آج وہ خبر پڑھ ہی لی جس کا مجھے بہت مدت سے خطرہ تھا بلکہ درست بات یہ ہے کہ جس کا یقین تھا۔ اس کے علاوہ اس منصوبے کا کوئی انجام ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ پہلے دن سے اس کا آخری دن سامنے تھا۔
خبر کے الفاظ کچھ اور ہوں گے لیکن مفہوم یہ ہے کہ لاہور میٹرو بس ٹریک کے ستونوں پر خوبصورتی اور آرائش کے لیے آویزاں کیے جانے والے چھوٹے چھوٹے گملے ایل ڈی اے نیلام کرے گی اس لیے کہ یہ منصوبہ ناکام ہو چکا ہے اور گملوں کی دیکھ بھال پر بہت خرچ ہے۔ ایل ڈی اے یہ لاکھوں گملے نیلام کرکے اپنی جان چھڑائے گا۔
نوشتۂ دیوار کا محاورہ اردو میں معروف ہے۔ عمدہ شاعرہ نسیم نازش کا شعر ہے ؎
شہر والو کبھی وہ بھی تو پڑھو
وہ جو دیوار پہ لکھا نہیں ہے
تو جو دیواروں پہ نہیں بلکہ ستونوں پہ لکھا ہوا ہوتا ہے‘ اسے کیا کہیں گے؟ جو عبارت ستون پر لکھی ہوئی نہیں لیکن نوشتۂ ستون ہے اس کے لیے کوئی محاورہ ہے؟
لاہور میٹرو بس سے میری دل چسپی ایک عام لاہوری اور پاکستانی کی حیثیت میں تھی اور اس وجہ سے بھی کہ میرا گھر سے دفتر کا راستہ کافی دور تک فیروز پور روڈ کے ساتھ رہتا ہے‘ اس لیے آغاز ہی سے اس کے مسائل اور فوائد کا چشم دید گواہ رہا ہوں۔ 27 کلومیٹر سے زائد راستے پر اس بس ٹریک کا منصوبہ سامنے آیا تو اس کے فوائد اور نقصانات پر بحثیں شروع ہوئیں جو اب ماضی کا حصہ ہیں لیکن منصوبہ مکمل ہونے کے بعد بہت سے ایسے زاویے بھی نظر آئے جو ان بحثوں میں شامل نہیں تھے۔ فوائد میں یہ بات ناقابل تردید تھی کہ لاہور کے شہریوں اور باہر سے آنے والوں کو پبلک ٹرانسپورٹ کی بڑی سہولت فراہم کی گئی تھی اور شہری سہولیات میں ایک بڑا اضافہ ہو گیا تھا۔ میٹرو بس سے فی یوم ایک لاکھ اسی ہزار مسافروں کی زیادہ سے زیادہ تعداد بھی ریکارڈ کا حصہ ہے۔ مسائل میں یہ بات بھی زیر بحث تھی کہ شہر کی مصروف سڑکوں پر یہ معلق پل خاص طور پر فیروز پور روڈ اور لوئر مال پر سہولت پیدا کرے گا یا تنگی۔ یہ سڑکیں پہلے ہی تنگ اور ٹریفک کے مسائل کا شکار تھیں۔ سب سے پہلی ناقابل تردید حقیقت تو یہ ہے کہ اس معلق ٹریک نے ان سڑکوں کو بدنما بنا دیا جو پہلے بھی خوشنما نہیں تھیں۔ ایک عظیم الجثہ اژدہے کی طرح یہ لہراتا، بل کھاتا پل سڑک پر چلنے والوں، دفتروں‘ دکانوں میں بیٹھنے والوں اور گھروں میں رہنے والوں، سب کے لیے نظر کی کوئی خوب صورتی لے کر نہیں آیا۔ چلیے اس پر بھی صبر کر لیا جائے لیکن یہ سڑکیں سگنل فری کاریڈور بنانے کی تمام تر کوشش کے باوجود ٹریفک کی تنگی اور ٹریفک جام کا اسی طرح شکار ہیں جیسے میٹرو سے پہلے تھیں۔ کچھ پرانے مسائل کم ہوئے لیکن کچھ نئے بڑھ گئے۔ نتیجہ بہرحال یہ ہے کہ صبح اور شام کے اوقات میں ان سڑکوں پر سفر کرنا ایک مصیبت سے کم نہیں۔
میٹرو ٹریک جہاں جہاں زمین سے بلند کیا گیا‘ وہاں اسے چوڑے چکلے ستونوں کا سہارا دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے یہ بوجھ سہارنے کے لیے بہت مضبوط ستونوں کی ضرورت تھی۔ یہ ستون انجینئرنگ ضروریات کے مطابق ضروری فاصلوں پر مسلسل بنائے گئے ہیں۔ میرے سامنے اعدادوشمار نہیں ہیں۔ متعلقہ حکام اس کی وضاحت کرسکتے ہیں لیکن اگر یہ فرض کریں کہ ہر 50 میٹر کے فاصلے پر ایک ستون کھڑا کیا گیا ہے اور زمین سے بلند ٹریک کی کل لمبائی 20 کلومیٹر سمجھی جائے تو یہ 1000 ستون بنتے ہیں۔ یہ ستون کھڑے ہوئے اور ان پر چھت ڈالی گئی تو بس چلنے سے بھی پہلے اس کا آرام جنگلی کبوتروں کو ہوا۔ چھت کی سلوں اور ستونوں کے درمیان جو فاصلہ چھوڑا گیا تھا وہ کبوتروں کے لیے بہترین رہائشی منصوبہ ثابت ہوا۔ جوق در جوق کبوتر یہاں آباد ہو گئے۔ یہاں انہیں آندھی، طوفان، گرمی، سردی کسی چیز کا کوئی خوف نہیں تھا اور یہاں وہ انسانوں کی پہنچ سے دور کافی بلندی سے اپنے گھر کی چوکھٹ پر کھڑے ہوکر ان کا نظارہ کرسکتے تھے۔ یہ تو خیر اچھا نظارہ تھا لیکن پہلا اندیشہ وہی پورا ہوا جس کا یقین تھا۔ ستون بننے اور ان پر پلستر ہونے کی دیر تھی کہ دھڑادھڑ پوسٹرز، بینرز ان پر لگنے شروع ہوگئے۔ ہر طرح کی سیاسی، مذہبی تقریبات کا احوال، دکانوں پر فیاضانہ سیل اور شہر کے بہترین حکیموں کے کمالات ان ستونوں سے معلوم ہونے لگے۔ ہر ستون کے چار رخ ہیں اور ہر رخ ان بینزر سے ہرا بھرا نظر آنے لگا۔ میں نے سوچا کہ یہ منصوبہ ساز اس کا کیا حل نکالیں گے؟ اچھا،کچھ تو آخر ذہن میں ہوگا ہی؟
زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ ایک دن صبح اس راستے پر کاریگر کام کرتے نظر آنے لگے۔ دیکھا کہ لوہے کے فریم جس میں چھوٹے چھوٹے کھانچے بنے تھے، ہر ستون کے چاروں طرف فٹ کیے جارہے ہیں۔ ان پر کوئی بینر لگانا ممکن نہیں تھا۔ کم و بیش ایک ماہ یہی کام چلتا رہا۔ اس کے بعد دیکھا کہ بے شمار چھوٹے چھوٹے پلاسٹک کے گملے لائے گئے اور ان کھانچوں میں لگائے جانے لگے۔ پتہ چلا کہ بالشت بھر لاکھوں گملے ان خانوں میں لگائے جائیں گے جن میں پودے ہوں گے۔ یہ نظر کو خوبصورتی بخشیں گے اور ماحول بھی تروتازہ رکھیں گے۔ سچ یہ کہ جب علم ہوا تو میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ ایک عام آدمی کو بھی نظر آسکتا تھا کہ یہ چلنے والا منصوبہ نہیں۔ کسی ستون کے ایک رخ پر چوڑائی کے رخ تقریباً 11گملے تھے جبکہ اگر پوری اونچائی پر چھت سے فٹ پاتھ تک دیکھا جائے تو 32،33 گملوں کے خانے تھے یعنی ایک رخ پر تقریباً 363 گملے۔ ایک ستون کے چار رخ ہیں اس طرح ایک ستون پر 1452 گملے بنتے ہیں۔ 1000 ستونوں پر لگ بھگ چودہ لاکھ باون ہزار گملے۔ کچھ پر کم گملوں کی گنجائش بھی ہوگی لیکن یہ بہرحال لاکھوں سے کم نہیں۔ درست اعدادوشمار میٹرو اور ایل ڈی اے کے متعلقہ حکام دے سکتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 12 کروڑ روپے کی لاگت۔ 80 لاکھ روپے دیکھ بھال کا خرچ۔ میں نے سوچا کہ ساڑھے چودہ لاکھ گملوں میں کون سے پودے لگائے جائیں گے جو پل کے نیچے ہر قسم کا موسم برداشت کرسکیں۔ بہت سے ستونوں پر بالکل دھوپ نہیں آتی۔ کسی جگہ ایک رخ پر آتی ہے، دوسرے رخ پر نہیں آتی۔ ان کا کیا ہوگا؟ ان کو تیز گرمی، جھلسا دینے والی لو میں پانی کیسے دیا جائے گا؟ سال بھر پانی کی مختلف ضرورت کا انتظام کیسے ہوگا؟ کیا ہر گملے تک پائپ پہنچے گا؟ اس انتظام پر کیا لاگت آئے گی۔ یہ سارا پانی کس جگہ سے فراہم ہوگا؟ اور اس کی لائنیں کیسے آئیں گی؟ اگر پانی کے انہی ٹینکروں سے پانی دینے کا بندوبست کیا گیا جو گرین بیلٹ کو پانی دیا کرتے ہیں تو لاکھوں گملوں میں ہر ایک تک کون ذمے داری سے پہنچا سکے گا؟ جو گملے کافی اونچائی پر ہیں انہیں ٹینکر سے پانی کیسے ملے گا؟ اس بالشت بھر گملے میں کون سے پودے ہوں گے جو تیز رفتار ٹریفک سے اڑتی گردکو سہار سکیں گے؟ سوال ایک نہیں بہت سے تھے۔
جواب کچھ نئے سوال ساتھ لے کر آئے۔ ایک دن دفتر جاتے دیکھا کہ ان گملوں میں شاید فرن کے چھوٹے پودے لگائے جا رہے ہیں۔ لاکھوں گملوں میں یہ لگانا عملے کے لیے صبرآزما کام تھا؛ چنانچہ مہینوں یہی چلتا رہا۔ پھر دیکھا کہ پانی کے ٹینکرز کھڑے ہیں‘ پائپ سے پانی دیا جارہا ہے۔ کچھ گملوں تک پہنچ رہا ہے کچھ محروم ہیں لیکن یہ تصور کرلیا گیا کہ ہم نے سب تک پانی پہنچا دیا۔ مہینہ اور گزرا اور یہ پودے مرجھانے شروع ہوئے۔ حسب توقع اکثر گملے خالی نظر آنے لگے۔ ابھی تو پودے سب جگہ لگائے بھی نہیں گئے تھے کہ پچھلے گملے خالی ہونے لگے۔ ان پودوں کی جگہ ہلکے سبز پتوں والی بیل لگائی جاتی دیکھی۔ کچھ دن یہ سلسلہ رہا اور پھر خاموشی چھا گئی۔ نہ پودے، نہ پانی لگانے والا عملہ، نہ ہریالی کا کوئی نشان۔ حسرت ان غنچوں پہ ہے۔
اگلا مرحلہ شکست و ریخت کا تھا۔ کھانچے گملوں سے خالی ہونے لگے۔ پتا نہیں لوگ اٹھا کر لے گئے یا عملے کی نذر ہوئے لیکن قطاروں کی قطاریں ٹوٹے دانتوں کی طرح نظر آنے لگیں۔ اب کہیں فریم باقی ہے کہیں گملے۔ ہریالی بہرحال کہیں بھی نہیں۔ اس کے بعد رہ جاتا ہے تو ایک خبر کا انتظار، اور وہ خبر کل اخبار میں پڑھنے کو مل گئی۔ کتنے گملے؟ کتنی لاگت؟ کتنے پودے؟ کتنا وقت؟ کتنا ضیاع؟ ہے کوئی ان سب کا ذمے دار ہے؟ کوئی جواب دہ؟ اور اب اگلا منصوبہ کیا؟ ہم تماشائیوں کے لیے نیا تماشا کیاہوگا؟
ہمارا کام یہی ہے کہ سر دھنے جائیں!