تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     15-02-2020

ایسے استاد تو اب خواب ہو گئے… (2)

میرے سکول جانے کا معاملہ بھی بڑا عجیب ہے۔ میں چوتھی جماعت تک ماسٹر اقبال کے پاس پڑھتا رہا۔ ہر چار پانچ ماہ بعد ماسٹر اقبال مجھے از خود پروموٹ کرکے نئی کلاس میں پہچانے کا اعلان کر دیتے‘ لہٰذا دو سال کے اندر انہوں نے مجھے کچی پکی کلاس سے چوتھی کلاس میں پہنچا دیا۔ اس دوران جب میں ماسٹر اقبال صاحب کے پاس دوسری جماعت میں تھا میری پھوپھی مجھے زبردستی اپنے سکول لے گئیں اور وہاں داخل کروا دیا۔ یہ میونسپل مڈل سکول برائے طالبات چوک شہیداں تھا۔ ایک دو ماہ کے بعد ہی میں نے اس سکول میں جانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ مجھے لڑکیوں کے سکول میں پڑھتے شرم آتی ہے۔ پھوپھی نے لاکھ سمجھایا کہ اس سکول میں اور چار لڑکے بھی پڑھتے ہیں مگر میں اپنی ضد پر اڑا رہا اور بالآخر واپس گھر آ گیا۔
چوتھی جماعت میں مجھے ایک بار پھر ایک سکول لے جایا گیا۔ یہ میونسپل پرائمری سکول چوک شہیداں تھا۔ یہ سکول ہمارے گھر سے چار پانچ سو گز کے فاصلے پر تھا۔ میونسپل مڈل گرلز سکول کے سامنے سڑک کی دوسری طرف۔ میں سکول گیا مگر پھر واپس آ گیا۔ میری فرمائش تھی کہ میں گھنگھریالے بالوں والے ماسٹر کے پاس پڑھوں گا۔ یہ گھنگھریالے بالوں والے ماسٹر غلام حسین تھے۔ ان کو ایک بار ماسٹر اقبال کے سکول میں پڑھاتے دیکھا تھا۔ میں تب کبھی کبھار ماسٹر اقبال کے ساتھ ان کے سکول چلا جاتا تھا اور وہاں گھومتا پھرتا رہتا تھا۔ گھومتے گھومتے میں جا کر پانچویں جماعت میں بیٹھ گیا۔ میں تب ماسٹر اقبال کے پاس تیسری یا چوتھی جماعت کا کورس پڑھ رہا تھا۔ وہاں ماسٹر غلام حسین کو پڑھاتے دیکھا۔ ایسے شاندار طریقے سے پڑھا رہے تھے کہ میں نے کہا‘ ان کے پاس پڑھنا ہے۔ ماسٹر اقبال نے بتایا کہ یہ دو چار دن کے لیے اس سکول میں آئے ہیں‘ یہ چوک شہیداں والے سکول میں ہیں اور پانچویں جماعت کو پڑھاتے ہیں۔ میں نے تبھی سوچ لیا کہ جب پانچویں جماعت میں جائوں گا تو میونسپل پرائمری سکول چوک شہیداں میں داخل ہو کر گھنگھریالے بالوں والے اس ماسٹر کی کلاس میں بیٹھ کر پڑھوں گا۔ لہٰذا چوتھی جماعت میں سکول داخل ہونے سے انکار کر دیا اور گھر آ گیا۔ میری بڑی پھوپھی کا کہنا تھا کہ اس لڑکے کو اس کا باپ لاڈ پیار میں خراب کر رہا ہے‘ بھلا بچے کا کیا کام کہ وہ کہے‘ میں نے فلاں استاد سے پڑھنا ہے اور فلاں سے نہیں۔ اسے دو جوتے مار کر سکول میں داخل کروایا جائے اور جو استاد بھی میسر ہو اس کلاس میں بٹھا دیا جائے۔ ابا جی آگے سے ہنس کر دکھا دیتے اور کہتے: آپا! آپ فکر نہ کرو‘ یہ پڑھ لے گا۔ پھوپھی آگے سے کہتیں: ہاں بڑا پڑھ لے گا‘ سارا دن ''لُور لُور‘‘ پھرتا ہے‘ پڑھنا اس نے ''کھیہہ اور سواہ‘‘ ہے۔ اباجی کہتے: ماسٹر اقبال کہتا ہے یہ کافی ہوشیار ہے، سیدھا پانچویں کلاس میں داخل کروا دیں گے۔ پھوپھی کہتیں: اگر میرے پاس ہوتا تو اب تک سیدھا ہو گیا ہوتا۔ میری بڑی پھوپھی سکول ٹیچر تھیں اور بیوہ تھیں۔ وہ ہمارے ساتھ ہی رہتیں تھیں اور گھر میں ان کی چلتی تھی لیکن اس سلسلے میں ان کی ایک نہ چلی۔
اگلے سال ماسٹر اقبال مجھے اپنے سکول لے گئے اور وہاں داخل کر لیا۔ دو چار دن کے بعد مجھے پانچویں جماعت سے سکول چھوڑنے کا سرٹیفکیٹ مل گیا اور اس سرٹیفکیٹ کی بنیاد پر براہ راست میونسپل پرائمری سکول چوک شہیداں میں پانچویں جماعت میں داخل ہو گیا۔ اندر سے یہ سکول بالکل سامنے والے گرلز سکول جیسا تھا۔ اس سکول کی پرانی عمارت تو اسی پرائمری سکول جیسی تھی لیکن مڈل کلاس کے لیے ایک طرف نئے کلاس روم بنے ہوئے تھے اور ہیڈ مسٹریس کا کمرہ سکول کے اندر داخل ہوتے ہی دائیں ہاتھ پر تھا اور بائیں طرف کلرک کا کمرہ تھا۔ میرے والے سکول میں مشرقی سمت والا چھوٹا کمرہ ہیڈ ماسٹر صاحب کا کمرہ تھا۔ اس کے عین دوسری طرف مغربی کونے میں ایسا ہی ایک کمرہ پاک یوتھ ہیلتھ کلب والوں کے پاس تھا۔ یہاں تن سازی (باڈی بلڈنگ) کا ایشین چیمپئن عابد بٹ باڈی بلڈنگ کرتا تھا اور کئی دیگر نوجوان وہاں تن سازی کرتے تھے۔ سکول میں داخل ہوتے ہی دائیں طرف ایک چھوٹا گرائونڈ تھا اور اس گرائونڈ کے آخر میں ایک پانی کا تالاب تھا۔ یہ 1965ء کی جنگ کی یادگار تھا۔ تب سول ڈیفنس کے زیراہتمام سکولوں میں اس قسم کے تالاب بنائے گئے تھے۔ بعد ازاں حفاظتی حوالوں سے اس میں سے پانی ختم کر دیا گیا تھا اور چار پانچ فٹ اونچی حفاظتی چاردیواری میں واقع دروازہ تالا لگا کر مستقل بند کر دیا گیا تھا، مگر ہم دروازے کے اوپر سے پھلانگ کر اس تالاب میں سے اپنی گیند وغیرہ اٹھا لاتے تھے جو کھیلتے ہوئے اس تالاب میں گر جاتی تھی۔ ایک کمرہ سول ڈیفنس والوں کے پاس تھا۔ بائیں طرف گلاب کے پھولوں کا ایک وسیع تختہ تھا۔ اس کے ساتھ زمین پر پاکستان کا بڑا سا سیمنٹ اور بجری سے بنا ہوا نقشہ تھا جس میں کشمیر کے پہاڑوں پر سفید رنگ کرکے برف جیسا بنایا گیا تھا۔ پانچ دریا اندر کی طرف کھود کر بنائے ہوئے تھے اور ان میں نیلا رنگ بھرا ہوا تھا۔ سکول کی عمارت کے عین سامنے بڑا سا گرائونڈ تھا جس میں صبح اسمبلی ہوتی تھی۔
سہ پہر کو سامنے والی گرائونڈ میں والی بال کھیلی جاتی تھی۔ یہ عشروں پرانا کلب تھا۔ چچا عاشق مرحوم اس کے روح رواں تھے۔ ابا جی اور چچا عبدالرئوف بھی یہاں روزانہ بلاناغہ والی بال کھیلتے تھے۔ ہیڈ ماسٹر خادم کیتھلی صاحب نے ایک بار اس گرائونڈ میں دو تین دن کی تقریبات منعقدکیں۔ تقریری مقابلے ہوئے، نعت خوانی ہوئی، حسن قرأت کا مقابلہ ہوا۔ آخری رات گانے گائے گئے۔ میں مرحوم بھائی طارق محمود خان کے ہمراہ رات گئے تک اس ٹینٹ میں بیٹھا گانے سنتا رہا۔ اور تو اب کچھ یاد نہیں البتہ یہ بات ایسے یاد ہے جیسے یہ کل کی بات ہو کہ اس رات ایک سانولا سا لڑکا گانا گانے آیا۔ اس کا نام عظیم تھا۔ اس نے نور جہاں کی آواز میں گانا گایا ''ہو تمنا اور کیا جان تمنا آپ ہیں۔‘‘ سارے مجمعے پر سکوت طاری ہو گیا۔ بالکل ایسا لگتا تھا کہ نور جہاں گا رہی ہے۔ یہ گانا، عظیم کا نام اور وہ آواز۔ آج پچاس سال سے اوپر کا عرصہ گزر گیا ہے مگر سب کچھ ایسا ہے کہ آنکھیں بند کر کے میں آج بھی چاہوں تو اس ٹینٹ میں لکڑی کی سفید کرسی‘ جو رنگدار نوار سے بُنی ہوئی تھی‘ پر بیٹھا ہوا محسوس کر سکتا ہوں۔ عظیم کی آواز آج بھی میرے کانوں میں ایسے آتی ہے جیسے بلا مبالغہ چند روز پہلے کی بات ہو۔ پھر ماسٹر خادم کیتھلی صاحب مثالی درسگاہ حسین آگاہی تبدیل ہو گئے اور اس گرائونڈ میں پھر کبھی نہ ٹینٹ لگا اور نہ ہی ایسا کوئی فنکشن ہوا۔ خادم کیتھلی صاحب کیا شاندار استاد تھے۔ پرائمری سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ شاندار شاعر تھے۔ خوش پوش ایسے کہ مثال دینی مشکل ہے۔ سردیوں میں گرم اچکن، جناح کیمپ اور سفید پاجامہ جس کے پائنچے بلا مبالغہ اتنے کھلے کہ بندہ چاہے تو نیچے سے داخل ہو جائے۔ پائوں میں دیسی چمڑے کا سیاہ کھسہ۔ گرمیوں میں سیاہ گرم اچکن کی جگہ کریم کلر کی پتلے کپڑے کی اچکن لے لیتی۔ جناح کیمپ کی جگہ بعض اوقات سفید ململ کی دوپلی ٹوپی پہنتے اور کسی سربراہ مملکت کی سی شان کے ساتھ سکول کے برآمدے میں گشت کرتے۔ ان کے بعد ایسا شاندار، خوش پوش اور تمکنت والا پرائمری سکول کا ہیڈ ماسٹر خواب میں بھی نظر نہیں آیا۔
گزشتہ سال ملتان ایئرپورٹ پر امریکہ کی فلائٹ کے انتظار میں محمدعلی انجم سے ملاقات ہو گئی۔ تونسہ کی بات چلی تو میں نے ماسٹر غلام حسین کا ذکر اور ان کے گائوں مکّول کلاں کا تذکرہ کیا۔ محمد علی انجم ایک دم حیران ہو کر کہنے لگا کہ وہ مکّول کلاں کا ہے اور ماسٹر غلام حسین مرحوم کو جانتا ہے۔ میں نے پوچھا: اور استانی جی؟ وہ کہنے لگا: بہت ضعیف ہو گئی ہیں مگر حیات ہیں۔ ارادہ کیا کہ ان سے ملنے جائوں گا اور ان کے پائوں دبائوں گا۔ 
ایک سال گزر گیا ہے اور ابھی تک ارادہ صرف ارادہ ہی ہے۔ اس سستی کے طفیل دل میں کئی ملال ہیں اور ان کا مداوا ممکن نہیں۔ آج فیصلہ کیا ہے کہ اسی ماہ مکّول کلاں جائوں گا اور استانی جی کی خدمت میں حاضری دوں گا۔ یہ فرض اب ادا ہو جانا چاہئے۔ زندگی جیسی ناپائیدار چیز کا کیا بھروسہ؟ زندگی کا بھروسہ نہیں اور دل کی تختی پر مزید ملال رقم کرنے کی نہ تو ہمت ہے اور نہ گنجائش۔ (ختم)

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved