گزشتہ ماہ کے پہلے ہفتے میں بدلتے ہوئے عالمی اور علاقائی حالات کے حوالے سے لکھ چکا۔امریکہ ‘ بھارت کے ساتھ مل کر چین کے خلاف جو علاقائی محاذمرتب کر رہا ہے‘ اس کی وجوہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔کئی دن ہوئے‘ایک بات تکرار سے پڑھ رہا ہوں کہ ''امریکہ نے ہم سے بے وفائی کی یا امریکہ نے ہمیں دھوکہ دیا‘‘۔ یہ بات محض الزام ہے یا حقیقت ؟اب ثابت کرنے کا وقت آچکا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ باہمی تعلقات کو انسانی رشتوں یا اخلاقی اصولوں کے معیار پر نہیں پرکھا جاتا‘یہ دو طرفہ دائو بازی ہوتی ہے جیت جانے والاخوشی اور ہار جانے والا الزام تراشی ہی کرتا رہتا ہے۔
پاک ‘امریکہ تعلقات کی تاریخ اتنی بری بھی نہیں کہ صرف ماتم ہی کریں‘مگر اب نہ وہ حالات رہے ہیں‘ نہ وہ وقت۔ماضی کوپس پشت ڈال کر امریکہ کو اپنی زبان کا مان رکھتے ہوئے کیے گئے وعدے کی پاسداری کرنی چاہیے۔ گزشتہ سال ستمبر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ملاقات کے دوران میڈیا سے گفتگو میں ایک مرتبہ پھر ثالثی کی پیش کش کی تھی کہ مسئلہ کشمیر طویل عرصے سے حل طلب ہے اور اگر دونوں ممالک چاہیں تو ثالثی کے لیے تیار ہوں۔وزیراعظم عمران خان نے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 74 ویں اجلاس سے قبل مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورت ِحال سمیت دیگر معاملات پر مختلف ممالک کے رہنماؤں سے ملاقات بھی کی تھی۔نیویارک میں وزیراعظم عمران خان کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ٹرمپ نے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ میں مدد کے لیے تیار ہوں اور یہ دونوں رہنماؤں پر منحصر ہے کہ کیا ثالثی چاہتے ہیں؟ یہ گمبھیر مسئلہ ہے ‘جو طویل عرصے سے جاری ہے‘ لیکن میں مدد کرنے کے لیے تیار ہوں۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ‘ بھارت کا دورہ کرنے جارہے ہیں۔ یہ دو دورہ 24 تا 25 فروری کو ہوگا‘ جس میں امریکی صدر‘ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سمیت بھارتی کی اعلیٰ قیادت سے ملاقاتیں کریں گے۔امریکی میڈیا کے مطابق ‘دورے میں امریکہ اور بھارت کے درمیان متعدد عسکری و تجارتی معاہدوں کا امکان ہے‘ تاہم پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازع کی وجہ بننے والے خطہ مقبوضہ کشمیر پر بات چیت کا امکان بہت کم ظاہر کیا جا رہا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم دیکھ کر دل گرفتگی کی کیفیت کچھ زیادہ ہی شدید ہے۔دنیا کو سوچنا ہوگاکہ آخر یہ ظلم کب تک چلے گا؟امریکہ کو اپنے وعدے اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق‘ اس دیرینہ مسئلے پر جامع اقدام کرنا ہوں گے۔امریکہ کواپنے کیے گئے وعدے کو وفا کرنا ہوگا۔
پاکستانی عوام کو امریکہ کی جانب سے بھارت کو جدید فضائی دفاعی نظام (ایڈوانسڈ انٹرسیپشن ویپن سسٹم اے آئی ڈبلیو ایس) فروخت پر تشویش ہے۔امریکی فیصلے سے خطے کے استحکام پر سنجیدہ اثرات مرتب ہوں گے۔ اب وہ دور نہیں رہا‘جنوبی ایشیا ہتھیاروں کی دوڑ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ کوئی دو رائے نہیں‘امریکہ اور بھارت کے درمیان دفاعی تعلقات جنوبی ایشیا میں عدم استحکام کا باعث بن رہے ہیں۔ عالمی برادری پاکستان کے خلاف بھارت کے جارحانہ عزائم اور بھارتی سیاسی و عسکری قیادت کے دھمکی آمیز بیانات سے بخوبی آگاہ ہے۔ عالمی برادری کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بھارت کو خطے میں عدم استحکام کی کوششوں سے روکے۔ بھارت نے رواں سال کے آغاز سے اب تک 272 مرتبہ جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کا ارتکاب کر چکا‘ جن کے نتیجے میں 3شہری شہید اور 25شدید زخمی ہوئے۔
یاد دلاتا چلوں کہ امریکہ اور بھارت کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات کبھی ایک جیسے نہیں رہے۔ کبھی امریکہ کی جانب سے بھارت کو ٹیرف پر پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تو کبھی دفاعی معاملات میں خاصی کشیدگی بھی جاری رہی۔ جس کا اثرخطے کی سیاسی‘ دفاعی ا ور تجارتی معاملات پربھی پڑا۔ گزشتہ سال مئی کے مہینے میں بھارتی وزیر اعظم اور روسی صدر پیوٹن کی ملاقات میں بھارتی وزیر اعظم نے روس کے میزائل ڈیفنس سسٹم s-400کی خریداری کی بات چیت کی تھی ‘ جس کے بعد یہ معاہدہ ماسکو میں طے ہوا اور ساڑھے
پانچ سوارب ڈالرز کے معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اس پر امریکی صدر ٹرمپ نے شدید غصہ و برہمی کا اظہار کرتے ہوئے تنقید کی کہ روس پر عائد پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت نے اتنا بڑا سودا روس سے کرلیا ‘جبکہ امریکہ اور بھارت کے درمیان گزشتہ سال ہی مختلف جدید ہتھیاروں کی خرید و فروخت کے معاہدے ہوئے تھے ‘جس میں ہتھیاروں کے ساتھ بعض جدید ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی بھی بھارت کو منتقل کی گئی۔بھارت نے نا صرف امریکی ڈرون خریدے ‘ بلکہ اس کی ٹیکنالوجی بھی امریکہ سے خریدی۔ بھارت نے امریکی میزائل ڈیفنس سسٹم‘تھاڈ کی خریداری کے لیے بات چیت کی تھی‘ مگر پھر روس سے ایسا ہی میزائل ڈیفنس سسٹم خرید لیا۔
امریکہ‘ بھارت اور وینزویلا کے درمیان تعلقات سے بھی غصہ میں رہا۔ بھارت کا وینزویلا سے تیل خریدنا امریکہ کو پسند نہیں۔اس پر امریکی مشیر دفاع‘ جان بولٹن نے بھارتی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ وینزویلا اور امریکہ کے ایک عرصے سے تعلقات خراب رہے ہیں اور امریکہ کی طرف سے اس پر سخت پابندیاں عائد ہیں۔ اس کے باوجود بھارت نے اس سے تیل خریدنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔جان بولٹن کا کہاتھا کہ وینزویلا سے تجارت کا مطلب ہے کہ صدر نکولس میدورو کی حمایت کرنا‘جسے امریکہ برداشت نہیں کرسکتا۔ اس کے علاوہ تجارتی شعبے میں بھی بھارتی پالیسیوں پرصدر ٹرمپ کو شدید غصے میں دیکھا گیا۔
ماہرین کے مطابق‘ 2019ء میں دونوں جانب کے تجارتی اور سرمایہ کاروں کے حلقوں کی کوششیں رہی ہیں کہ اختلاف رائے دورکرکے کسی حتمی معاہدے تک پہنچ جائیں ‘جس سے طبّی آلات‘ زرعی سامان اور موبائل وغیرہ کی تجارت کو فروغ مل سکے‘ مگر وال مارٹ اور امیزون کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی بھارتی پالیسی نے امریکہ کو جھٹکا دیا اور ان اداروں کا اربوں ڈالرز کا کاروبار خطرے میں پڑگیا۔ ایسے میں امریکی صدر ٹرمپ کے قریبی حلقے ان پر زور دیتے رہے کہ بھارت کو امریکہ کی طرف سے جوبھی سہولتیں دی گئی ہیں‘وہ واپس لے لی جائیں‘ تاہم امریکی صدر ٹرمپ کے ایک مشیر کا بیان بھی سامنے آیا ہے کہ صدر کوئی سخت قدم نہیں اٹھائیں گے‘ شاید وہ اس کمی کو دیگر شعبوں میں تعاون سے پورا کرنے کی کوششیں کریں۔