پاکستان کی سیاست پر یہ مصرعہ بہت ہی صادق آتا ہے ''ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں‘‘ ہمارے ہاں حکومت بنانا اور گرانا انتہائی آسان‘ لیکن حکومت چلانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔ پارلیمان میں عددی اکثریت اس بات کی ہرگز ضمانت نہیں ہوتی کہ حکومت کو پانچ برس کے لئے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ دنیا بھر کی جمہوریتوں میں بالعموم پارلیمان اور حکومتوں کو کام کرنے اور آئینی مدت پوری کرنے کا موقع دیا جاتا ہے اور عوامی اور قومی ایشوز کی بنیاد پر اپوزیشن سیاست کرتی ہے اور اگر اہم قومی امور پر حکومت سمجھے کہ موجودہ مینڈیٹ کے تحت امور مملکت چلانا اور پارٹی منشور پر عمل درآمد ممکن نہیں ہے تو حکمراں جماعت خود ہی نئے انتخابات کا اعلان کر دیتی ہے تاکہ عوام سے دوبارہ رجوع کیا جا سکے۔ ابھی حال ہی میں برطانیہ میں بریگزٹ ڈیل ایسے اہم مسئلے کے بارے میں حتمی فیصلہ کرنے کے لیے برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے اپنا منصب سنبھالنے کے چند مہینوں بعد ہی نئے انتخابات کا ڈول ڈالا اور واضح اکثریت سے دوبارہ منتخب ہو کر بریگزٹ ڈیل کے معاملے کو خوش اسلوبی سے نمٹایا اور اپنی قوم کے سامنے سرخرو ہوئے۔
پڑوسی ملک بھارت میں ایک قدرے نئی سیاسی جماعت عام آدمی پارٹی نے دو بڑی جماعتوں کانگریس اور بی جے پی کو چیلنج کیا‘ کرپشن کے خاتمے اور احتساب کا نعرہ لگایا عام آدمی کے مسائل کو اجاگر کر کے انہیں حل کرنے کا وعدہ کیا۔ عوام نے ان کی بات پر توجہ دی۔ دونوں بڑی اور پرانی جماعتوں کو مسترد کر کے کیجری وال کو ووٹ دیا اور یوں صوبائی انتخابات 2013-14ء میں دہلی میں کامیابی حاصل کی‘ لیکن سادہ اکثریت حاصل نہ ہو سکی۔ عام آدمی پارٹی نے مرکز میں حکمران جماعت کانگریس سے مل کر حکومت سازی کی اور کیجری وال نے وزیر اعلیٰ کا منصب سنبھالا۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ اُن دنوں بھارت کی وزارت خارجہ کی دعوت پر راقم الحروف کو دیگر صحافیوں برادرم حافظ طاہر خلیل، شہزاد رضا، شوکت پراچہ، ماریانہ بابر، طاہر جاوید راٹھور کے ساتھ بھارت جانے کا موقع ملا اور ہم نے بھارتی وزیر خارجہ سمیت اہم شخصیتوں سے ملاقاتوں اور دیگر مصروفیات کے علاوہ وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ دہلی کا بھی وزٹ کیا اور وزیر اعلیٰ کیجری وال سے ملاقات کی۔ یہ ملاقات پاکستانی صحافیوں کے پُر زور اصرار پر ہوئی کیونکہ بھارت میں عام آدمی پارٹی ایک نیا فینامینن (phenomenon) تھا۔ احتساب شروع کرنے اور کرپشن کے خاتمے کے ایجنڈے پر الیکشن لڑا اور دو بڑی جماعتوں کانگریس اور بی جے پی کو شکست دے کر پہلی بار دہلی ریاست کی حکومت سنبھالی۔کیجری وال کو‘ جیسا کہ پہلے عرض کیا‘ کانگریس کی مدد سے وزارتِ اعلیٰ ملی تھی۔ کیجری وال کا دفتر انتہائی سادہ تھا۔ کوئی ٹھاٹھ باٹ اور رعونت ہمیں نظر نہیں آئی۔ ان کے دفتر میں داخل ہوئے تو وہ سر جھکائے اپنے کام میں مصروف تھے۔ ملاقات ہوئی۔ دہلی سرکار اور وہاں کے مسائل پر وزیر اعلیٰ نے بریف کیا۔ ہمارے سوالوں کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے منشور پر عمل درآمد کے معاملے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے اور اگر اتحادی جماعت کی طرف سے کوئی دباؤ آیا تو وہ حکومت چھوڑنے کو ترجیح دیں گے۔ کُچھ عرصے بعد پھر یہی ہوا۔ عام آدمی پارٹی نے احتساب بل دہلی اسمبلی میں پیش کیا۔ کانگریس نے مخالفت کی۔ اختلافات بڑھے اور کیجری وال نے اپنی کہی بات سچ کر دکھائی۔ اقتدار کو لات ماری اور نیا مینڈیٹ لینے کے لئے انتخابات کروانے کا اعلان کر دیا۔ عوام کو بتایا کہ وہ دہلی کے عوام کے لئے کیا کُچھ کرنا چاہتے ہیں۔ عوام نے ان کی بات سنی اور سمجھی۔ کیجری وال کا انتہائی مختصر دورِ حکومت عوام کے سامنے تھا‘ لہٰذا دوبارہ الیکشن میں کیجری وال نے ستر میں سے ساٹھ سے زیادہ نشستیں حاصل کیں۔ کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی کو چاروں شانے چِت کیا اور پھر پانچ سال حکومت کی۔ کم آمدنی والوں کے لئے دو سو یونٹ تک بجلی مفت مہیا کی۔ ماہانہ ایک خاص حد تک مفت پانی فراہم کیا۔ بڑوں پر ٹیکس لگائے۔ مال داروں سے ٹیکس لے کر غریبوں میں سہولتیں تقسیم کیں۔ سادہ طرز عمل سے گڈ گورننس کی بنیاد رکھی۔ اب دوبارہ الیکشن ایسے ماحول میں ہوئے ہیں کہ بھارت میں انتہا پسند مودی کا طوطی بولتا ہے اور بی جے پی اور آر ایس ایس کا راج ہے۔ کیجری وال نے پھر مودی کو للکارا‘ کانگریس کو چیلنج کیا۔ دونوں مخالفین کی ضمانتیں ضبط ہوئیں اور کیجری وال تیسری بار وزیر اعلیٰ بن چُکے ہیں۔ اس دوران کیجری وال کو جوتے پڑوائے گئے‘ ان کی تضحیک کروائی گئی‘ لیکن وہ اپنے کام یعنی عوام کی خدمت پر جُتے رہے۔ دہلی کے عوام نے ان کی جھولی میں ستر میں سے باسٹھ نشستیں ڈال دیں۔
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن اور عام آدمی پارٹی کے کیجری وال کی مثالوں سے صاف واضح ہے کہ اگر نظریات میں کلیرٹی ہو اور ارادے پختہ ہوں‘ منزل کا تعین کیا ہوا ہو تو پھر کوئی آپ کو منزل سے دور کر نہیں سکتا لیکن اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اس کے لئے آپ کو اللہ تعالیٰ پر پورا بھروسہ ہونا چاہیے یعنی غیر متزلزل ایمان۔ عمران خان اور تحریک انصاف کی عام آدمی پارٹی اور کیجری وال سے کافی مماثلت پائی جاتی ہے۔ عمران خان نے بھی وہی نعرہ لگایا جو کیجری وال نے لگایا اور خان صاحب نے بھی دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن‘ پی پی پی کو چیلنج کیا‘ شکست دی اور مسلم لیگ ق‘ ایم کیو ایم‘ جی ڈی اے‘ بی این پی کے سات مل کر مخلوط حکومت بنائی۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں سادہ اکثریت نہ ہونے کے باعث عمران خان کسی قسم کی قانون سازی سے قاصر ہیں‘ آزادانہ طریقے سے احتساب کر نہیں سکتے‘ اپنے منشور پر عملدرآمد کروانے میں ناکام ہیں۔ گورننس میں تبدیلی لانے کیلئے جتنے اعلانا ت کیے اب تک ان میں سے ایک پر بھی عمل نہیں کرسکے۔ سسٹم پر ان کا کنٹرول نہیں ہے۔ اپنے اقتدار کو جاری رکھنے کے لئے ان کو دیدہ اور نادیدہ بے شمار بیساکھیوں کا سہارا لینا پڑ رہا ہے اور ان سیاسی و غیر سیاسی سہاروں کے بغیر وہ اپنا اقتدار جاری نہیں رکھ سکیں گے ۔عملاً وہ اس وقت مفلوج وزیراعظم ہیں اور جتنا عرصہ رہیں گے وہ مفلوج مجبور ہی رہیں گے کیونکہ موجودہ سیاسی سیٹ اپ میں وہ اپنے منشور پر عمل نہیں کرسکیں گے۔ رہی سہی کسر بدترین معاشی حالت نے پوری کردی ہے ۔ ایک سے زائد بار وہ بند کمرے کے محدود اجلاسوں میں نئے انتخابات کا آپشن لینے پر بات کرچکے ہیں۔ عمران خان کہتے سنے گئے کہ وہ تو تبدیلی کیلئے آئے تھے‘ اگر ایسا کسی کو قبول نہیں تو الیکشن کروائیں اور عوام سے فیصلہ لیں‘وہ پہلے بھی بنی گالہ میں رہتے ہیں اور عوام نے انہیں مینڈیٹ نہ دیا تو وہ واپس بنی گالہ چلے جائیں گی اور اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے‘ لیکن ان کے ارد گرد موجود لوگ‘ جو خان حکومت میں رہتے ہوئے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں‘ اورسسٹم میں موجود طاقتور لوگ انہیں ایسا کرنے سے باز رکھے ہوئے ہیں کیونکہ عمران خان کی حکومت ختم ہونے اور نئے الیکشن کے انعقاد میں اُن عناصر کا نقصان ہی نقصان ہے ۔نئے الیکشن کے نتیجے میں عمران کو سادہ اکثریت ملے یا پھر مسلم لیگ ن کو‘ وہ ایک بھیانک خواب ہو گا جس سے ہر کوئی بچنا چاہتا ہے لیکن عمران خان اگر واقعی ملک میں حقیقی تبدیلی لانا چاہتے ہیں اور تبدیلی کے اپنی منشور پر عمل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنے خوابوں کی تعبیر موجودہ بیساکھی زدہ مفلوج سیٹ اپ میں ہرگز نہیں ملے گی۔ اپنے عقیدے کو مضبوط کریں اور''اِیا کَ نَعبُدُ وَاِیاکَ نستعین‘‘ کی روح کو سمجھیں اور اللہ تعالیٰ پرتوکل کرتے ہوئے دنیاوی بیساکھیوں سے آزاد ہونے کیلئے عوام سے رجوع کریں اگر بورس جانسن اور کیجریوال ایسا کر سکتے ہیں تو توحید پرست عمران خان ایسا کیوں نہیں کر سکتا۔