پنپ جائے تو اپنی اصل میں چھوٹی سی ہونے پر بھی اثرات کے اعتبار سے بہت بڑی نکلتی ہے‘ کیونکہ فکری ساخت سے چمٹ جاتی ہے اور پھر آسانی سے جان نہیں چھوڑتی۔ بُری عادت چھوٹی ہو تو زیادہ خطرناک ہوتی ہے ‘کیونکہ انسان اُسے بے ضرر سی جان کر نظر انداز کرتا رہتا ہے اور اس گمان کا شکار رہتا ہے کہ اُس عادت کے نتیجے میں کبھی کوئی بڑا بگاڑ پیدا نہیں ہوگا۔ زندگی محض بسر کرنے کے لیے نہیں ہوتی۔ ڈھنگ سے جینا ایک باضابطہ ہنر ہے ‘جو سیکھنا پڑتا ہے۔ یہ ہنر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم سے زیادہ توجہ کا طالب رہتا ہے۔ ہم زندگی بھر کچھ نہ کچھ سیکھتے ہی رہتے ہیں ‘مگر جو سیکھنا چاہیے وہ نہیں سیکھتے۔ زندگی کا بنیادی تقاضا ہے دانش کے آگے سرِ تسلیم خم کرنا۔ جب ہم عقلِ سلیم کو بنیاد بناکر زندگی بسر کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تب ہی ڈھنگ سے جینے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ سوچے سمجھے اور سیکھے بغیر جینے کا ایک ہی مطلب ہے ‘ اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنا۔ انسان آخری سانس تک مختلف نوعیت کی چھوٹی بڑی بُری عادتوں کا اسیر رہتا ہے۔ بہت سی بُری عادتیں بُری طرح دھوکا دیتی ہیں۔ انسان اسی خبط میں مبتلا رہتا ہے کہ کسی کو چالاکی کا پتا نہیں چلے گا اور زندگی یونہی مزے سے گزرتی رہے گی۔ ہر بُری عادت پنپتے پنپتے ایسی بھیانک شکل اختیار کرلیتی ہے کہ پھر مرتے دم تک اُس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ بے دیانتی اور چوری بھی ایسی ہی قبیح عادت ہے۔ بہت سے لوگ چھوٹی موٹی چوریوں کے عادی ہوتے ہیں اور پھر اس عادت کے ایسے اسیر ہو جاتے ہیں کہ لاکھ کوشش کرنے پر بھی جان نہیں چھوٹتی اور ایک دن کسی بڑے نقصان کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔
جو کچھ بھی ماحول میں ہوتا ہے‘ وہ صرف اس لیے ہوتا ہے کہ ہم کچھ سیکھیں۔ پارس شاہ نے اپنے ساتھ جو کچھ کیا اور پھر اُس کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ سب اس لیے ہے کہ ہم سیکھیں۔ زندگی قدم قدم پر ایسا بہت کچھ پیش کرتی ہے ‘جس سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔ اور سیکھنا ہی چاہیے۔ کبھی کبھی مزاج اور کردار میں پائی جانے والی کوئی معمولی سی خامی یا کمی بھی سب کچھ داؤ پر لگادیتی ہے۔ چھوٹے پیمانے پر چوری کی عادت بھی ایک ایسی ہی خامی یا کمی ہے‘ جس سے چھٹکارا پانا لازم ہے۔ پارس شاہ کی کہانی جیسے معاملات نوجوانوں کو سُناکر اُنہیں سمجھایا جاسکتا ہے کہ توجہ نہ دینے پر مزاج اور کردار میں ایسی بہت سی چھوٹی قباحتیں پیدا ہو جاتی ہیں‘ جو وقت گزرنے کے ساتھ راسخ ہوکر پورے وجود کو تباہی سے دوچار کرسکتی ہیں۔