پاکستان سیاحوں کے لئے جنت بن گیا ہے۔ آپ سب کی طرح میرے لئے بھی یہ ایک دل خوش کر دینے والی ہی خبر تھی۔ پھر کچھ نمایاں غیر ملکی خواتین و حضرات کی طرف سے ملاقات کے لئے پیغام آنا شروع ہوئے۔ اسی دوران جمہوری خلق والے فرخ سہیل گوئندی کا ایک میسیج پڑھنے کو ملا۔ لکھا تھا: مالٹا کے سابق وزیر اعظم ڈاکٹر جوزف مسکاٹ پاکستانی نژاد مالٹائی شہری دوستوں کے ہمراہ نجی دورے پر آ رہے ہیں۔ آپ سے ملاقات چاہتے ہیں۔
بلا شُبہ یہ ایک خوش کُن لمحہ اور خوشگوار ملاقات تھی۔ میں نے لاء آفس میں مہمانوں کا استقبال کیا‘ جن میں مالٹا کے صنعت کار اور بزنس ٹائیکون شوکت علی، یونائیٹڈ نیشنز ورلڈ ٹورازم آرگنائزیشن (UNWTO) کے جنرل سیکرٹری مسٹر Zurab Pololokashvil کے ایڈوائزر مسٹر اسد، آئی ٹی کے ماہر ڈاکٹر واسع بھٹی اور فرخ سہیل گوئندی شامل تھے۔ مغربی ملکوں کا طریقہ یہ ہے کہ جو بھی لیڈر کسی دوسرے ملک کسی سے ملنے جاتا ہے تو پہلے اُس شخصیت کا انٹرنیٹ سے ڈوسیئر (Dossier) تیار کیا جاتا ہے تاکہ دورے پہ جانے والے کو معلوم ہو کہ وہ جس شخصیت سے مل رہے ہیں وہ ہے کون۔ اس تجربے کی بنیاد پہ مالٹا کے سابق وزیر اعظم کا تعارف میں نے بھی پڑھ رکھا تھا۔ ڈاکٹر جوزف مسکاٹ کے ساتھی نے میرے بارے میں بات کرنا چاہی مگر ڈاکٹر جوزف صاحب نے مجھ پہ 2/3 تعارفی جملے خود ادا کر کے سب کو حیران کر دیا۔ ساتھ ہی کہا، '' I know who he is‘‘ ۔
خیر مقدم کے بعد میں نے ڈاکٹر مسکاٹ کو ناردرن ایریا کی معروف سفید اُونی ٹوپی پیش کی اور کہا ''یہ ہمارے ناردرن ایریا کی سوغات ہے‘ جہاں کے لوگ آپ کی طرح سرخ و سفید رنگت کے حامل ہوتے ہیں‘ اس لیے یہ ٹوپی آپ پہ اچھی لگے گی‘‘۔ انہوں نے فوراً گلگتی ٹوپی پہن لی اور ہلکے پھلکے انداز میں بولے‘ میں پہلے آئینے میں خود کو دیکھنا چاہتا ہوں۔
آئیے ڈاکٹر جوزف مسکاٹ کا تعارف آپ سے بھی کروا دوں۔ ڈاکٹر صاحب نے یونیورسٹی آف برسٹل برطانیہ سے 2007ء میں ڈاکٹریٹ کی۔ سال 2013ء میں ری پبلک آف مالٹا کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ 2019ء تک وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہے۔ ڈاکٹر جوزف مسکاٹ نے یورپ کے اہم ترین عہدوں پر کام کیا۔ مالٹا کی لیبر پارٹی کے صدر ہیں۔ سال 2008ء سے 2013ء تک اپوزیشن لیڈر رہے۔ یورپین پارلیمنٹ کے ممبر، Rotating پریذیڈنسی آف یورپین کونسل کے صدر بھی رہے۔
جزائر مالٹا آخری ادوارِ برف (Ice age) میں سمندر کی سطح نیچے ہونے کی وجہ سے یورپ کی مین لینڈ کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔ آئس ایج ختم ہوئی تو جزائر مالٹا دوبارہ بحیرہ روم میں سطحِ آب کے نیچے ڈوبتے چلے گئے۔ طویل عرصے کے موسمیاتی تغیرات کے ساتھ سمندری چٹانیں (reef) بڑھتی چلی گئیں‘ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جزائر مالٹا ایک بار پھر سمندر کی سطح سے اوپر اُبھر آئے۔ اس وجہ سے جزائر مالٹا پر ملنے والے فوسلز، کالے بر اعظم کے قدیم جانور اور یورپین وائلڈ لائف‘ دونوں کی قدیم زندگی کی نمائندگی کرتے ہیں۔
معلوم تاریخ کے مطابق تقریباً 5900 قبل از مسیح میں پہلا انسان جزائر مالٹا میں آباد ہوا۔ لیکن لگتا ہے ملکی وسائل کے استعمال میں پُرانے مالٹائی اپنی عادات اور مزاج میں پاکستانیوں کے کزن تھے۔ اس لئے کہ اُن کی فضول خرچیوں اور اپنے ہی وسائل کے خلاف چیرہ دستیوں نے جزائر مالٹا کو بہت جلد قلاش کر دیا۔ انسانی آبادی وسائل کی تلاش میں ہجرت کر گئی۔ بہت طویل عرصے بعد 3800 قبل از مسیح میں دوسری بار، با ہمت انسانوں نے مالٹا کے جزائر کو آباد کر دکھایا۔ لیکن یہ تہذیب بھی سال 2350 قبل ازمسیح میں بد تہذیبی کے ہتھے چڑھ گئی؛ چنانچہ مالٹا تیسری بار اپنے ''جُوس‘‘ سے خالی ہو گیا۔ ظاہر ہے ساتھ ہی انسانی زندگی بھی نا پید ہو گئی۔
مالٹا کی جدید تاریخ، اسلامی ریاست کے طور پر شروع ہوئی۔ حضرت عیسیٰ ابنِ مریم علیہ السلام کی پیدائش کے 810 سال بعد ''ایفرو عرب‘‘ مسلمان جزائر مالٹا میں پہنچے‘ جہاں جلد ہی اُن کی حکومت بن گئی۔ یہ حکومت 2 سو سال تک بر سرِ اقتدار رہی۔ حالیہ حیثیت میں جزائر مالٹا کو برطانوی فرنگیوں کے راج سے سال 1964ء میں آزادی اور خود مختاری ملی‘ جس کے بعد سال 1974ء میں جزائر مالٹا ماڈرن ری پبلک ریاست بن کر سامنے آئے۔ آج ڈاکٹر جوزف مسکاٹ کی سلطنتِ مالٹا، یورپی یونین کا حصہ ہے۔ ری پبلک آف مالٹا شین جین (Schengen) معاہدے کا فریق ہے‘ جس کا مطلب یہ ہے، یو ایس شہری بنا ویزے کے 90 دن تک قیام کر سکتے ہیں۔ اس ایک ویزے پہ یورپی یونین کے تمام ملکوں میں آ جا سکتے ہیں۔ جزائر مالٹا میں امیگریشن کی یہ سہولت باقی دُنیا کے شہریوں کو بھی حاصل ہے۔
جزائر مالٹا میں پاکستانیوں کی پہلی بڑی مائیگریشن جنرل ضیاء کے دور میں ہوئی‘ جب فردِ واحد کے جبروت کی دھاک بٹھانے کے لئے مقدمات، گرفتاریوں اور دُرّوں کی برسات ہو رہی تھی۔ ایسے میں کچھ خوش بخت ترقی پسند سیاسی کارکن مالٹا میں جا بسے۔ شوکت صاحب اُسی ترقی پسند نسل کے نمائندہ ہیں جب کہ اسد اور ڈاکٹر واسع مالٹا کے رہائشی اور پیدائشی۔ مالٹا کے سابق وزیر اعظم صاحب نے اُس پاکستانی پائلٹ کا ذکر خاص طور سے کیا جو پی آئی اے (PIA) میں کمرشل ایئر لائن اُڑاتا تھا۔ اُسی پاکستانی پائلٹ نے مالٹا ایئر کی بنیاد رکھی۔ نئی ایئر لائن کے عملے کو تربیت دی اور پھر اُسی عملے کے ساتھ ایئر مالٹا کا پہلا جہاز جزائر مالٹا سے لندن کی طرف اُڑایا۔ جزائر مالٹا سے لندن کی فلائٹ کا وقت 3 گھنٹے ہے۔
ری پبلک آف مالٹا کا شمار دنیا کی چھوٹی لیکن خوبصورت ترین ریاستوں میں ہوتا ہے۔ یہاں آبادی کا تقریباً 21 فیصد حصہ غیر ملکیوں پر مشتمل ہے۔ عام آدمی کے روزگار کے دو بڑے ذرائع ہیں۔ پہلا، غذائی اجناس کی پیداوار اور دوسرا جانوروں کی افزائشِ نسل۔ معیشت کا تقریباً 15 فیصد سیاحت سے جمع کیا جاتا ہے۔ اس بارے میں جناب ڈاکٹر جوزف صاحب نے گہری دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ اور ٹورسٹ ایکس چینج کے حوالے سے معلومات شیئر کیں۔
یہ بات کئی پاکستانی سیاست دانوں سے زیادہ مالٹا کے سابق وزیر اعظم اور اُن کے ہمراہیوں کو معلوم تھی کہ سال 2017ء میں ورلڈ ٹور ازم آرگنائزیشن (WTO) اور ورلڈ ٹریول اینڈ ٹور ازم کونسل (WTTC)کے انڈیکس کے مطابق سیاحت کے لئے پاکستان دنیا کے آخری 20 ممالک میں شامل تھا۔ لیکن پھر اس انڈیکس کا پہیہ آگے کی طرف چل دوڑا‘ جس کا ثبوت یہ ہے کہ سال 2018ء میں پاکستان کے ٹور ازم میں 70 فیصد بہتری دیکھنے میں آئی۔ سال 2019ء میں بہتری کی اس رفتار میں مزید اضافہ ہوا۔ یہ اچھی خبر ہے اس لئے اندھیرے فروش دانش وروں کو نظر نہیں آئی کہ حالیہ سال 2020 میں ٹورازم کی مختلف عالمی سوسائٹیز اور اداروں نے پاکستان کو سیاحت کے لئے پہلی 3فیورٹ Destinations میں سے ایک قرار دیا۔ اور اِس سے بھی بڑھ کر خوشی کی بات یہ ہے کہ وائلڈ فرنٹیئرز اور برٹش بیک پیک (Backpack) جیسے اداروں نے اپنی آزاد ریٹنگز میں سال 2020 میں پاکستان کوسیاحت کے لئے دنیا کی پہلی فیورٹ جگہ قرار دے دیا۔
مالٹا کے وزیر اعظم کی ایک بات بتانا تو میں بھول ہی گیا۔ میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا‘ مالٹا آنے کا بہترین موسم کون سا ہے۔ اُن کے جواب نے زور دار قہقہوں کے پھول کھلا دئیے۔ بولے، ''مالٹا آنے کا بہترین موسم وہ ہے When I am prime minster of Malta.