تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     17-02-2020

سرخیاں‘متن‘ درستی اور ابرار احمد کی نظم

حکومت اپنی غلط پالیسیوں کے ذریعے عوام
کی جانوں سے ہاتھ دھو رہی ہے: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''حکومت اپنی غلط پالیسیوں کے ذریعے عوام کی جانوں سے ہاتھ دھو رہی ہے‘‘ حالانکہ ہاتھ دھونے کیلئے بازار میں طرح طرح کے صابن موجود ہیں‘ جبکہ عوام کی جانوں میں ایسا کوئی عنصر موجود نہیں ہوتا‘ جس سے میلے ہاتھ صاف کیے جا سکتے ہوں ‘جبکہ خاکسار بلا ناغہ اپنی تقریروں کے ذریعے حکومت کو تابڑ توڑ نصیحتیں دے رہا ہے اور اسی مصروفیت کی بنا پر خود بھی ان نصیحتوں پر عمل کرنے سے قاصر ہے ‘ جبکہ ہمارے ہاں بد قسمتی یہ ہے کہ کوئی مفت کے مشورے یا نصیحت پر عمل ہی نہیں کرتا‘ اس لیے میں نے سوچا ہے کہ آئندہ ہر مشورے کے ساتھ حکومت کو اس کا بل بھی ارسال کر دیا کروں‘ تا کہ حکومت محسوس کرے کہ اس مشورے کی ہم نے فیس ادا کی ہوئی ہے‘ اس لیے اس پر تو عمل کرنا ضروری ہو گیا اور اس بات کا احساس با آسانی لگایا جا سکتا ہے کہ اس نیک کام سے کتنی فیس ہر ماہ اکٹھی کی جا سکتی ہے۔ آپ اگلے روز ڈسٹرکٹ بار جعفر آباد میں وکلاء سے خطاب کر رہے تھے۔
آرٹیکل 6 کیس نہ بنانے پر کسی کی منت نہیں کروں گا: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''آرٹیکل 6 کیس نہ بنانے پر کسی کی منت نہیں کروں گا‘‘ بلکہ حکومت کو خود ہی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے‘ کیونکہ حکومت میرے جیسے سینئر اور برگزیدہ رہنما سے منت کرواتی ہرگز اچھی نہیں لگتی اور نہ ہی میں نے آج تک کسی کی منت کی ہے ‘جبکہ نواز شریف کے زمانے میں بھی میں صرف اتنا کیا کرتا تھا کہ حکومت کیخلاف ہلکا سا مخالفانہ بیان دے دیا کرتا تھا اور میاں صاحب خود ہی مجھے بلا کر میرا مسئلہ حل کر دیا کرتے تھے اور منت کرنے کی نوبت ہی نہیں آتی تھی اور جہاں جہاں بھی میں نے منت سے کام لیا ہے‘ ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے‘ جیسا کہ دھرنا بھی وزیراعظم عمران خان کا استعفیٰ حاصل کرنے کیلئے ایک طرح کی منت ہی تھی‘ جس کا کوئی اثر نہ ہوا اور خاکسار کو چوہدری پرویز الٰہی کے قیمتی مشورے پر دھرنا ختم کرنا پڑا۔ آپ اگلے روز ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک کنونشن سے خطاب کر رہے تھے۔
جرم تسلیم کرنے سے حکومت کو معافی نہیں ملے گی: مریم اورنگزیب
سابق وفاقی وزیر اطلاعات اور نواز لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''جرم تسلیم کرنے سے حکومت کو معافی نہیں ملے گی‘‘ جبکہ حکومت کی معافی کی درخواست ہمیں موصول ہو چکی ہے‘ جس پر فیصلے کیلئے بڑے میاں صاحب کو لندن ارسال کیا گیا تو انہوں نے کہا ہے کہ اگر حکومت مریم نواز کو لندن بھیج دیتی ہے تو اسے معافی دے دی جائے‘ جس کیلئے ہمارے مذاکرات حکومت سے جاری ہیں ‘لیکن حکومت کی طرف سے پھر وہی راگ الاپا جا رہا ہے کہ پہلے لوٹا ہوا پیسہ واپس کرو‘ جبکہ ایک دھیلا بھی واپس کرنے کو تیار نہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کر رہی تھیں۔
درستی
عمران یعقوب خان نے جاوید اختر کے یہ دو شعر درج کیے ہیں؎
آدمی جو کہتا ہے آدمی جو سنتا ہے
زندگی بھر وہ صدائیں پیچھا کرتی ہیں
آدمی جو دیتا ہے آدمی جو لیتا ہے
زندگی بھر وہ دعائیں پیچھا کرتی ہیں
ان اشعار میں ہر مصرعِ ثانی خارج از وزن ہے:
ع زندگی بھر وہ صدائیں پیچھا کرتی رہتی ہیں
ع اور زندگی بھر وہ دعائیں پیچھا کرتی رہتی ہیں
فلمی گانے اکثر دھنوں پر لکھے جاتے ہیں‘ ہو سکتا ہے کہ جاوید اختر نے یہ کمی بیشی اسی دھن کے حوالے سے کی ہو ۔
اور اب آخر میں '' موہوم کی مہک‘‘ میں سے ابرارؔ احمد کی یہ نظم:
کہیں ٹوٹتے ہیں
بہت دور تک یہ جو ویران سی رہگزر ہے
جہاں دھول اڑتی ہے
صدیوں کی بے اعتنائی میں کھوئے ہوئے
قافلوں کی صدائیں‘ بھٹکتی ہوئی
پھر رہی ہیں درختوں میں-----
آنسو ہیں
صحرائوں کی خامشی ہے
ادھڑتے ہوئے خواب ہیں
اور ہوائوں میں اڑتے ہوئے خشک پتے
کہیں ٹھوکریں ہیں
صدائیں ہیں
افسوس ہے سمتوں کا-----
حدِّ نظر تک یہ تاریک سا جو کُرہ ہے
افق تا افق جو گھنیری ردا ہے
جہاں آنکھ میں تیرتے ہیں زمانے
کہ ہم ڈوبتے ہیں-----!
تو اس میں تعلق ہی وہ روشنی ہے
جو جینے کا رستہ دکھاتی ہے ہم کو
سو‘ کاندھوں پہ ہاتھوں کا لمسِ گریزاں ہی
ہونے کا مفہوم ہے غالباً-----
وگرنہ وہی رات ہے چار سُو
جس میں‘ ہم تم بھٹکتے ہیں
اور لڑکھڑاتے ہیں‘ گرتے ہیں
اور آسماں‘ ہاتھ اپنے بڑھا کر
کہیں ٹانک دیتا ہے ہم کو
کہیں پھر چمکتے
کہیں ٹوٹتے ہیں-----!
آج کا مطلع
اس کے گلاب‘ اس کے چاند جس کی بھی قسمت میں ہیں
آپ‘ ظفرؔ‘ کس لیے اتنی مصیبت میں ہیں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved