کوئی بھی معاملہ اپنی اصل حالت زیادہ دیر تک برقرار نہیں رکھ پاتا۔ سبھی کچھ دم بہ دم بدل رہا ہے۔ یہ دنیا ہی نہیں بلکہ پوری کائنات تبدیلی سے عبارت ہے۔ جہاں تک نظر جاسکتی ہے آپ دیکھیے گا کہ سبھی کچھ تبدیلی کے عمل سے پیہم گزر رہا ہے۔
تبدیلی ہر دور کی خصوصیت اور ہر عہد کا مسئلہ ہے۔ معلوم تاریخ کا کوئی ایک بھی دور نمایاں اور جوہری نوعیت کی تبدیلیوں سے مبرّیٰ و ماوراء یا مستثنٰی نہیں رہا۔ ہوتا بھی کیسے؟ تبدیلی کے بغیر دنیا کا کارخانہ چل ہی نہیں سکتا۔ مختلف ادوار میں تبدیلیوں کی رفتار البتہ مختلف رہی ہے۔ یہ بھی فطری امر تھا۔ جب انسان کا ذہن مختلف مدارج طے کرتا ہوا‘ آج کی طرح‘ نقطۂ عروج تک نہیں پہنچا تھا تب تبدیلی کی رفتار بھی کم تھی اور اثرات بھی زیادہ وسعت کے حامل نہیں ہوا کرتے تھے۔
آج ہمیں جو کچھ بھی دکھائی دے رہا ہے وہ کس کے دم سے ہے؟ یہ سب کچھ یقیناً ہمارے ہی دم سے ممکن ہے۔ یہ دنیا صرف ایک صورت میں اپ گریڈ کی جاسکتی ہے ... جب ہم اپ گریڈ ہوں۔ انسان ہی ہے جس نے اس دنیا کو مسلسل تبدیل کیا ہے۔ یہ کسی اور مخلوق کے بس کی بات تھی نہ ہے۔ مرئی یعنی دکھائی دینے والی مخلوق پر نظر ڈالیے تو اندازہ ہوگا کہ انسانوں کے سوا جو بھی ہے اُسے خاصے محدود اور متعین کردار کے ساتھ وجود بخشا جاتا ہے۔
انسان کا معاملہ بہت مختلف ہے۔ دنیا کا میلہ انسان کے دم سے ہے۔ انسان ہی نے روئے ارض کو بارونق رکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ باقی ہر ذی نفس کو انسان کی مرضی کے تابع کیا گیا ہے۔ ایسا ہونا ہی تھا۔ ہر دور میں ضروری تبدیلیاں یقینی بنانا انسان ہی کے بس کا معاملہ تھا ... اور ہے۔ دنیا کو بہتر بنانا ہر دور کے انسان کا بنیادی مسئلہ رہا ہے۔ انسان دنیا کو بہتر بنانے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہا ہے۔ مختلف ادوار کا جائزہ لیجیے تو بہت کچھ تواتر سے تبدیل ہوتا ہوا ملے گا۔ انسان نے ہر دور میں غیر معمولی فکر و عمل کے ذریعے دنیا کو اپ گریڈ کیا ہے۔ اِسی میں انسان کی عظمت ہے۔
آج ہم جو کچھ بھی دیکھ رہے ہیں وہ انسان کے بدلتے رہنے کا نتیجہ ہے۔ شخصی ارتقاء کے حوالے سے لازوال تحریریں چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہونے والے امریکی مفکر ڈیوڈ ہنری تھورو کا خوب صورت جملہ ہے کہ چیزیں نہیں بدلتیں‘ ہم بدلتے ہیں۔ حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں۔ دنیا کا چہرہ نئے خد و خال سے مریّن ہے تو انسان کے دم سے۔
تین ہزار سال سے زائد مدت کے دوران اہلِ دانش نے عام آدمی کو معیاری انداز سے جینے کی تحریک دینے کے لیے بہت کچھ سوچا اور کہا ہے۔ مختلف خطوں کے اہلِ دانش نے اپنے خطے کے لوگوں کو بامقصد زندگی کی طرف مائل کرنے کے ساتھ ساتھ آفاقیت کی طرف متوجہ کرنے کی بھی بھرپور کوشش کی ہے۔ ایسا کرنا اِس لیے لازم تھا کہ جب تک لوگوں کو کچھ کرنے کی تحریک نہیں ملتی تب تک دنیا میں کوئی بڑی مثبت اور بامقصد تبدیلی رونما بھی نہیں ہوتی۔
قدرت نے ہمارے لیے روئے ارض پر جو کچھ بھی خلق کیا ہے وہ خام مال ہے۔ اس خام مال پر محنت کرکے ہمیں اِسے ایسی مکمل شے کی شکل دینی ہے جس سے بھرپور استفادہ کیا جاسکے۔ دنیا میں جتنی بھی تبدیلی رونما ہوتی ہے اس کا حقیقی محرک انسان ہوتا ہے۔ ہمارے ماحول میں بہت کچھ ہے جو مکمل طور پر ساکت و جامد ہے۔ جب ہم اُسے حرکت دیتے ہیں تب کچھ ہلچل ہوتی ہے۔ انسان ہی پر سب کچھ منحصر ہے۔
اہلِ علم جب متحرک ہوتے ہیں تب لوگوں کو کچھ نیا کرنے کی تحریک ملتی ہے۔ کائنات میں اپنے مقام و منصب پر غور کرنے کی صورت ہی میں وہ بصیرت پیدا ہوتی ہے جو انسان کو اس دنیا کی اپ گریڈیشن کی طرف لے جاتی ہے۔ روزمرہ معاملات میں آسانیاں پیدا کرنا ایک اہم ہدف ہے مگر اِس سے کہیں زیادہ اہم ہدف یا مقصد ہے اس کائنات میں اپنے مقام کے حوالے سے سوچنا اور پھر اُس کے مطابق کچھ ایسا کرنا جو دیرپا نوعیت کا ہو۔ انسان کو زندگی سی نعمت اِس لیے بخشی گئی ہے کہ عمومی حیوانی سطح سے بلند ہوکر اس کائنات میں اپنے مقام پر غور کرے اور پھر وہ سب کچھ کرے جو کائنات کے خالق و رب کی مرضی کا عکس ہے۔
یہ بات تو طے ہے کہ حیوانی سطح پر زندگی بسر کرنا کسی بھی درجے میں کوئی کمال نہیں۔ ہمارے ماحول میں متنوع حیوان پائے جاتے ہیں جو ہمارے ساتھ ہی جیتے ہیں مگر اُن کے وجود سے دنیا کسی بھی سطح پر‘ کسی بھی درجے میں اپ گریڈ نہیں ہوتی۔ حیوانات اپنے حصے کا یعنی قدرت کی طرف سے طے کردہ کام کرکے دنیا سے رخصت ہوتے ہیں۔ انسان کا معاملہ یہ ہے کہ اُسے ڈھنگ سے جینا ہی بلکہ دنیا کے لیے کچھ کرنا بھی ہے۔ اور اُس کی حقیقی توقیر اس مقصد میں کامیابی سے مشروط ہے۔ حیوانات نہیں بدلتے تو پھر نباتات و جمادات کا تو ذکر ہی کیا۔ ایسے میں انسان ہی ہے جسے قدرت نے کچھ کر گزرنے کا فریضہ سونپا ہے۔ اس فریضے سے بہ طریقِ احسن سبک دوش ہونا ہی انسان کے وجود کا جواز ثابت کرتا ہے۔
زندگی کو رفعت بخشنے کے لیے تبدیلی کے عمل کا جاری رہنا لازم ہے۔ تاریخ کے ادوار کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ لوگ سوچتے‘ محنت کرتے گئے اور بہت کچھ اس طور تبدیل ہوتا گیا کہ دنیا بہتر ہوتی چلی گئی۔ آج بہت کچھ ہے جو کل نہیں تھا۔ غیر معمولی سطح پر محنت کی گئی۔ مختلف ادوار کے اہلِ فکر نے دنیا کو بہتر بنانے پر توجہ دی۔ زندگی کو آسان بنانے والی چیزیں ایجاد اور دریافت ہوتی گئیں۔ آج بھی یہی کیفیت ہے۔ اب کچھ نیا ایجاد تو کیا ہونا ہے‘ ہاں اختراع کا بازار گرم ہے۔
چیزیں خود بخود اپ ڈیٹ یا اپ گریڈ نہیں ہوتیں۔ جب انسان متحرک ہوتا ہے تب ایسا ہوتا ہے۔ ایسے میں ناگزیر ہے کہ چیزوں کو نہیں بلکہ انسانوں کو اہمیت دی جائے۔ ہر دور میں اُسی معاشرے نے ترقی کی ہے جس نے انسان کو اہمیت دی ہے‘ اُسے بنیادی اثاثہ شمار کیا ہے۔ انسان اہم سمجھے جانے پر‘ توقیر ملنے پر زیادہ دل جمعی سے کام کرتا اور زندگی کا معیار بلند کرتا ہے۔ آج بھی وہی معاشرے ترقی اور خوش حالی کی راہ پر گامزن ہیں جنہوں نے انسان کو اہمیت دینے کا چلن اپنا رکھا ہے۔
معاملہ گھر کا ہو یا خاندان کا‘ کسی علاقے یا شہر کا ہو یا پھر ملک کا ... بنیادی امر یہ ہے کہ انسان کو وقیع گردانا جائے‘ اُس کی توقیر یقینی بنائی جائے۔ جب انسان کو اہمیت دی جائے گی تب وہ عام ڈگر سے ہٹ کر کچھ کرنے کا سوچے گا اور یوں زندگی کو اپ گریڈ کرنے کی راہ ہموار ہوگی۔ چیزوں ہی کو سب کچھ گرداننے ماحول میں کبھی کوئی معقول اور قابلِ ذکر بہتری پیدا نہیں ہوتی۔ چیزوں کو سب کچھ سمجھنے کا عمل انسانوں میں کام کرنے کی لگن کا گراف نیچے لے آتا ہے۔ ہر دور کی طرح آج بھی چیزوں کو نہیں‘ انسان کو بنیادی اثاثہ تسلیم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اہم سمجھے جانے پر انسان تبدیل ہوگا تو کسی بھی نوع کی بہتری کی راہ ہموار ہوگی۔