زمین پر اگر آپ انسان کی آج تک کی کارکردگی کا جائزہ لیں‘ تو رگ و پے میں مسرّت جاگ اٹھتی ہے ۔ ہر سمت میں انسانی علم تیز رفتاری سے بڑھ رہا ہے ۔ دوسری طرف دیکھیں تو انتہائی تیز رفتاری سے تباہی آ رہی ہے ۔ اسے ہم انسانی مخمصہ (Human Dilemma) کہہ سکتے ہیں ۔
ایک ایسی نئی دریافت ہوئی ہے ‘ جو ٹیلی ویژن اور کمپیوٹر سمیت تمام الیکٹرانکس میں انقلاب کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے ۔ ان چیزوں میں سائنسدانوں کو سب سے زیادہ پریشان کرنے والی بات توانائی کا ضیاع ہے ۔ اسے ایسے سمجھیے کہ جس لیپ ٹاپ پہ اس وقت میں ٹائپنگ کر رہا ہوں ‘ اس میں لگا ہوا پروسیسر بجلی استعما ل کرتے ہوئے مسلسل حرارت پیدا کر رہا ہے ۔ اگر خصوصی طور پر بنا ہوا ایک چھوٹا سا پنکھا ہوا پھینک کر اسے ٹھنڈا نہ کرتا رہے تو گرم ہو کر وہ کام کرنے سے انکا رکر دے گا۔
بجلی ایٹم کے گرد موجود الیکٹران کی مدد سے حرکت کرتی ہے ۔ ان اشیاء میں خاص قسم کا ایک آلہ ''سپر کنڈکٹر‘‘(Super Conductor)پچھلے تیس برسوں سے سائنسدانوں کی تحقیق کا مرکز تھا۔ سپر کنڈکٹرز میں الیکٹران ایک قطار کی صورت اختیار کرتے ہوئے بجلی کو خود پر سے ایسے گزارتے ہیں کہ توانائی ضائع نہیں ہوتی ۔ اس مقصد کے لیے بیسویں صدی کے آغاز میں دریافت ہونے والے ان سپر کنڈکٹرز کو انتہائی حد تک‘ یعنی منفی 273ڈگری سینٹی گریڈ تک ٹھنڈا کرنا پڑتا تھا۔
وقت گزرتاگیا۔1980ء کی دہائی میں زیادہ درجہ ٔ حرارت ‘یعنی مائنس 135ڈگری پہ کام کرنے والے سپر کنڈکٹر دریافت ہوئے۔ یہ دریافت اتفاقیہ تھی ۔ سائنسدان یہ بات سمجھنے سے قاصر تھے کہ وہ کون سی خصوصیات ہیں ‘ جو کسی شے کو زیادہ درجہ ء حرارت پہ کام کرنے والا سپر کنڈکٹر بناتی ہیں ۔ دوسرے الفاظ میں ان کے پاس اشیاء کے باہمی ربط کا علم توتھا‘ ان کی حقیقت کا نہیں ۔ اس صورتِ حال کا سب سے بڑا نقصان یہ تھا کہ انسان اپنے طور پرکم سے کم توانائی خرچ کرنے والی بہترین ایجادات کے قابل نہ تھا۔
تیس سال تک سائنسدان تحقیق کرتے رہے ۔ آخر یونیورسٹی آف کیمبرج کے محققین نے یہ راز پالیا۔ طاقتور ترین مقناطیسی میدان پیدا کرنے سے انہیں یہ معلوم ہوا کہ بعض مخصوص اشیا کے الیکٹران ایسی لہریں پید اکرتے ہیں ‘ جس کے تحت زیادہ درجہ ٔ حرارت پہ بھی وہ سپر کنڈکٹر کا کردار ادا کرتے ہوئے توانائی کو ضائع ہونے نہیں دیتے ۔
اب مستقبل میں ایسے الیکٹریکل گرڈز سمیت بجلی فراہم کرنے اور اس سے چلنے والی ایسی اشیا کی ایجاد ممکن ہے ‘ جو انتہائی کم توانائی استعمال کر یں گی ۔اب‘ سپر کمپیوٹرز کی اگلی بہتر نسل کے خواب دیکھے جا رہے ہیں ۔ یونیورسٹی آف سٹینڈ فورڈ کے محققین نے اس باب میں قابل قدر پیش رفت کی ہے ۔ انہوں نے آئرن سلینائڈ نامی سپر کنڈکٹر ز بنائے ہیں ‘ جنہیں ٹائٹینیم اور آکسیجن جیسے عناصر کے اشتراک سے بنے ہوئے ایک میٹریل کے اوپر لگانے سے وہ توانائی کے سو فیصد استعمال کا کامیاب تجربہ کر چکے ہیں ۔سو فیصد!
یہ سب اپنی جگہ درست ہے ‘لیکن سب سے سستی توانائی کا درست ترین استعمال ہمارا جسم کرتاہے ۔ یہ جان کر آپ حیران رہ جائیں گے کہ ہمارے جسم و دماغ بھی مکمل طور پر برقی پیغامات کی مدد سے تمام افعال سرانجام دیتے ہیں ۔ اٹھنے بیٹھنے سے لے کر سوچنے سمجھنے اور خوراک ہضم کرنے سے لے کر دل دھڑکنے تک ‘ ہمارے رگ و پے میں الیکٹریکل اور کیمیائی پیغامات مسلسل دوڑ تے چلے جا رہے ہیں ۔ سب سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ دوسرے جانوروں کے برعکس ‘ انسانی دماغ جسم کا محض دو فیصد ہونے کے باوجود خوراک اور آکسیجن سے پیدا ہونے والی توانائی کا 20فیصد حصہ ڈکار جاتاہے۔ اس لیے کہ روئے زمین پر یہ سب سے زیادہ کام کرنے والی مشین ہے ۔
جیسا کہ شروع میں عرض کیا تھا‘ ہر سمت میں انسانی علم تیز ترین رفتار سے بڑھ رہا ہے ۔ کرّہ ٔ ارض کی تاریخ اور حیوانی باقیات (فاسلز) پہ تحقیق کرنے والے سائنسدان مدتوں اس بات پہ حیران ہوتے رہے کہ آج سے قریب پچاس کروڑ سال پہلے کیا ماجرا پیش آیا تھاکہ نت نئی نسلوں کے جانور انتہائی تیز رفتاری سے کرّۂ ارض پہ پھیل گئے تھے ۔ اس سوال نے مشہورِ ماہرِ ارتقا چارلس ڈارون کو پریشان کیے رکھا ۔ اس کااظہار وہ اپنی مشہور کتاب "On the Origion of Species"میں بھی کرتاہے ۔ اس سے قبل سمندر تو جانداروں سے اٹے ہوئے تھے ‘لیکن نرم جسم اور ہڈیوں سے محروم ‘ یہ اور طرح کی زندگی تھی ۔
پھر کوئی عجیب واقعہ پیش آیا ۔ پہلی بار ٹھوس ڈھانچے والے نت نئی قسموں کے جانور پیدا ہوئے اور کرّۂ ارض میں پھیلتے چلے گئے ۔آج جتنے بھی جانور ہمیں نظر آتے ہیں ‘ تقریباً ان سبھی کے اجداد اسی زمانے میں منظرِ عام پر آئے تھے ۔ میں اورآپ بھی انہی میں شامل ہیں ۔ اسے کرّۂ ارض کی تاریخ کا اہم ترین واقعہ کہا جاتاہے۔ اسے Darwin Dilemmaبھی کہا جاتاہے کہ چارلس ڈارون کے نظریات سے یہ متصادم تھا۔
تو حیرت زدہ سائنسدان مسلسل تحقیق کرتے رہے ۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے محققین نے اب سراغ لگایا ہے کہ یہ عرصہ کل دو کروڑ سال پہ محیط تھا۔ ا س دوران سمندرخشکی پہ چڑھ آئے تھے اورریکارڈ کے مطابق‘ آکسیجن کی مقدار بے حد بڑھ گئی تھی ۔
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ پانی اور آکسیجن‘ زندگی ہیں!کیونکہ زندگی پانی میں جنم لیتی ہے اور آکسیجن سے توانائی حاصل کرتی ہے ۔ آج دنیا میں جتنی بھی اقسام کے جاندار زندہ ہیں ‘ سب آکسیجن پر ہی تو منحصر ہیں ۔
تو یوں ایک ایک کر کے سارے معمّے حل ہوتے جا رہے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ کروڑوں برس پرانے ان واقعات پہ حتمی شہادت نہیں دی جا سکتی ‘لیکن بہرحال ایسا ہر واقعہ کرّہ ٔ ارض پہ اپنے انمٹ نشان چھوڑ ہی جاتاہے ۔
پریشانی اس بات سے ہوتی ہے کہ آج سے قریب چالیس پچاس ہزار سال پہلے ایک اور حادثے کا آغاز ہوا تھا ۔ تقریباً اسی دور میں انسانی دماغ کو اس کی موجودہ شان و شوکت عطا ہوئی تھی ۔ اس کے بعد اگلے تیس ہزار سال میں براعظم شمالی امریکہ کے بڑے میملز میں سے آدھے ہمیشہ کے لیے ناپید ہو گئے تھے۔اس کا ایک بڑا سبب انسان کی طرف سے بڑے پیمانے پر ان جانوروں کا شکار تھا ۔
مخمصہ یہ ہے کہ انسانی ذہن کو ملنے والی شان و شوکت کے ساتھ تباہی و بربادی بھی نازل ہو رہی ہے ۔ کبھی آپ holocene extinctionکو پڑھیں‘ اسے زمین کی تاریخ کا بڑا عالمگیر ہلاکت خیز دور(Mass Extinction) کہا جا رہا ہے ۔ یہ انسان کے ہاتھوں رونما ہو رہا ہے اور یہ قدرتی طور پر وقوع پذیر ہونے والی mass extinctionسے سو گنا زیادہ تیز رفتار ہے ۔ انسان نے جانوروں کو بڑے پیمانے پر شکار کرنا شروع کیا ہے ۔ وہ نا صرف سمندروں سے آبی حیات نکال رہا ہے ‘ بلکہ سمندروں میں اپنا فضلہ پھینک رہا ہے ۔ خشکی سے جنگلات کا خاتمہ کرتے ہوئے پورے کرّہ ٔ ارض پہ پلاسٹک جیسا فضلہ پھینک رہا ہے ۔ جنگلات کے خاتمے سے تو جاندار ختم (Extinct)ہو ہی رہے ہیں ‘ فاسل فیولز کے استعمال اور درختوں کی کٹائی سے کرّہ ٔ ارض کا درجہ ٔ حرارت بڑھ رہا ہے ۔ گلیشیر پگھل رہے ہیں ۔ سمندر بلند ہو رہے ہیں ۔ یوںبرف پر زندگی گزارنے والے جانور ناپید ہو رہے ہیں ۔ کرّہ ٔ ارض اس وقت ایٹمی میزائلوں سے بھرا پڑا ہے ۔
یہ ہے؛ human dilemma ----ترقی اور بربادی ایک ساتھ-----!