تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     23-05-2013

اگلی نسلوں کا بھی سوچیے

وقت کے ساتھ ساتھ ریاست کی ذمہ داریوں کا تصور بدلتا رہا ہے لیکن یہ بات یقینی ہے کہ ہر ریاست کا فرض ہے کہ شہریوں کی جان و مال کا تحفظ کرے‘ انصاف فراہم کرے‘ معاشی ترقی کے لیے انفراسٹرکچر بنائے اور میرٹ کی بنیاد پر روزگار کے مواقع فراہم کرے۔ فلاحی ریاست کا مغربی تصور زیادہ پرانا نہیں۔ مشہور ماہر اقتصادیات الفریڈ مارشل نے کہا تھا کہ اکنامکس کے مضمون کا مقصد ہی عوامی فلاح کو فروغ دینا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا اچھی تعلیم کا انتظام اور مریضوں کے علاج کا بندوبست بھی ریاستی ذمہ داری ہے؟ جی ہاں! وقت کے ساتھ ساتھ تعلیم اور صحت حکومت کے فرائض میں شامل ہوچکے ہیں۔ مریض داخل کرنے والا پہلا ’’ان ڈور‘‘ ہسپتال اموی عہد میں دمشق میں بنایا گیا جسے بیمارستان کا نام دیا گیا۔ آج عرب‘ ہسپتال کو مُستشفیٰ کہتے ہیں۔ 1968ء میں ایم اے اکنامکس کرنے کے فوراً بعد مجھے صادق پبلک سکول بہاولپور میں لیکچرر کی ملازمت مل گئی۔ یہ جنوبی پنجاب کا ایچی سن کالج ہے۔ اکثر اساتذہ اور طالب علم وسیع و عریض سکول ہی میں رہتے ہیں۔ ان دنوں انگلینڈ سے برٹش کونسل نے دو استاد اس ادارے کے لیے بھیجے۔ ان میں سے ایک مسٹر وڈ ورڈ (Woodward) تھے اور نوجوان تھے۔ شادی کے فوراً بعد پاکستان آگئے تھے۔ مسز وڈورڈ ان کے ہمراہ آئیں۔ صادق پبلک سکول میں یہ میرے ہمسائے تھے۔ ہم عمر ہونے کی وجہ سے جلد ہی ہماری دوستی ہوگئی۔ ہمیں انگریزی زبان سیکھنے کا شوق تھا ور اس انگریز جوڑے کو پاکستانی ثقافت جاننے کا۔ ایک دن اچانک پتہ چلا کہ مسز وڈورڈ گھر میں پھسل کر گر گئی ہیں اورانہیں ہسپتال لے جانا ضروری ہے۔ بہاول پور کا سب سے بڑا بہاول وکٹوریہ ہسپتال تھا جو انگریزوں کی اچھی باقیات میں سے ہے۔ مسٹر وڈورڈ اپنی بیگم کو فوراً اسی ہسپتال میں لے گئے۔ ڈاکٹروں نے معائنہ کیا اور بتایا کہ تمام ہڈیاں محفوظ ہیں‘ صرف مرہم پٹی کرکے فارغ کر دیا جائے گا۔ میں انگریز جوڑے کی واپسی کا انتظار کررہا تھا۔ وہ کافی دیر بعد سکول واپس لوٹے۔ دیر سے آنے کا سبب پوچھا تو مسٹر وڈورڈ کہنے لگے ہسپتال میں پٹی نہیں تھی‘ ڈاکٹروں نے کہا کہ پٹی بازار سے خرید لائیں۔ جب اُن سے پوچھا گیا کہ پٹی جیسی بنیادی چیز ہسپتال میں کیوں نہیں تو جواب ملا کہ دراصل ہم نے تمام بجٹ ایوب خان کے عشرۂ ترقی کی تقریبات پر صرف کردیا ہے۔ انگریزی زبان کا یہ استاد شریف آدمی تھا‘ اس نے زیادہ بات نہیں کی‘ مجھے ضرور محسوس ہوا کہ وہ خاموش زبان میں کہہ رہا ہے کہ ابھی اکیس سال پہلے ہم یہ ملک ’’چالو‘‘ حالت میں تمہیں دے کر گئے تھے‘ تم لوگوں نے اس کا حلیہ بگاڑنا شروع کردیا ہے۔ پھر میں فارن سروس کے لیے منتخب ہو کر پہلے مصر اور پھر شام گیا۔ ان ممالک میں طبی سہولتیں پاکستان کی طرح واجبی سی تھیں۔ دمشق شہر میں جہاں سے بیمارستان کا آغاز ہوا‘ وہاں سب سے اچھا ہسپتال اطالوی مشنری ڈاکٹر چلاتے تھے۔ قوموں کا عروج و زوال بھی بے حد دلچسپ موضوع ہے۔ اس کے بعد میری پوسٹنگ کینیڈا کے دارالحکومت اوٹاوہ میں ہوگئی۔ وہاں ہسپتال صاف ستھرے اور اعلیٰ معیار کے تھے۔ علاج کے اخراجات بیشتر انشورنس کمپنیاں ادا کرتی تھیں۔ ڈاکٹر سے علاج یا سرجری کے دوران کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو مریض فوراً اسے عدالت میں لے جاتا تھا۔ ہمارے ہاں دو تین ہسپتال ہی بین الاقوامی معیار کے بنے ہیں لیکن یہ سب نجی شعبے میں ہیں۔ اسلام آباد میں شفا انٹرنیشنل اور قائداعظم انٹرنیشنل عالمی معیار کے ہیں۔ 1982ء میں اقوام متحدہ کی ایک میٹنگ کے لیے میں نیو یارک گیا ہوا تھا۔ ان دنوں ہم سیٹیلائٹ ٹائون راولپنڈی میں رہتے تھے۔ میری غیر حاضری میں شریک حیات باورچی خانہ میں کام کرتے ہوئے تیز چھری سے ہاتھ کٹوا بیٹھیں۔ خون تھمنے کا نام نہیں لیتا تھا۔ ایک عزیز ان کو فوراً ہولی فیملی ہسپتال لے گئے کیونکہ اس ہسپتال کی شہرت جنرل ہسپتال سے بہتر تھی۔ ہاتھ پر کئی ٹانکے لگنا تھا۔ شومیٔ قسمت کہ اتنے اعلیٰ سرکاری ہسپتال میں انستھیزیا نہیں تھا۔ محترمہ کو ہاتھ سن کرائے بغیر ٹانکے لگوانا پڑے۔ 1983ء میں جب میں اُردن میں تھا‘ پاکستان سے ایک فوجی میڈیکل وفد سرکاری دورے پر آیا۔ اُردن کے درجنوں ڈاکٹر پاکستان سے فارغ التحصیل تھے اور پاکستان سے مزید سیکھنا چاہتے تھے۔ پروفیسر احسان رشید مرحوم وہاں سفیر تھے۔ اللہ غریق رحمت کرے‘ علم و فضل اور اعلیٰ اخلاق ان میں بدرجہ اتم موجود تھا۔ مشہور ادبی گھرانے سے تعلق تھا۔ کراچی میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے۔ پھر جب ہماری درس گاہوں میں طوفان بدتمیزی اٹھا تو یونیورسٹی کو خیر باد کہہ کر پہلے مزید تعلیم کے لیے ہارورڈ گئے پھر اُردن میں سفیر بنے۔ میری طرح ان کا مضمون بھی اقتصادیات تھا۔ سفیر صاحب میڈیکل وفد کے ساتھ اُردنی حکام سے سرکاری سطح پر بات چیت کے لیے گئے۔ سفارتخانہ واپس آئے تو کچھ پریشان تھے۔ میں نے سبب پوچھا تو فرمانے لگے کہ اُردنی ڈاکٹروں نے کہا کہ پاکستان نے ہماری مختلف شعبوں میں بہت مدد کی ہے‘ بس اب ایک اور شعبہ ہے جس میں ہمیں آپ کی مدد کی ضرورت ہے اور وہ ہے Space Medicine یعنی ہوائی سفر کے دوران علاج۔ بقول سفیر صاحب پاکستانی وفد کے لیڈر نے اُردنی درخواست کا کوئی جواب نہ دیا۔ کہنے لگے‘ میں نے میٹنگ سے باہر آ کر پوچھا کہ آپ تو اُردنی بھائیوں کی فرمائش کو بالکل ہی گول کر گئے، فرمایا‘ میں اور کرتا بھی کیا‘ ہمارے پاس پاکستان میں سپیس میڈیسن پر کوئی کام ہی نہیں ہوا۔ اس حقیقت سے ہم سب خوب واقف ہیں کہ جگر کی پیوندکاری کے لیے ہمارے مریض چین یا ہندوستان جاتے ہیں۔ ایک زمانے میں پاکستان میڈیسن اور سرجری کے شعبے میں کافی آگے تھا۔ آج ہمارے اچھے اچھے ڈاکٹر ملک سے باہر ہیں۔ ان میں مسقط میں مقیم ’’ای این ٹی‘‘ کے مشہور سرجن بھی ہیں۔ میں نے چند سال پہلے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ آپ پاکستان سے کیوں چلے آئے۔ ان کے چہرے پر دکھ اور کرب کی کیفیت نمودار ہوئی۔ کہنے لگے‘ جب کراچی میں ڈاکٹروں کو قتل کرنے کی رسم چلی تو وطن چھوڑنا پڑا اور میں ان کا منہ تکتا رہ گیا۔ راولپنڈی کا ہولی فیملی ہسپتال حکومت پنجاب کے تحت کام کرتا ہے۔ یہاں چوہوں کی یلغار ابھی کل کا واقعہ ہے۔ اب اس ہسپتال کے حالات اور بھی ابتر ہیں۔ مصدقہ اطلاع ہے کہ کئی بار ایک ہی بستر کو دو دو مریض شیئر کرتے ہیں۔ ہسپتال میں ’’ایچ آئی وی ایڈز‘‘کی تشخیص کے لئے ایکویپمنٹ ناکافی ہے۔ گائنی وارڈمیں ڈاکٹر آپریشن میں بہت قینچیاں استعمال کرتے ہیں تاکہ ماں کو کم سے کم تکلیف ہو مگر ہولی فیملی کے گائنی وارڈ کی قینچیاں کند ہوچکی ہیں۔ پچھلے دنوں ای سی جی کی مشین بھی گڑ بڑ کر رہی تھی لیکن خادم اعلیٰ پنڈی شہر میں پلوں کے انبار لگا رہے تھے‘ ووٹ جو حاصل کرنا تھے۔ غریب مریضوں کا کس کو خیال؟ میاں صاحب! بلٹ ٹرین اچھی چیز ہے لیکن اس سے پہلے پاکستان کو جاپان بنایئے۔ ہم نے ایٹمی صلاحیت حاصل کرلی لیکن کشکول نہ توڑ سکے۔ ہندوستان میں کوئی موٹر وے نہیں لیکن وہ اقتصادی ترقی میں ہم سے کہیں آگے ہے۔ اس لیے کہ وہاں اقتصادی ترقی صرف مٹھی بھر اشرافیہ کے لیے نہیں ہوئی‘ ہندوستانی عوام کے لیے ہوئی ہے۔ عوامی فلاح اسی میں ہے کہ پلاننگ کمیشن کو فعال بنا کر اس کی رائے کا احترام کیا جائے۔ بے شمار Labour Intensive منصوبے شروع ہوں تاکہ عوام کو روزگار ملے۔ بلٹ ٹرین سے لوگوں کا پیٹ نہیں بھرے گا۔ عوام کو تعلیم‘ صحت اور روزگار چاہیے۔ جب اقتصادی خوش حالی آئے گی تو بلٹ ٹرین بھی بنا لیں گے۔ اپنی ترجیحات کو صرف ووٹوں کے حصول تک محدود نہ کیجئے۔ اگلی نسلوں کا بھی سوچیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved