اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بے شمار خصوصیات اور امتیازات سے نوازا‘ اُن میں سے ایک یہ ہے کہ جمہورِ امت نے آپ کو ''اَفْضَلُ الْبَشَر بَعْدَ الْاَنْبِیَاء‘‘ قرار دیا‘ امامِ اہلسنت امام احمد رضا قادری نے لکھا ''اس سے مراد افضلیت مِنْ کُلِّ الْوُجُوْہ نہیں ہے ‘بلکہ مطلق افضلیت ہے‘ سو اگر کسی خاص شعبے میں یا بعض شعبوں میں دیگر صحابۂ کرام کو کوئی امتیازی فضیلت حاصل ہو تو یہ صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی افضلیتِ مطلقہ کے منافی نہیں ‘‘۔ آپ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اسلام میں آپ ''اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْن‘‘ میں سے ہیں‘ غارِ ثور اور سفرِہجرت کے امین ورفیق ‘ تمام غزوات میں آپﷺ کے ہم سفر اور آج روضۂ رسولﷺ میں جوارِ مصطفیﷺ میں آرام فرما ہیں اور اس طرح کہ جہاں قدمینِ مصطفی ہیں ‘اس کے متصل قبرِ صدیق اکبرؓ کا سرہانہ ہے اور قیامت میں بھی آپﷺ کے ساتھ اٹھیں گے اور ساتھ ہی جنت میں داخل ہوں گے‘ کسی نے کیا خوب کہا ہے:؎
پائے رسول پاک پہ ہو سر رکھا ہوا
ایسے میں آ اَجَل‘ تو کہاں جا کے مر گئی
یہ خواب تو ہر مومن کا ہے‘ لیکن اس کی تعبیر صدیق اکبرؓ نے پالی‘ سن 6 ہجری کو رسول اللہ ﷺ تقریباً چودہ سو اصحاب کے ساتھ عمرے کے لیے تشریف لائے ‘ آپ نے صحابۂ کرام کو بتایا تھا ''میں نے خواب دیکھا ہے کہ ہم بیت اللہ کا طواف کر رہے ہیں ‘‘ ‘ حدیبیہ کے مقام پر مشرکینِ مکہ نے آپ کو روک دیا اور کہا ''ہم عمرے کی اجازت نہیں دیں گے‘‘۔ اس دوران قریشِ مکہ کے ساتھ سفارت کاری ہوئی اور بالآخر ایک معاہدے پر اتفاق ہوا‘ اس کی شرائط یہ تھیں: (۱)دس سال تک جنگ بندی رہے گی اور لوگ ایک دوسرے سے محفوظ رہیں گے‘ (۲) اس سال مسلمان عمرہ ادا کیے بغیر واپس چلے جائیں گے اور آئندہ سال عمرہ ادا کریں گے اور تین دن مکہ مکرمہ میں رہیں گے‘ صرف وہی ہتھیار ساتھ رکھیں گے ‘جو عام حالات میں سفر میں رکھے جاتے ہیں‘ (۳)جو شخص مکۂ مکرمہ سے اسلام قبول کرنے کے لیے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے گا تو اُسے لوٹادیا جائے گا‘(۴)جو مدینۂ منورہ سے پلٹ کر قریش کے پاس آئے گا تو اُسے نہیں لوٹایا جائے گا‘ (۵) قبائلِ عرب کو آپشن دیا جائے گا کہ وہ مسلمانوں اور قریشِ مکہ میں سے جس کے چاہیں حلیف بن جائیں۔
بظاہر اس معاہدے کی شرائط مسلمانوں کی کمزور پوزیشن کو ظاہر کر رہی تھیں‘ اس سے مسلمانوں میں اضطراب پیدا ہوا ‘ حضرت عمر بن خطاب جن کے روئیں روئیں اور انگ انگ میں دینی حمیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی‘ رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کی '' یارسول اللہ! کیا آپ اللہ کے سچے نبی نہیں ہیں؟‘‘ آپﷺ نے جواب دیا ''یقینا سچا نبی ہوں‘‘۔ انہوں نے کہا ''کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں ہیں؟‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا ''یقینا ایسا ہی ہے‘‘۔انہوں نے کہا ''کیا ہمارے شہداء جنت میں اور اُن کے مقتولین جہنم میں نہیں ہوں گے؟‘‘۔ آپ ﷺ نے فرمایا '' ایسا ہی ہوگا‘‘۔ انہوں نے کہا ''تو پھر ہم کمزور پوزیشن میں آکر کیوں معاہدہ کر رہے ہیں؟‘‘۔ آپ ﷺ نے جواب دیا ''میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں‘ اس کی نافرمانی نہیں کرتا اور وہ مجھے ضائع نہیں فرمائے گا‘ وہ میرا مددگار ہے ‘‘۔ انہوں نے پھر کہا ''کیا آپ نے ہمیں یہ نہیں کہا تھا کہ ہم بیت اللہ کا طواف کریں گے؟‘‘۔ آپ ﷺ نے فرمایا ''یقینا کہا تھا‘ لیکن میں نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ اسی سال کریں گے‘‘۔ حضرت عمر کو پھر بھی قرار نہ آیا اور وہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس گئے‘ جو رسول اللہ ﷺ سے سوال وجواب کے وقت وہاں موجود نہیں تھے‘ اُن سے وہی سوال اُسی ترتیب سے کیے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے لفظ بہ لفظ وہی جوابات دئیے جو آپﷺ نے دیے تھے‘ اس سے معلوم ہوا کہ اُن کی سوچ تاجدارِ نبوت کی فکر کے سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی اور ذرّہ بھر فرق نہیں تھا‘‘ (سُبُلُ الْھُدیٰ وَالرَّشَاد‘ج:5ص:52)۔
اسی طرح جب رسول اللہ ﷺ غارِ حرا سے پہلی امانتِ وحی لے کر گھر لوٹے تو بتقاضائے بشری آپ پر ایک خوف کی سی کیفیت تھی اور شدید گرمی کے موسم میں آپ پر کپکپی طاری تھی ‘ ام المومنین خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے کہا ''بخدا! اللہ آپ کو بے آبرو نہیں کرے گا‘ کیونکہ آپ صلۂ رحمی کرتے ہیں‘ دوسروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں‘ ناداروں کے کام آتے ہیں‘ مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی راہ میں مصیبت اٹھانے والوں کے مددگار ہوتے ہیں‘‘ (صحیح البخاری:3)یعنی جس کا کردار اتنا پاکیزہ اور بلند ہو‘ یہ ممکن ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ اُسے دوسروں کے رحم وکرم پر چھوڑدے‘پھر ایک موقع آیا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کفارِ مکہ کی اذیتوں سے تنگ آکر ہجرت کے ارادے سے مکے سے روانہ ہوئے ‘ پھر جب آپ ''بَرْکَ الْغِمَاد‘‘ کے مقام پر پہنچے تو راستے میں وہاں کے رئیس ''اِبْنُ الدَّغِنَہ‘‘ سے ملاقات ہوئی ‘ اس نے پوچھا'' ابوبکر! کہاں کا ارادہ ہے؟ انہوں نے کہا: قوم مجھے وطن سے نکال رہی ہے‘ تو میں نے سوچا کہ اللہ کی زمین میں سیاحت کروں اور اپنے رب عزوجل کی عبادت کروں‘ اِبْنُ الدَّغِنَہ نے کہا: ابوبکر! رک جائو‘ آپ جیسے شخص کو نہ وطن سے جانا چاہیے اور نہ نکالا جانا چاہیے‘ کیونکہ آپ ناداروں کے کام آتے ہیں‘ صلۂ رحمی کرتے ہیں‘ کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں‘ مہمان نوازی کرتے ہیں اور راہِ حق میں مصائب اٹھانے والوں کے مددگار ہوتے ہیں‘ پس میں آپ کوپناہ دیتا ہوں‘ لوٹ جائیے اور اپنے شہر میں اپنے رب کی عبادت کیجیے‘ ‘(سُبُلُ الْھُدیٰ وَالرَّشَاد‘ ج:2ص:410)۔
ذرا غور فرمائیے ! خُلُقِ مصطفی ﷺ کے بارے میں جو کلمات آپ کی رفیقۂ حیات حضرت خدیجہ نے کہے ‘بعینہٖ وہی کلمات خُلُقِ صدیقی کے حوالے سے ایک نظریاتی دشمن اور رئیسِ مکہاِبْنُ الدَّغِنَہ نے کہے‘ اس سے معلوم ہوا کہ قُرْبت وصحبتِ مصطفی ﷺکی برکت سے جنابِ صدیقِ اکبرؓ کا کردار خُلُقِ مصطفی کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا‘ اس طرح سوفیصد عکسِ کردارِ مصطفی ﷺکہیں اور ملے گا۔
عام دستور یہ ہے کہ جس پر کوئی طعن کیاجائے یا الزام لگایا جائے تو وہ خود اپنی صفائی پیش کرتا ہے‘ لیکن مقامِ مصطفی ﷺ کے انداز نرالے ہیں کہ طعن مصطفی پر کیا جاتا ہے اور صفائی ربِ مصطفی بیان فرماتا ہے‘ سو جب کچھ عرصے کے لیے وحی موقوف ہوگئی تو کفارِ مکہ نے طعن کیا ''محمد کے رب نے ان کو چھوڑ دیا ہے اور وہ اُن سے ناراض ہوگیا ہے‘‘ بجائے اس کے کہ آپ جواب دیتے ‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ''(اے حبیبِ مکرم!) آپ کے رب نے آپ کو چھوڑا نہیں ہے اور نہ وہ آپ سے ناراض ہوا ہے اور بے شک بعد والی ساعت آپ کے لیے پہلی ساعت سے بہتر ہے‘‘ (الضحیٰ:4)۔ اسی طرح جب حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو خرید کر آزاد کرنے پر کفارِ مکہ نے طعن کیا کہ ہو نہ ہو‘ ابوبکر نے بلال کے کسی احسان کا بدلہ چکایا ہے‘ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ''اور اس آگ سے وہ سب سے زیادہ متقی شخص محفوظ رہے گا‘جو (اللہ کی راہ میں) اپنامال دیتا ہے‘ تاکہ اس کا قلب (مال کی محبت سے) پاک ہوجائے اور اُن پر کسی کا کوئی احسان نہیں ہے‘ جس کا بدلہ چکا رہے ہوں‘ وہ تو صرف اپنے بزرگ وبرتر پروردگار کی رضا کے لیے (اپنا مال خرچ کرتے ہیں)اور وہ عنقریب اُن سے راضی ہوجائے گا‘‘ (اللیل:17-21)۔
جماعتِ صحابہ میں حضرت صدیقِ اکبر کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی چار پشتوں کو شرفِ صحابیت سے سرفراز فرمایا''حضرت موسیٰ بن عقبہ بیان کرتے ہیں:ہم صرف چار ایسے افراد کو جانتے ہیں جو خود بھی مشرف بہ اسلام ہوئے اور شرف صحابیت پایا اوران کے بیٹوں نے بھی اسلام قبول کر کے شرفِ صحابیت پایا : ابوقحافہ‘ ابوبکرصدیق عبداللہ‘ عبدالرحمن بن ابی بکر‘ ابوعتیق محمد بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہم‘‘ (اَلْمُعْجَمُ الْکَبِیْر لِلطَّبْرَانِیْ:11)۔
اللہ تعالیٰ کا ارشادہے ''اگر ہم ان پریہ فرض کردیتے کہ اپنے آپ کو قتل کرو یا اپنے گھرو ں سے نکل جائو تواُن میں بہت کم ہوں گے اس پر عمل کریں گے‘‘(النساء:66)۔
عامر بن عبداللہ بن زبیر بیان کرتے ہیں: جب یہ آیۂ مبارکہ نازل ہوئی تو حضرت ابوبکر نے عرض کی:یارسول اللہ! اللہ کی قسم! اگر آپ مجھے حکم فرمائیں کہ میں اپنے آپ کو قتل کردوں تو میں ضرور ایسا کروں گا‘ آپ ﷺ نے فرمایا: ابوبکر! تم نے سچ کہا‘‘ (تفسیر ابن ابی حاتم:5566)۔ حضرت عبداللہ بن قرط بیان کرتے ہیں نبی ﷺ نے فرمایا '' اللہ تبارک وتعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑا دن ''یوم النّحر‘‘ ہے پھر دوسرادن‘‘راوی بیان کرتے ہیں؛پانچ یا چھ اونٹنیاں رسول اللہ ﷺ کے قریب آئیں اور وہ آپ کے قریب ہونے لگیں ‘تاکہ آپ ﷺ جس کے گلے پر چاہیں چھری پھیردیں‘‘ (ابودائود:1765)۔ امیر خسروؔ نے اس روایت کو نہایت حسین انداز میں منظوم کیاہے:؎
ہمہ آہوانِ صحرا سرِ خود نہادہ بر کف
بہ امید آنکہ روزے بشکار خواہی آمد
(ترجمہ)''صحرا کی کے سارے ہرن اپنا سر اپنی ہتھیلی پر رکھ کرتیار بیٹھے ہیں کہ شاید کسی دن آپ ﷺ ان کے شکار کے لیے تشریف لائیں اوروہ آپ کا شکار بننے کی سعادت حاصل کریں ‘‘۔
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی امتیازی خصوصیات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ ظاہری میں آپ نے امامت فرمائی ‘ حدیث پاک میں ہے‘آپ ﷺ نے فرمایا ''جس قوم میں ابوبکر موجود ہوں‘ کسی اور کے لیے سزاوار نہیں کہ وہ امامت کرے‘‘ (سنن ترمذی:3670)۔ اسی طرح خلیفۂ اول بلافصل ہونے ‘مانعینِ زکوٰۃ اور منکرینِ ختم نبوت کے خلاف عَلَمِ جہاد بلند کرنے اور جمعِ قرآن کا اعزاز حاصل کرنے میں بھی آپ افضل الصحابہ ہیں۔