پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے ترک صدر جناب طیب اردوان کے خطاب میں وہ سب کچھ تھا، پاکستانی عوام اپنے عظیم دوست سے جس کی توقع رکھتے تھے (قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے لندن سے اپنے بیان میں جناب اردوان کو مسلم امہ کی غیرت و جرأت کی علامت قرار دیا)۔ کشمیر اور بیت المقدس کے حوالے سے ترک صدر کا ایک ایک لفظ اہلِ پاکستان کے جذبات کا ترجمان تھا۔ پاکستان اور ترکی میں سٹریٹیجک ریلیشن شپ کی بات بھی ''میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے‘‘۔ معزز مہمان کے احترام میں پوری پارلیمنٹ یکجان تھی۔ قومی اسمبلی میں گزشتہ تین روز بد ترین کشیدگی اور ہنگامہ آرائی کا ماحول رہا تھا‘ لیکن جمعہ کے روز کا مشترکہ اجلاس معزز مہمان کے احترام میں پُرسکون اور باوقار رہا۔
کمر توڑ مہنگائی قومی اسمبلی کے رواں اجلاس کے ایجنڈے کا اہم ترین نکتہ تھا‘ لیکن اس سنگین ترین مسئلے پر بدترین غیر سنجیدگی، کشیدگی اور اشتعال کی فضا غالب رہی۔ مشیر خزانہ کا منصب سنبھالنے کے دس ماہ بعد، عبدالحفیظ شیخ کا قومی اسمبلی میں یہ پہلا خطاب تھا۔ جناب شیخ کے لیے یہ منصب نیا نہیں۔ مشرف دور میں انویسٹمنٹ اور پرائیویٹائزیشن کے وزیر رہے۔ یہ میر ظفراللہ جمالی اور شوکت عزیز کی وزارتِ عظمیٰ کا دور تھا۔ درمیان میں گجرات کے بڑے چودھری صاحب بھی 2 ماہ کے لیے وزیر اعظم بنے۔ اس کے بعد آصف علی زرداری کے عہدِ صدارت میں وزیر اعظم گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کی کابینہ میں خزانہ، ریونیو اور اقتصادی امور کے وفاقی وزیر رہے۔ 2000ء سے 2002ء تک وہ سندھ حکومت میں بھی وزیر خزانہ و منصوبہ بندی کے طور پر خدمات انجام دے چکے تھے۔ (2003 سے 2018 تک سینیٹ کے رکن بھی رہے) جناب شیخ نے موجودہ حکومت کی کارکردگی کا دفاع کرتے ہوئے، سنگین اقتصادی مسائل پر ماضی کی غلط پالیسیوں کو موردِ الزام ٹھہرایا‘ جس پر ڈاکٹر اشفاق حسن کا تبصرہ دلچسپ تھا، ''یوں لگا جیسے کوئی شخص اپنے ہی خلاف تقریر کر رہا ہو‘‘۔
جناب شیخ نے اپنے منہ میاں مٹھو بننا مناسب نہ سمجھا؛ البتہ گورنر سٹیٹ بینک رضا باقر کی تعریف میں کسی بخل سے کام نہ لیا۔ انہوں نے یاد دلایا کہ رضا باقر کا تعلق لاہور سے ہے (لاہور والوں کے لیے فخر کی بات)۔ اپنی قوم کے لیے رضا باقر کے جذبۂ ایثار و قربانی کا ذکر کرتے ہوئے شیخ صاحب نے یاد دلایا کہ لاہور کا یہ فرزند انٹرنیشنل اداروں میں بہترین تنخواہ پر اعلیٰ عہدوں پر کام کر رہا تھا۔گورنر سٹیٹ بینک کا منصب سنبھالنے سے پہلے رضا باقر مصر میں آئی ایم ایف کے پروگرام کے سربراہ تھے۔ خدا حسن دیتا ہے تو صرف نزاکت ہی نہیں آتی، ناقدین اور حاسدین بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ ان کی زبان کون روک سکتا ہے، جن کے بقول آئی ایم ایف کے پروگرام سے پہلے مصر میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی شرح 30 فیصد تھی جو اس پروگرام کی تکمیل پر 60 فیصد کو پہنچ گئی۔ تو کیا بعض ماہرین اقتصادیات کے بقول، اب اپنے ہاں بھی غربت کی لکیر سے نیچے والوں کی تعداد میں جو اضافہ ہو رہا ہے، یہ اسی ''مصری ماڈل‘‘ کا فیض ہے۔
ہم اہلِ پاکستان اپنے 'محسنوں‘ کے حوالے سے خاصے ناشکرے واقع ہوئے ہیں‘ جو بیرون ملک بہترین تنخواہیں اور اعلیٰ ترین سہولتیں چھوڑ کر اپنے وطن کی خدمات کے لیے آتے ہیں اور ہم انہیں تنقید کی سان پر چڑھائے رکھتے ہیں۔ اختصار کے پیشِ نظر صرف دو مثالیں۔ 1993ء میں (وحید کاکڑ فارمولے کے تحت) صدر غلام اسحاق اور وزیر اعظم نوازشریف کے استعفوں کے بعد مڈ ٹرم الیکشن کے لیے نگران وزیر اعظم کی ضرورت پڑی تو امریکہ سے جناب معین قریشی تشریف لے آئے۔ تب سننے میں آیا کہ ان کا قومی شناختی کارڈ بھی پاکستان آمد کے بعد بنایا گیا، ایڈریس کے خانے میں پرائم منسٹر ہائوس درج تھا۔ آثارِ قدیمہ والوں نے لاہور کے قبرستان میانی صاحب میں ان کی والدہ محترمہ کی قبر بھی ڈھونڈ نکالی تھی۔ قوم کا ناشکرا پن ملاحظہ ہو کر الیکشن کے بعد، جناب معین قریشی کی خدمات سے مزید استفادہ کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی؛ چنانچہ وہ جہاں سے آئے تھے، وہیں واپس چلے گئے؛ البتہ جناب شوکت عزیز خوش قسمت نکلے کہ جنرل مشرف کے ابتدائی ماہ و سال میں وزیر خزانہ رہے۔ 2002ء کے الیکشن کے بعد وزیر اعظم جمالی اپنے ڈھب کے آدمی تھے۔ ان کی خاص وضع قطع صدر صاحب کی روشن خیالی کے ساتھ زیادہ دیر نہ چل سکی؛ چنانچہ جناب صدر ان کی جگہ سمارٹ اور سوٹڈبوٹڈ شوکت عزیز کو لے آئے۔ وزارتِ عظمیٰ سے فراغت کے بعد انہوں نے بھی بریف کیس اٹھایا اور واپسی کی راہ لی۔بدھ کی سہ پہر قومی اسمبلی میں جناب مشیر خزانہ کا معرکۃالآرا خطاب وزیر توانائی عمر ایوب خان کی تقریر پر ہونے والی ہنگامہ آرائی میں دب گیا۔ یہی ہنگامہ ٹاک شوز کے تبصروں اور تجزیوں کا موضوع اور اگلے روز بیشتر اخبارات کی ہیڈ لائن بن گیا۔
''نئے پاکستان‘‘ کی پارلیمنٹ میں بھی نئی روایات جنم لے رہی ہیں۔ ''پرانے پاکستان‘‘ میں ننھی منی حزب اختلاف کو بھی عزت و احترام کا مستحق سمجھا جاتا تھا۔ حزب اختلاف کے قائد یا کسی بزرگ رکن کی تنقید کا جواب، سرکاری بنچوں سے کسی وزیر یا سینئر رکن کی طرف سے آتا۔ حزب اختلاف کسی ناروا بات پر واک آئوٹ کر جاتی تو سپیکر (یا چیئرمین سینیٹ) اجلاس کی کارروائی روک دیتے، ان کے ''حکم‘‘ پر سرکاری بنچوں سے کچھ لوگ جاکر ناراض حزب اختلاف کو منا کر لاتے جس کے بعد اجلاس کی کارروائی آگے بڑھتی ۔ ''نئے پاکستان‘‘ میں صورتِ حال یہ ہے کہ حزب اختلاف کے سینئر موسٹ ارکان کا جواب بھی سرکاری بنچوں کے جونیئر موسٹ ارکان کی طرف سے آتا ہے (مخالف گروہ کی تحقیر کا ایک طریقہ یہ بھی ہے)۔ ماضی میں کشتیوں کے دنگل میں یوں بھی ہوتا کہ حریف کے بڑے پہلوان کے مقابل اپنے کسی ''نوجوان‘‘ پٹھے کو اکھاڑے میں اتار دیا جاتا۔ اب پارلیمنٹ میں مراد سعید جیسے نوجوان اس کام کے لیے مامور ہیں (کے پی کے‘ کے وزیر اطلاعات شوکت یوسف زئی جنہیں پی ٹی آئی کا ہیرو اور نوجوانوں کا آئیڈیل قرار دیتے ہیں)۔ موضوع کی مناسبت سے خواجہ آصف کی تقریر بھی خوب تھی۔ وہ 1993ء سے ہر قومی اسمبلی میں موجود ہوتے ہیں۔ بلاول کی یہ پہلی اسمبلی ہے۔ اعدادوشمار کے حوالے سے بلاول کی تقریر بھی کم نہ تھی؛ البتہ ''سلیکٹڈ‘‘ کا لفظ اور چھوٹے پن والی بات جناب سپیکر کے خیال میں آداب کے خلاف تھی، ''آخر وہ ملک کے وزیر اعظم ہیں‘‘۔ بلاول نے وزیر اعظم کی سیاست کے حوالے سے ایک حساس ادارے کا تذکرہ بھی ضروری سمجھا۔ اس پر مراد سعید کے جارحانہ جواب سے ماحول خاصا مکدر ہو گیا تھا۔ بلاول کو حادثاتی لیڈر قرار دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ فرزندِ زرداری ہمیں جمہوریت کا درس نہ دے۔ اب پیپلز پارٹی کے عبدالقادر پٹیل کی باری تھی‘ جو ہر حد عبور کر گئے۔ کہا جاتا ہے کہ بعد میں خود بلاول نے بھی اس پر اپنے فاضل رکن کی گوشمالی کی تھی۔
اگلے روز وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب کے ''مسٹر ٹین پرسنٹ‘‘ کے الفاظ پر ایک بار پھر ایوان میں مچھلی منڈی کا منظر تھا۔ کس معصومیت کے ساتھ وزیر موصوف فرما رہے تھے کہ انہوں نے کسی کا نام تو نہیں لیا۔ وزیر موصوف پیپلز پارٹی کے مشتعل ارکان کے حملے سے تو بچ گئے لیکن اپنے دادا جان مرحوم کو مردہ باد کے نعروں سے نہ بچا سکے۔ مرحوم کا گڑا مردہ نہ بھی اکھاڑا جاتا تو عمر ایوب کے جواب میں ان کے والد محترم کا حوالہ بھی بہت تھا۔ ''مسٹر ٹین پرسنٹ‘‘ کرپشن کا حوالہ ہی تو ہے اور اس حوالے سے فیلڈ مارشل مرحوم کے دور میں ان کے فرزندِ ارجمند کے خلاف گندھارا انڈسڑیز سمیت کیا کچھ نہیں کہا جاتا تھا۔
اور یہ تو کل کی بات لگتی ہے کہ جناب گوہر ایوب نواز شریف کی پہلی وزارتِ عظمیٰ میں قومی اسمبلی کے سپیکر اور دوسرے دور میں امورِ خارجہ اور پانی و بجلی جیسی اہم وزارتوں پر فائز رہے۔ خود نوجوان عمر ایوب بھی پی ٹی آئی سے پہلے قاف لیگ اور نون لیگ کے گھاٹ سے فیض یاب ہو چکے۔