تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     13-02-2020

سب سے بڑا امتحان

اس دنیا میں انسان کا سب سے بڑا امتحان کیا ہے ؟ خوشی یا غم ‘ آسائش یا تکلیف ‘ زندگی گزر ہی جاتی ہے‘ لیکن مرنے کے بعد دوبارہ اگرجی اٹھنا ہے ‘ دائمی راحت یا کبھی ختم نہ ہونے والے عذاب کا اگرسامنا کرنا ہے تو خدا کوبہرحال کھوجنا ہوگا۔ خدا پر ایمان اور وہ بھی ٹھوس دلائل کی بنیاد پر ۔ یہی انسان کا سب سے بڑا امتحان ہے۔ خدا کا وجود ہی کائنات کا سب سے بڑا سوال ہے اور ناکامی کی سزا ہمیشہ کا عذاب ۔ وہ کون ہے ‘ کیسا ہے ‘ کیا چاہتاہے ‘اس سے رابطہ کیوں کر ہو ‘زمین پر اس کا پیمبر کون ہے ؟یہ سب سوالات اس بنیادی سوال سے جڑے ہیں ۔
مشقت کرتا ایک مزدور اورایک ریاست کا سربراہ ‘ ایک لحاظ سے دونوں برابر ہیں ۔ انتہائی کامران اورناکام‘ دونوں آدمی لمحہ بہ لمحہ موت کی جانب بڑھ رہے ہیں ۔ موت سب فرق مٹا دیتی ہے ۔استاد ِ محترم پروفیسر احمد رفیق اختر کے نزدیک اس لحاظ سے حیوان اور انسان دونوں ایک برابر ہیں۔کس قدر قابلِ رحم ہوتاہے وہ وقت‘ جب دنیا جہان کے فلسفے اور سائنسز پہ عبور رکھنے والا ‘ ایک کھرب پتی انسان ایک مزدور ہی کی طرح قبر میں اتاردیا جاتا ہے ----اور پھر اس پہ مٹی پھینک دی جاتی ہے ۔ کتنا بے بس ہے انسان کہ سائنسز کے انتہائی عروج پہ پہنچ کر بھی وہ اپنے انتہائی ذہین دماغ کو مرنے سے روک نہیں سکتا۔ 
وہ منظر قابلِ دید ہوتاہے ‘ جب قبر کے سپرد کیے جانے والے کو رحم آمیز نظروں سے دیکھا جاتاہے ۔ ''بیچارہ!‘‘اسے بیچارہ کہا جاتا ہے ۔ کیا واقعی وہ بیچارہ ہے‘ جس کی روح اس کمزور انسانی بدن سے رہاہوئی ‘ جس کے تقاضے کبھی ختم ہی نہیں ہوتے؟جس پر سے حجاب ختم ہوا ۔سارے پردے جس سے اٹھ گئے اورجس پر اس زندگی کی آزمائش تمام ہوئی ‘ وہ بیچارہ ہے ؟ خدا پر ایمان کے ساتھ اگر وہ رخصت ہو اتو اس سے بڑا خوش نصیب کون ہے ؟ اب ‘ایسی دنیا میں اسے جانا ہے ‘ جہاں ہمیشہ کی زندگی ہے ‘ مکمل جسمانی صحت اور ذہنی سکون ‘ ہر خواہش کی تکمیل اور ہمیشہ کی جوانی ۔ غم نہ خوف ‘لیکن یہ نا انصافی نہیں کہ زندگی بھر خدا کی ایک جھلک بھی ہم دیکھ نہیں سکتے اور ایمان نہ لائیں تو ہمیشہ کا عذاب ؟ بھڑکتی ہوئی آگ ‘ کھولتا ہوا پانی۔ عقل کا خالق ‘ہمارا رب ایسا کیوں کرتا ہے ؟ 
جس جسم میں روح کو رکھا گیا ہے ‘ اس کی کمزوریاں اور تقاضے تو کبھی ختم ہونے میں آتے ہی نہیں۔ ہر کچھ دیر کے بعد اسے خوراک کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ہر کچھ دیر کے بعد اسے نظامِ انہضام کو خالی کرنے کی حاجت ہوتی ہے ۔ فشارِ خون اور گلوکوز کی مقدار میں ذرا سی تبدیلی اور آدمی ڈھے پڑتا ہے ۔ ؎
یوں بُنی ہیں رگیں جسم کی 
ایک نس‘ ٹس سے مس اور بس
کیا خدا یہ سمجھتا ہے کہ اس نے ہر انسان میں خود کو ڈھونڈ نکالنے کی صلاحیت رکھی ہے ۔ میں تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جو ذرا سا غورکرے گا‘ اس کے وجود کا قائل ہوجائے گا۔نشانیاں ہی اس قدر واضح اور بے حد و حساب ہیں ۔تخلیق پہ غور کا ہر راستہ اسی طرف جاتا ہے ۔ بنیادی مسئلہ تب حل ہو جاتاہے۔ رہا خدا کی رضا مندی کا حصول‘ تو وہ ایک ایسی جدوجہد ہے ‘ جو کبھی تمام نہیں ہوتی ۔ قوی امید ہے کہ بڑی بڑی خطائیں بادشاہوں کا وہ بادشاہ معاف کر دے گا۔اس تک پہنچنے کیلئے‘ مگر کن خطوط پر غور کیا جائے ؟جواب : اور کچھ نہیں تو اپنے اندر تو ہم جھانک ہی سکتے ہیں : ؎
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی 
تُو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن‘ اپنا تو بن
ایک نظر ذرا اپنے جسم پر ڈالیے۔کتنے نظام (Systems)کام کرتے ہیں تو آدمی جیتا ہے اور مہارت کمال کی ہے ؟ دھڑکتا ہوا دل جسم کے کونے کونے تک خون دوڑاتا ہے ۔ پھیپھڑوں اورمعدے کے اشتراک سے یہ خون ہر خلیے کو خوراک اور آکسیجن پہنچاتاہے ۔ گردے گندگی جسم سے نکال باہر کرتے ہیں ۔آنکھیں ‘ جو ہمارے ایجاد کردہ کیمروں کی کارکردگی جانچتی ہیں‘لہٰذا خود سب سے بہتر کیمرہ ہیں۔ سب سے با کمال تو مگر دماغ ہے ‘ جس کے حکم کے بغیر ایک انگلی بھی ہل نہیں سکتی ۔ دماغ ہی ہے کہ اربوں میل طے کر کے ہم دوسرے سیاروں پر جا اترے ہیں اور زمین کا رخ کرنے والے اجرامِ فلکی کو تباہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔
ذہانت میں ہم اس قدر برترہیں تو کیا انسان اور جانور کے دماغ میں کوئی نظر آنے والا فرق بھی ہے ؟ دیکھا جائے تو عظیم الشان ہاتھی اور ایک بلّی کی ذہانت میں کوئی فرق نہیں‘ لہٰذا حجم غیر اہم ہے ۔ ایک نامی گرامی ڈاکٹر سے  میں  نے  پوچھا تو اس نے بتایا کہ عام جانوروں کے برعکس انسان کا دماغ تہوں کی صورت میں گہرائی تک پھیلا ہوا ہے ۔اگر اسے استری کر کے پھیلا دیا جائے تو یہ بے حد طویل ہے۔ اس کے علاوہ اس میں کچھ خاص مراکز ہیں‘ جو جانوروں میں نہیں ۔کیسی عجیب بات ہے کہ دو ٹانگوں پر چلنے والے ایک جانور کی پوری نسل ذہانت پا گئی اور باقی سب کورے کے کورے ۔کوئی ہمارے قریب تک نہیں ۔
دل ‘ دماغ‘ گردے ‘ پھیپھڑے اور جگر‘ کوئی ایک بھی ناکارہ ہو جائے تو سسک سسک کر زندگی موت کی آغوش میں جا سوتی ہے ‘ پھر جانداروں کا جوڑوں کی شکل میں پیدا ہونا اور دونوں کی ایک دوسرے سے محبت ‘پیدائش کا باعث بننے والے نر اور مادہ خلیات میں 23نادیدہ کروموسوم ‘ جو شکل و صورت سمیت آدمی کی تمام خصوصیات کے ذمہ دار ہیں ۔ ایک میں بھی خرابی ہو تو انسان نارمل نہ دکھے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ لا تعداد خلیات میں سے کسی ایک میں بھی تو ان کا توازن خراب نہیں ۔ زندگی خود بخود اگی ہوتی تو ایسی کامل (perfect) کیوں کر ہوتی ؟ 
سچ تو یہ ہے کہ یہ سب تو نظر آنے والی اشیاء ہیں‘ لیکن خواہشات اور کیفیات کی کیا توجیہہ ہے ؟ خوشی ‘ غصہ اور غم؟ بعض تو ساری زندگی انتقام کی نذرکر دیتے ہیں ۔کچھ کو روپیہ کمانے کی ایسی ہوس ہے کہ زندگی اسی کھیل میں بیت جاتی ہے ؛حالانکہ اپنی دولت کا بہت معمولی حصہ وہ خرچ کر پاتے ہیں ۔ اقتداراور غلبے کی ہوس کتنوں کو موت کی نیند سلا چکی ہے ۔انہی خواہشات کے تعاقب میں عمر بیت جاتی ہے ‘پھر منفی ہی نہیں ‘ مثبت روّیہ بھی ہے ۔ بھوک سے نڈھال شخص بھی اپنی اولاد کی فکر کرتاہے ۔ خودداری ‘ ایثار اور بہادری! 
نتیجہ بہرحال ایک ہی ہے ۔ خدا موجود ہے ‘ خدا ہی موجود ہے اور نادیدہ آنکھیں ہر دم ہماری نگران ہیں۔یہ بھی کہ اس کے وجود کی شہادت پانا ایسا مشکل نہیں۔ دوسرا اہم ترین سوال یہ ہے کہ خوو پر اس نے ایسا حجاب کیوں بن لیا؟ کیا ایک چھوٹے سے امتحان کو اس نے ہمیشہ کے قرار کا رستہ بنایا؟یا اس لیے کہ بن دیکھے ایمان لانے والوں کی خطائیں بخشنے کی کوئی صورت پیدا کی جائے؟ میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ۔ اتنے اہم سوال پر یوں چلتے چلتے تبصرہ کیا جا بھی نہیں سکتا۔ قارئین میں سے شاید کوئی اس کا جواب دے سکے ۔ شاید ! آئیے خدا سے التجا کرتے ہیں کہ وہ ہماری خاطر اس حجاب کو ذرا سا اٹھا لے ۔ وہ خود ہی تو کہتا ہے ''اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کر سکتے‘ مگر جتنا وہ چاہے ۔
کاش اللہ! اپنے نور سے ہماری عقل پہ پڑے پردے اٹھا دے---- !

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved